• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کلیرپیری برطانیہ میں ریلوے کی وزیر تھیں۔ سدرن ریلوے میں انتظامیہ کی غفلت کے باعث مسافروں کو کچھ مشکلات پیش آئیں۔ پیری کو ان مشکلات پر دکھ ہوا۔ اس نے لوگوں کی پریشانی پر معافی مانگی اور فوراً استعفیٰ دے دیا۔ استعفیٰ دیتے وقت پیری کہنے لگی کہ..... ’’مجھے خود کو ریلوے منسٹر کہتے ہوئے شرم آتی ہے....‘‘ برطانیہ میں کچھ مشکلات کے باعث لوگ پریشان ہوئے تو وہاں کی ریلوے کی وزیر مستعفی ہوگئی۔ اس کے لئے وزارت میں رہنا شرمندگی کا باعث تھا۔ اسےریلوے منسٹر کے طور پر شرم آنے لگی مگر ایک ہم ہیں کہ ہمارے ہاں موجودہ عہد میں چھوٹے موٹے حادثات کو شامل کرکے قریباً چار سو حادثات ہوچکے ہیں، کتنا قومی نقصان ہوا، سینکڑوں افراد کی جان چلی گئی مگر ہمارا وزیر پیری نہ بن سکا، اسے ریلوے منسٹر کے طورپر شرم نہ آسکی۔
چند روز پہلے پنجاب کے وزیرتعلیم رضا علی گیلانی نے ذاتی حیثیت میں کہا تھا کہ جس طالبہ نے حجاب پہنا اسے پانچ نمبر اضافی دیئے جائیں گے۔ خیر یہ رائے حکومت کی نہیں تھی، وزیر صاحب کی تھی۔ اب وزیر صاحب کے اپنے ضلع اوکاڑہ میں کیا ہوا ہے کہ وہاں اسلامیہ اسکول نیوکیمپس میں بنائے گئے طالبات کے امتحانی سینٹر میں مردانہ اسٹاف آتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ طالبات اپنے چہروں سے نقاب ہٹائیں۔ اپنےبرقعے اتار دیں۔ یہ سرگودھا یونیورسٹی کے تحت ثقافت کے پرچے کا واقعہ ہے۔ طالبات نے اپنی ثقافت چھوڑنے سے انکار کیا تو انہیں امتحانی مرکزسے نکال دیا گیا۔ اوکاڑہ شہر کے کئی معززین کی بیٹیاں کہتی رہیں کہ اگر ہمارے نقاب اتروانے ہیں تو اس کےلئے خواتین پر مشتمل اسٹاف آئے، ہم نامحرم مردوں کے سامنے اپنے چہروں کو بے نقاب نہیں کریں گی۔ ہم اپنی تلاشی دینے کے لئے تیار ہیں مگر اس کے لئے خواتین اسٹاف ممبران ہوں۔ ’’مردانہ کاوش‘‘ کی ناکامی کے بعد ان طالبات کا یہ پرچہ ضائع ہوچکا ہے، رضا علی گیلانی کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سسٹم میں خرابیاں ہمارے سیاسی نظام کے باعث ہیں۔ موجودہ پارلیمانی نظام لوگوں کو فائدہ پہنچانے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ ویسے بھی اس نظام میں سیاستدانوں نے الیکشن کو دولت کا کھیل بنا دیا ہے۔ وہ دولت کے حصول میں بہت کچھ کر گزرتے ہیں۔ اداروں کی سربراہیاں ایسے افراد کو سونپ دیتے ہیں جو کرپشن میں معاونت کرتے ہیں،وہ انفرادی فائدے کے لئے اجتماعی فائدے کو قربان کردیتے ہیں۔
میں نے گزشتہ کالم میں اوگرا سے متعلق چند حقائق لکھے تھے، جس پر محب وطن خوش ہوئے مگر چند ایک کو اچھا نہ لگا۔ میرے نزدیک کوئی ایک فرد یا چند افراد پوری قوم سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔ آج ایل این جی سے متعلق کچھ حقائق پیش کرنےلگاہوں ہوسکتا ہے کسی کو اس ملک کی بہتری کا خیال آ جائے۔ اوگرا نے 2014میں ایک کمپنی کوپورٹ قاسم میں ایل این جی ٹرمینل لگانے کا غیرقانونی کنسٹرکشن لائسنس جاری کیا۔ اس کے غیرقانونی ہونے کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ 2006کی ایل این جی پالیسی کے تحت ایل این جی رولز 2007مرتب کئے گئے۔ ان رولز کی روشنی میں درخواست کے ساتھ چند چیزوں کا ہونا ازحد ضروری ہے مگر افسوس کہ جس کو لائسنس دیا گیا اس نے پورٹ قاسم اتھارٹی، وزارت ِ دفاع، وزارت ِ صنعت اور صوبائی حکومت سے این او سی لینا ضروری نہ سمجھا حالانکہ رولز کے تحت یہ تمام اجازت نامے ضروری تھے۔ ایل این جی رولز 2007کے مطابق چیف انسپکٹر آف ایکسپلوسیوز سے پراجیکٹ سیفٹی کے لئے ایکسپلوسیو درخواست کے ساتھ منسلک کرنا ضروری ہے مگر دکھ کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس لائسنس کو بھی ضروری نہ سمجھا گیا۔ ایل این جی پالیسی 2006کے تحت ایل این جی ٹرمینل پورٹ قاسم اتھارٹی کے ایل این جی زون کے لئے لازمی ہے مگر یہ درخواست سیدھی اوگرا کو جمع کروائی گئی جو کہ قانوناً غلط ہے۔ یاد رہے کہ ایک آئینی پٹیشن 2013/11میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ حکم فرمایا کہ ایل این جی کی درآمد، ٹرمینل کنسٹرکشن، ٹرمینل آپریشن سمیت دیگر معاملات میں شفافیت کویقینی بنایا جائے۔ یہ شفافیت ایل این جی پالیسی 2006اور ایل این جی رولز 2007کے تحت ہونی چاہئے مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ ایک طرف یہ کام سپریم کورٹ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے جبکہ دوسری طرف اس ٹرمینل کے کنسٹرکشن لائسنس کے اجراکے سلسلے میں نیب اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی انکوائری ہچکولے کھارہی ہے۔ قانون کے مطابق کنسٹرکشن لائسنس اوگرا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایل این جی جاری کرسکتے ہیں۔ اس وقت کے ای ڈی نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میںنیب آرڈیننس کے کریمنل سیکشن کو مدنظر رکھ کر جانچ پڑتال کی اوراس کے بعد ای ٹی پی ایل کو پورٹ قاسم اتھارٹی کے کیمیکل زون میں ایل این جی ٹرمینل کی کنسٹرکشن کالائسنس جاری نہ کیا بلکہ شفافیت کے پیش نظر انکار کردیا۔ انہوں نے اپنی تفصیلی رپورٹ (13مارچ 2014) میں بتایا کہ درخواست نامکمل ہے۔ اس گستاخی پر اس افسر کو دس اپریل 2014کے دن معطل کردیا گیا۔ اس کیخلاف مقدمات درج کروا دیئے گئے۔ مزید تسکین کے لئے ایف آئی اے میں انکوائری بھی شروع کروا دی گئی۔ عدالت کو افسر کی فرض شناسی پسند آئی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس افسر کو باعزت بری کیا۔
اوگرا ریکارڈ کے مطابق 8اپریل 2014کو اوگرا کی طرف سے ای ٹی پی ایل کے چیف ایگزیکٹو کو ایک خط لکھا گیا کہ وزارت ِ دفاع اور نیول ہیڈکوارٹر سے این او سی لے کر فوری طور پر جمع کروائیں۔ یہ خط گواہی دے رہا تھا کہ اس وقت کے ایگز یکٹو ڈائریکٹر کی رپورٹ درست ہے۔ 10اپریل 2014کو ای ڈی کی معطلی کے بعد ایک پسندیدہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایل این جی تعینات کیا گیا تاکہ راستے کی رکاوٹ کو ہٹا کر اصل معاملہ پایہ ٔ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ اس افراتفری میں تین ’’کرو‘‘ قسم کے افسران کے ذریعے ریکارڈ میں ردوبدل ’’فرما‘‘ کے 13جون 2014کو اپنی پسندیدہ کمپنی کے لئے رولز لتاڑتے ہوئے کنسٹرکشن لائسنس ’’عطا‘‘ کردیا۔ لائسنس کی شق 19.1 کے مطابق اور سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں شفافیت کو نظرانداز کرنے کا ’’کرتوت‘‘ نیب میں زیرالتوا ہے۔ اس التوا کی وجہ سے اوگرا ایک کمپنی کو آپریشنل لائسنس جاری نہیں کیا مگر حیرت ہے کہ قطر سے ایل این جی اسی ٹرمینل کے ذریعے آرہی ہے۔ یہ عمل بالکل غیرقانونی ہے۔ واضح رہے کہ یہ ایل این جی قطر کی اسی کمپنی سے غیرقانونی طور پر برآمد ہو رہی ہے جس کے مالک کے خط مشہور ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ٹرمینل لگا ہی نہیں بلکہ صرف ایک ایف ایس آر یو رکھ دیا گیا ہے۔ اسے کمپنی والے کیمیکلز کی برآمد کے لئے استعمال کرتے تھے۔ اسی کو ایل این جی کی برآمد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ سارے معاملات طے کرنے والے چار افسران کے بارے میں اوگرا خاموش ہے۔ اوگرا کو ان افسران کا غیرقانونی کام نظر نہیں آرہا حالانکہ مذکورہ کمپنی نے وزارت ِ دفاع، وزارت ماحولیات، پورٹ قاسم اتھارٹی کے علاوہ مقامی اور صوبائی حکومت کو یکسر نظرانداز کیا ہے۔ ان میں سے کسی ایک سے بھی این او سی نہیں لیا گیا۔ نہ ہی دھماکہ خیز مواد کے چیف انسپکٹر سے لائسنس حاصل کیا گیا۔ یہ تمام افسران اوگرا کے اس افسر کے زیرسایہ کام کر رہے ہیں جن کی اپنی تقرری شکوک سے بالاتر نہیں۔
میرے قارئین کی خواہش ہے کہ میں سیاسی کالم لکھوں مگر ہوسکتا ہے کہ قومی جذبے کے تحت ابھی اوگرا کے بارے میں مزید لکھوں۔ فی الحال منصور آفاق کا شعر پیش خدمت ہے کہ؎
سفید پوش ہیں سہمے ہوئے مکانوں میں
گلی میں پھرتی ہے کالک بلائیں حاکم ہیں



.
تازہ ترین