• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ جہاں بھی جائیں ایک ہی سوال کیا جاتا ہے کہ پاناما کیس میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ کب آرہا ہے۔ سوائے جج صاحبان کے کسی کو معلوم نہیں کہ یہ فیصلہ کب ہوگا۔ فیصلے کو محفوظ کئے ہوئے اب 7ہفتے ہو گئے ہیں ابھی تک سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی اعلان نہیں آیا کہ یہ کب سنایا جائے گا۔ یقیناً 5ججوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔ یہ مقدمہ انتہائی پیچیدہ ہے اور اس کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اس کے ہر پہلو کا جائزہ لے کر ہی کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ یہ کیس آئینی اور قانونی طور پر بہت اہم ہونے کے علاوہ سیاسی لحاظ سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس فیصلے کے سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ 26ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات ہیں جن کا جج صاحبان نے بغور جائزہ لینا ہے۔ ہر سطح پر بے چینی اور اضطراب اپنی جگہ مگر عام خیال یہی ہے کہ فیصلہ کسی وقت بھی آجائے گا۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے تو اب یہاں تک کہہ دیا ہے کہ قوم فیصلے کے انتظار میں تھک چکی ہے۔ قوم کا اس انتظار میں تھکنا یا نہ تھکنا تو درکنار ہے دراصل عمران خان کافی نڈھال ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی مستقبل کی ساری سیاست اس پر منحصر ہے۔ اس انتظار کی وجہ سے ان کی سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کا پلان ہے کہ جونہی فیصلہ آئے گا تو وہ وزیراعظم نوازشریف اور ان کی حکومت پر چڑھ دوڑیں گے اور ان کا جینا دوبھر کر دیں گے۔ انہیں امید ہے کہ ان کے موقف کو پذیرائی ملے گی۔ وہ امید کرتے ہیں کہ اس فیصلے کی بنا پر وزیراعظم کو ناک آئوٹ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور2018ء میں ہونے والے انتخابات بھی جیت جائیں گے۔
صرف وہی نہیں جنہوں نے ساری امیدیں عدالتی فیصلے سے لگا رکھی ہیں بلکہ سابق صدر آصف علی زرداری بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ اس حکم کے بعد ہی اپنی نئی پالیسی کا اعلان کریں گے جس کے تحت وہ آئندہ انتخابات میں بڑی اچھی کارکردگی دکھانے کے قابل ہو جائیں گے۔ وہ بھی پرامید ہیں کہ اس فیصلے کی وجہ سے نوازشریف بڑی حد تک داغدار ہو جائیں گے اور انہیں کافی نقصان ہو جائے گا جس سے وہ سنبھل نہیں سکیں گے۔ آصف زرداری بھی عدالت عظمیٰ کو اشتعال دلانے کی کوششوں میں اپنا پورا حصہ ڈال رہے ہیں۔ وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں نوازشریف کے خلاف فیصلے نہیں سناتی بلکہ انہوں نے ہمیشہ پیپلزپارٹی کو ہی نشانہ بنایا ہے جو کہ یقیناً ایک غلط نقطہ نظر ہے کیونکہ عدالتوں نے فیصلے ثبوت ،حقائق اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں کرنے ہوتے ہیں نہ کہ سیاستدانوں کی ترجیحات کی بناپر اور انہیں خوش کرنے کے لئے۔
ن لیگ بھی بڑی بے چینی سے فیصلے کی منتظر ہے کیونکہ اس کی بھی کوشش ہے کہ کہیں یہ فیصلہ اس کے بے مثال میگا ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے حاصل کی گئی مقبولیت کو متاثر نہ کردے۔ تاہم نہ صرف سپریم کورٹ میں اس مقدمے پر کارروائی سے کئی ماہ قبل بلکہ بعد میں بھی کئی بار ن لیگ کے اہم رہنما بشمول وزیراعظم بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہو گا وہ اس کو من و عن تسلیم کریں گے اور اس کے خلاف اپیل نہیں کریں گے۔
