• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب غالب نے کہا تھا کہ ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد، تو غالب کے ذہن میں ایسا مکیں رہا ہوگاجو اپنے مکان کا دھیان رکھتا ہو، اسے بنا کر سنوار کر رکھتا ہو اور وہ ہر قسم کے خطروں سے بچا کر رکھتا ہو۔ اس بات سے خیال اس حاکم کی طرف جاتا ہے جو اپنی رعایا کا دھیان رکھتا ہو، ان کے دکھ درد سے واقف ہو اور ان کو ہر طرح کے اندیشوں سے محفوظ رکھتا ہو۔ایسے ہی فرماں روا سے اس کی مملکت کو شرف نصیب ہوتا ہے۔ یہ نہ ہو اور سارا زور خطابت پر صرف ہوتا ہو اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس کی ساری ترجیحا ت بے تکی اور تمام تدبیریں بے سرو پا ہوں تو ایسی سرزمینیں وقت کی تپش میں جھلس جایا کرتی ہیں۔اس بات سے خیال ایک تازہ سانحے کی طر ف جاتا ہے، خدا جانے کیا ہوا ہے کہ جدھر دیکھئے آگ لگنے کی خبریں آرہی ہیں، فاقہ کشوں کی جھونپڑیوں سے دولت مندوں کے کارخانوں اور گوداموں تک، گرتے ہوئے ہوائی جہازوں سے لے کر مسافروں سے بھری ریل گاڑیوں تک،شعلوں کو جہاں بھی دخل کا روزن نصیب ہوجائے، وہیں سب کچھ بھسم کرڈالتے ہیں۔ مجھے تشویش جا بجا آگ لگنے پر نہیں،مجھے جو احساس مارے ڈالتا ہے وہ حاکم وقت کی بے حسی ہے۔ آج جب دنیا کہیں کی کہیں نکلی چلی جارہی ہے، پاکستان میں خدا کسی کو آگ بجھانے والے نظام کی زبوں حالی نہ دکھائے۔ وہی دقیا نوسی فائر انجن، وہی غریب فائر فائٹر جن کے پیروں میں ربڑ کی چپلیں اور ادھڑی ہوئی وردی جس پر قدامت کے پیوند لگے ہوئے۔سب سے پہلے تو آگ لگنا ہی غضب ہے، اس کے بعد فائر بریگیڈ کو اطلاع کرنے کا دشوار مرحلہ اور آخر میں آگ بجھانے والے عملے کا جی بھر کر تاخیر سے آنا۔ آخری غضب اس وقت ہوتا ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ فائر انجن میں پانی کم ہے، پانی تو خیر جیسے تیسے مل جاتا ہے، خوف اس وقت آتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ آگ کیمیاوی مادّے میں یا بجلی کے آلات میں لگی ہے جس پر پانی ڈالنا خطرے سے خالی نہیں، اس کے لئے آگ بجھانے والے جھاگ یا کیمیاوی اشیا کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ یا تو کمیاب یا نایاب ہیں۔ اب تو اونچی عمارتوں میں لگی آگ پر قابو پانے کے لئے اسنارکل اور اونچی سیڑھیاں کام میں آتی ہیں۔ پاکستان میں ان کا فقدان ہے۔ اور ایک ان ہی کا کیا، ہر ضروری شے کا فقدان ہے۔فائر انجن نا کافی ہیں،پرانے ہیں، بعض بیکار پڑے ہیں اور زنگ کھا رہے ہیں، اکثر کے اسپیئر پارٹ نصیب نہیں اور کہیں کہیں عملے کی باقاعدہ تربیت نہیں۔ آخری اور سب سے بڑا غضب یہ کہ جس عمارت میں آگ لگی ہے وہاں آگ بجھانے کا بندوبست نہیں، لوگوں کے بچ کر نکلنے کے راستے یا تو موجود نہیں یا باہر نکلنے کے راستے میں کباڑ بھرا ہوا ہے۔