• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اکثر کالموں میں سندھ کی دو اہم برادریوں کے درمیان محبت اور ایک دوسرے کے لئے ایثار کی وکالت کرتا رہا ہوں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ ’’مہربانوں‘‘ کو یہ سوچ پسند نہیں لہذا وقت بہ وقت ایسی سوچ کے حصے بخرے کرنے کے لئے کوششیں کی جاتی رہی ہیں‘ میں یہ کالم ایک دو ہفتے پہلے لکھے گئے کالم کے حوالے سے لکھ رہا ہوں۔ میرے جس کالم کے بارے میں ہمارے ایک ’’محترم‘‘ نے کالم لکھ کر میری کئی باتوں کا مضحکہ اڑانے کی کوشش کی ہے، اس میں‘ میں نے ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے مردم شماری کے بارے میں سندھ ہائی کورٹ میں داخل کی گئی پٹیشن کا ذکر کیا تھا‘ میرے کالموں کا زور ہمیشہ اس بات پر رہا ہے کہ سندھ کے اندر رہنے والی مختلف برادریوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے بجائے ان کو ایک دوسرے کے نزدیک لایا جائے اور ان کے درمیان محبت کے جذبات کو موجزن کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ میں ہمارے ’’مہربان‘‘ کی طرف سے لکھے گئے اس کالم پر رائے زنی کرنے سے پرہیز کررہا تھا۔ اس سلسلے میں‘ میں دو ہفتوں سے ڈبل مائنڈ رہا مگر آخر کار میں نے اس کالم پر محدود انداز سے رائے زنی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کالم میں کم سے کم دو تین ایسے نکات اٹھائے گئے ہیں کہ اگر ان کی وضاحت نہ کی گئی تو اس کے نتیجے میں غیر ضروری طور پر مختلف برادریوں کے درمیان سنگین نوعیت کی غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں‘ سب سے پہلے تو اس کالم میں میرا ذکر کرتے ہوئے میرے مغل ہونے پر اعتراض کیا گیا‘ دراصل مغل میری ذات ہے اور ’’سندھ‘‘ میری قومیت ہے‘ ہوسکتا ہے کہ میری اس بات پر بھی اعتراض کیا جائے اور سوال کیا جائے کہ اگر سندھ میری قومیت ہے تو پاکستان سے میرا کیا تعلق ہے؟ میں پہلے ہی یہ وضاحت کرتا چلوں کہ مغل میری ذات ہے‘ سندھ میری قومیت ہے اور پاکستان میرا ملک ہے جس طرح ہمیں سندھی ہونے پر فخر ہے اسی طرح ہمیں پاکستانی ہونے پر بھی فخر ہے‘ ایک سندھی کو پاکستانی ہونے پر فخر کیوں نہیں ہوگا‘ سندھ ہی نے تو پاکستان کو جنم دیا ہے‘ سندھ اسمبلی نے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی‘ اس کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا۔ ان ’’محترم‘‘ نے میری طرف سے اپنے کالم میں ڈاکٹر فاروق ستار کو ’’گجراتی میمن‘‘ لکھنے کا ذکر کرتے ہوئے تاثر دیا ہے کہ میں نے ڈاکٹر فاروق ستار کو گجراتی میمن کہہ کر ان کا مذاق اڑایا ہے‘ نہیں جناب میں نے احترام کے طور پر ڈاکٹر فاروق ستار کو گجراتی میمن کہا ہے اور میں اپنی اس بات پر قائم ہوں‘ سندھ کے قومی شاعر شیخ ایاز گجراتی میمنوں کو Lost Sons of Sindh’’سندھ کے گمشدہ سپوت‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ہمارے ان ’’محترم‘‘ کو پتہ نہیں کہ ڈاکٹر فاروق ستار کے آبائو اجداد سندھ کے تھے اور سندھی تھے‘ یہ ٹھٹھہ شہر کا ایک اہم حصہ تھے‘ اس وقت سمندر ٹھٹھہ سے لگتا تھا‘ اس دور میں سمندر کے اس حصے میں کئی مقامات پر پورچو گیز بحری قذاق کافی سرگرم تھے‘ ان کے پاس بڑے بڑے بحری جہاز ہوتے تھے‘ ہر چھ سات ماہ کے بعد یہ بحری قذاق بحری جہازوں کے ساتھ ٹھٹھہ پر حملہ کرتے تھے اور سارے ٹھٹھہ شہر کو لوٹتے تھے‘ ٹھٹھہ کے میمن انتہائی