بظاہر لگتا ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں ’’ڈیل‘‘ ہو گئی ہے مگر ٹھوس حقائق کو سامنے رکھیں تو یہ تاثر بالکل بے بنیاد ،لغو اور فضول ہے۔ چند ہفتوں میں ہی ایان علی کا نام ای سی ایل سے ہٹ گیا اور وہ بیرون ملک چلی گئیں ،سابق وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی حج کرپشن کیس میں بری ہو گئے ،ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت ہو گئی اور شرجیل میمن واپس آگئے۔ دیکھا جائے تویہ ایک پرفیکٹ ڈیل لگتی ہے۔ مگر حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ ایان علی کو سپریم کورٹ نے باہر جانے کی اجازت دی ،حامد سعید کاظمی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بری کیا ،ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت سندھ ہائی کورٹ نے لی اور شرجیل میمن کو ضمانت اسلام آباد ہائیکورٹ نے دی۔ اگر واقعی ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں ’’ڈیل ‘‘ ہو گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ڈیل میں عدالت عظمیٰ اور2 ہائیکورٹیں بھی شامل ہیں۔ اس طرح کا الزام سراسر توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر واقعی وفاقی حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کو بھی اس ’’ڈیل‘‘ میں شامل کرا لیا ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ پاناما کیس کے فیصلے کے انتظار میں اتنی پریشان ہے اگر اس کا اتنا ہی زیادہ اثرورسوخ ہے تو وہ عدالت عظمیٰ سے بھی جلد از جلد اپنی مرضی کا فیصلہ کیوں نہیں لے سکی۔ ایان علی کے کیس میں وزارت داخلہ نے کیس کی بڑی شدومد سے پیروی کی اور ہر عدالت میں اس کی بیرون ملک روانگی کو روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی اور بالآخر سپریم کورٹ نے ماڈل کو باہر جانے کی اجازت دے دی۔ حامد سعید کاظمی کا کیس بھی وفاقی حکومت نے بڑے بھرپور انداز میں لڑا اور ایک پرائیویٹ وکیل کو لاکھوں روپے کی فیس دی تاکہ وہ سابق وزیر کی سزا کو بحال رکھوا سکے مگر ناکام رہی۔ حکومت کی طرف سے ہرا سٹیج پر ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت کی بھی مخالفت کی گئی مگر کامیابی نہ ہو سکی۔ سندھ ہائی کورٹ کے 2جج صاحبان میں جب ضمانت کے مسئلے پر اختلاف ہوا تو پھر ریفری جج نے ضمانت کے حق میں فیصلہ کیا۔ شرجیل میمن کی عبوری ضمانت کی بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سخت مخالفت کی گئی۔
عمران خان کا الزام کہ ایان علی کی بیرون ملک روانگی ،ڈاکٹر عاصم اور حامد سعید کاظمی کی رہائی اورشرجیل میمن کی وطن واپسی ن لیگ اور پی پی پی کی ڈیل کا نتیجہ ہے میں کچھ سچائی ہو سکتی تھی اگر حکومت نے ان تمام کیسوں کی بھرپور پیروی نہ کی ہوتی اور کسی جگہ بھی ذرا سی ڈھیل دکھائی ہوتی جس کی وجہ سے ان کے خلاف کیس کمزور ہو جاتے۔ پیپلزپارٹی تو دن رات شور مچا رہی ہے کہ حکومت ا س کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہی ہے۔ ان حالیہ عدالتی فیصلوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ آصف زرداری کی یہ بات کہ عدالتوں نے ہمیشہ پیپلزپارٹی کے خلاف ہی کام کیا ہے بالکل بے بنیاد ہے۔ کئی سالوں سے ان کی ساری سیاست ہی ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین کے ارد گرد گھوم رہی تھی اور ان کا وفاقی حکومت کے خلاف غصہ بھی انہی دو شخصیات کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی وجہ سے ہی تھا۔ بالآخر انہیں عدالتوں نے ہی ریلیف دیا ہے اور ان کی دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ہے یعنی ایان علی بھی آزاد ہو گئیں اور ڈاکٹر عاصم بھی جیل سے باہر آگئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کچھ عرصہ قبل یہ کہا تھا کہ پیپلزپارٹی کے اعلیٰ سطح سے یہ پیغام آیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین پر ہاتھ نرم رکھے تو اس کے ساتھ معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں مگر بات یہاں تک ختم نہیں ہوئی تھی کیونکہ حکومت نے ایسی کوئی ڈیل نہیں کی تھی اور اس پیش کش کو رد کر دیا تھا۔ ویسے بھی نہ ہی وفاقی اور نہ ہی سندھ حکومت ڈاکٹر عاصم کے مسئلے میں کچھ زیادہ کر سکتی تھی کیونکہ 4سو ارب سے زائد کرپشن کا کیس دراصل رینجرز نے بنایا تھا۔



.
تازہ ترین