• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میری پہلی ملاقات اپنے دوست مائیکل سویلن سے2009میں سر نکولس برنگھٹن کے گھر پر ہوئی۔سرنکولس ملکہ برطانیہ کی ہدایت پر ماضی میں صاحب بہادر رہ چکے تھے اور 1987 سے 1994 تک برطانیہ کے پاکستان کے لئے ہائی کمیشنر تھے۔ وہ ہمیشہ سے ہی پاکستانی طالب علموں کو اپنے پسندیدہ مضمون پاکستانی سیاست پر گفتگوکرنے کے لئے اپنے گھر پر مدعو کیا کرتے تھے۔ یہ ملاقاتیں نا صرف پاکستانی طلبا بلکہ اس خطے میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں میں بھی بہت مقبول تھیں۔
مائیکل اس وقت کیمبرج ٹرسٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہا تھا جو کہ دولت مشترکہ کے ممالک کے طلباکو اسکالرشپ فراہم کرتا تھا۔اور مجھے بھی یہ اسکالر شپ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔مائیکل میرے ورلڈ ریکارڈ میں خصوصی دلچسپی رکھتا تھا جو میں نےAلیول میں 22 A'sلیکر قائم کیا تھا۔میںنے2011میں اپنی گریجویشن مکمل کی اور پاکستان آگیا۔کچھ عرصہ بعد مائیکل کی تقرری Cambridge International Examsکے چیف ایگزیکٹو کے طور پر ہوگئی، جو کہ پاکستان میں OاورAلیول کو دیکھ رہا تھا۔
میں نے ای میل کے ذریعے اسے مبارکباد پیش کی اور گفتگو کا یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔
میری مائیکل سے دوبارہ ملاقات 2013میں ہوئی،لیکن ہمیشہ ٹھنڈے مزاج کا مائیکل اس دن کچھ مختلف معلوم ہورہا تھا۔مائیکل کو پاکستان آنا پڑا تھا کیونکہ مطالعہ پاکستان اوراسلامیات کے مضمون کا ایک امتحانی سوال ایک ایسے ملک سے فیس بک پر پوسٹ کردیا تھا جہاں یہ امتحان پاکستان سے پہلے منعقد کروایا گیا تھا۔اور ہلکی سی بھی یہ بات سامنے آنے پر اس کے ادارے کی ساکھ متاثر ہوسکتی تھی۔لہٰذا پرچہ منسوخ کرتے ہوئے اسکا دوبارہ سے انعقاد کیا گیا۔والدین کی جانب سے زبردست احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی گئی تو وہ بذات خود پاکستان آیا تاکہ والدین کا ادارہ پر اعتماد بحال کیا جاسکے اور ان کے مسئلہ کا حل نکالا جا سکے۔وہ ایک ایسے ادارے کے سربراہ کا جو دنیا کے150 سے زائد ممالک میں کام کررہاہے اور ہزاروں طلبا اس سے منسلک ہیں۔لیکن وہ پھر بھی پاکستان آیاکیونکہ امتحان کی سالمیت وشفافیت کا معاملہ بہت اہم ہوتا ہے۔اور جب میں نے جیو نیوز کی ایک رپورٹ کے لیے اس کا انٹرویو کیا تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے افسوس ہے کہ طلبا کو امتحان دوبارہ دینا پڑے گا، لیکن جن طلبا نے سخت محنت کی یہ ان کے ساتھ زیادتی ہے کہ کوئی اور اس امتحان سے ناجائز فائدہ اٹھا لے۔
اس طرح ترقی یافتہ ممالک میں کسی امتحان کی شفافیت کو اہمیت دی جاتی ہے اور اسے مقدس سمجھا جاتا ہے۔لیکن پاکستان میں ہم اس بات کی پرواہ ہی کرتے اور نہ کوئی دوبارہ امتحان لینے کی زحمت گوارا کرتا ہے۔ اور وقتاًفوقتاً ہم ایسا ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔حال ہی میں رپورٹ آئی کہ لاہور میں بورڈ کے امتحانات کو بری طرح سبوتاژ کیا گیا۔معروضی حصہ میں متعدد سوالات کے دو دو صحیح جوابات دیے ہوئے اور اکثر سوالات کے صحیح جوابات موجود ہی نہیں تھے۔اور کچھ سوالات ہی غلط دیے ہوئے تھے۔یہ صرف طلبا کے ساتھ مذاق نہیں بلکہ ایک منہ بولتا ثبوت ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے تعلیم کو کتنا سنجیدہ لیتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاںابھی اسے حقیقی معنوںمیں قومی رسوائی نہیں سمجھا جاتا۔ترقی یافتہ ممالک میں امتحان دوبارہ لیا جاتا ہے۔پرچہ سوالات بنانے والے ذمہ داروں کو معطل کردیا جاتا ہے۔پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا۔طلبا پورا سال اپنے امتحان کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔بلاشبہ یہ طلبا کی محنت کی توہین ہے جوطالب علم اچھے نمبر لینے کا اہل ہوتا ہے اسی کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ یہی بات طلبا کے لیے ناقابل یقین حد تک حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے۔کیا ان کے ذہنوں میں یہ سوال نہیں پیدا ہونگے کہ ہماری سخت محنت کا فائدہ کیا اگر ہمارے امتحان میں شفافیت ہی نہ ہو۔
امتحان اور تعلیمی معیارات پر بہت باتیں کی جاسکتی ہیں۔لیکن یہاں معاملہ شفافیت کا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ جو کچھ غلط ہو رہا ہے ہمیں اس کی قطاً پرواہ نہیں اور نہ ہم اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ ان طالب علموں کیساتھ بڑی بدسلوکی ہے جو یہ امتحان دیتے ہیں۔
میری خواہش ہے کہ ہمیں بھی مائیکل جیسے لوگ میسر آسکیں جو ہمارے تعلیمی بورڈز اور نظام کو موثر طریقے سے چلانے کے اہل ہوںتاکہ طلبا کی محنت کے ساتھ انصاف ہوسکے اور انھیں ان کا جائز حق مل سکے۔



.
تازہ ترین