اور ایک اور المیہ۔مہذب ملکوں میں یہ دستور ہے اور یہ چلن عام ہے کہ جس عمارت میں کاروباری ادارے یا دفتر وغیرہ ہوں اور بڑا عملہ کام کرتا ہووہاں سال میں ایک بار فائر ڈرل ضرور ہوتی ہے یعنی لوگوں کی مشق ہوتی ہے جس میں انہیں سال کے سا ل یاد دلایا جاتا ہے کہ عمارت میں آگ لگنے کی صورت میں انہیں کیا کرنا اور کیا نہ کرنا چاہئے۔ اس کے لئے سال میں ایک مرتبہ فائر بریگیڈ کا کوئی سرکردہ ملازم عمارت کے پورے عملے کو بتاتا ہے کہ عام طور پر آگ کیسے لگتی ہے اور کیسے پھیلتی ہے۔ پھر وہ بتاتا ہے کہ آگ لگنے کی صورت میں انہیں کیا کرنا ہوگا، کن راستوں سے نکلنا ہوگا اور عمارت سے ذرا فاصلے پر انہیں جمع ہونا ہوگا تاکہ انہیں شمار کیا جائے۔ عملے کی اس تربیتی کلاس میں شرکت لازمی ہوتی ہے۔ غیر حاضر لوگوں کو چھوڑا نہیں جاتا اور انہیں کسی نہ کسی روز کلاس میں بیٹھ کر لیکچر سننا پڑتا ہے۔ آخری بات یہ کہ تربیت حاصل نہ کرنے والوں کوکسی نہ کسی شکل میں سزا بھی ملتی ہے۔ شہر لندن تو ایک بار جل کر خاک ہو چکا ہے اس لئے یہ لوگ اپنی جان خطرے میں ڈالنے پر آمادہ نہیں۔
یہاں آگ بجھانے والوں کی تنخواہیں اچھی ہوتی ہیں (حالانکہ یہ لوگ اکثر اجرت بڑھانے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں)۔کچھ بھی ہو، معاشرہ اپنی فائر بریگیڈ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کے کتنے ہی شہروں میں ہم نے فرض کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہوجانے والے فائر فائٹرز کی یاد گاریں دیکھی ہیں۔ ان کی قربانی کی تازہ اور بڑی ہی دل دکھانے والی داستان امریکہ میں نائن الیون کے سانحے سے وابستہ ہے کہ جس وقت دہشت گرد اپنے بڑے بڑے مسافر طیارے نیو یارک کی فلک شگاف جڑوا ں عمارتوں سے ٹکرا کر انہیں تباہ کر رہے تھے اور آگ میں پھنسے ہوئے لوگ بالائی منزلوں سے کود کر جان دے رہے تھے اس وقت آگ بجھانے والے بیسیوں افرا د سیڑھیوں کے راستے اوپر چڑھ رہے تھے یہ جانے بغیر کہ وہاں موت ان کی راہ تک رہی ہے۔سب کے سب جھلس کر مرگئے۔
آخر میں ایک تازہ مشاہدہ بیان کرتا چلوں۔کچھ عرصہ ہوا ترکی کے تاریخی شہر استنبول جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں یونی ورسٹی کی جس عمارت میں اردو کانفرنس منعقد تھی اس کے سامنے شاہی دور کا بڑا سا باغ تھا۔ وہ شہر کی سب سے اونچی جگہ تھی۔وہاں سے پورا استنبول دکھائی دیتا تھا۔ عین اسی جگہ گزرے دنوں کا بہت اونچا مینار آج تک کھڑا ہے۔ اس مینار کے اوپر نگہ بانوں کا رات دن پہرہ رہا کرتا تھا۔ وہ لوگ چوبیس گھنٹے پورے شہر پر نگاہ رکھتے تھے۔ اگر کہیں آگ لگتی تو انہیں نظر آجاتا اور فوراً ہی آگ بجھانے کی کارروائی شروع ہوجاتی۔
سوچتا ہوں کہ ایسے شہر تو ہوں گے لیکن اب ایسے حاکم شہر کہاں؟



.
تازہ ترین