پرامن لوگ تھے‘ ان کے لئے یہ صورتحال انتہائی ناقابل برداشت تھی لہذا ان کی اکثریت گجرات صوبے کی طرف منتقل ہوگئی‘ مگر جب وہ گجرات کے شہری بنے تو خود کو نہ مہاجر کہلاتے تھے اور نہ سندھی کہلاتے تھے‘ وہ خود کو گجراتی کہلاتے تھے مگر پاکستان بننے کے بعد جب ہندوستان میں رہنا ان کے لئے مشکل بنا دیا گیا تو وہ واپس اپنے اصل وطن سندھ میں منتقل ہوگئے لہٰذا گجراتی میمن پہلے بھی سندھی تھے اور اب پھر سندھی ہیں‘ مجھے پتہ نہیں کہ ڈاکٹر فاروق ستار خود کو سندھی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں یا نہیں مگر ان کی برادری کے اکثر لوگ خود کو سندھی سمجھتے ہیں‘ میں یہاں مشہورایک گجراتی صنعتکار کی مثال دینا چاہوں گا‘ یہ بات مجھے اردو بولنے والے ایک دانشور نے بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ الطاف حسین کے برطانیہ منتقل ہونے کے بعد سندھ اسمبلی کے سابق رکن سید سعید حسن اور سیاسی رہنما ہارون احمد نے حیدرآباد میں ایک اجلاس سے خطاب کیا۔ اجلاس میں سید سعید حسن کے ساتھ اسٹیج پر ہارون احمد اور سیٹھ دائود بھی بیٹھے ہوئے تھے‘ ہارون احمد بھی گجراتی تھے مگر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سید سعید حسن نے ہارون احمد کا تعارف کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی مہاجر ہیں‘ ساتھ ہی انہوں نے سیٹھصاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ سیٹھ صاحب آپ بھی تو مہاجر ہیں‘ سیٹھ صاحب پہلے تو خاموش رہے مگر پھر کہنے لگے کہ نہیں میں سندھی ہوں مگر مناسب ہوگا کہ گجراتی میمنوں کی ایسوسی ایشن سے معلوم کیا جائے کہ وہ کیا ہیں۔ اس مرحلے پر میں ایک اور مثال یہاں بیان کرنا چاہوں گا‘ یہ بات بھی مجھے ایک اردو بولنے والے دانشور نے بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ گلشن اقبال میں کراچی کے باشندوں کا ایک اجلاس ہورہا تھا جس کے خاص مہمان جسٹس ظہور الحق تھے۔ اجلاس میں اکثر مقررین خاصے مشتعل تھے اور سندھ کے اصل باشندوں کے خلاف بول رہے تھے‘ ایک مرحلے پر بیرسٹر ظہور الحق سے نہ رہا گیا‘ وہ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ سندھ کے لوگوں کے خلاف ایسی باتیں نہ کی جائیں کیونکہ جب پریشان حال مہاجرین ہندوستان سے سندھ میں داخل ہوئے تو سندھ کے اصل باشندوں نے ان سے انتہائی قابل احترام سلوک کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ ایک ایسے منظر کے وہ خود گواہ ہیںکہ دہلی کے ایسے خاندان جو ہوائی جہازوں کے ذریعے دہلی سے کراچی سفر کرسکتے تھے ان کی ایک بڑی اکثریت دہلی کے ہوائی اڈے پر جمع ہوگئی تھی جو ہوائی جہاز مسافروں کو لیکر کراچی سے دہلی کے ہوائی اڈے پر اترتا تھا تو ان میں پکے ہوئے کھانے کی دیگیں بھی ہوا کرتی تھیں جو ان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے سپرد کی جاتی تھیں‘ یہ کھانا پریشان حال مسلمان کھاکر ہوائی جہازوں میں سوار ہوتے تھے اور جب یہ ہوائی جہاز کراچی کے ہوائی اڈے پر پہنچتا تھا تو وہاں لیڈی ہدایت اللہ کی قیادت میں سندھی مرد اور خواتین ان کا استقبال کرتے تھے اورر یہ کھانا بھی لیڈی ہدایت اللہ کی قیادت میں قائم سندھیوں کا گروپ بھیج رہا تھا۔ ہمارے ’’محترم‘‘ نے اس سول سوسائٹی کا بھی مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے جن کی قیادت کراچی کے ترقی پسند اردو بولنے والے دانشوروں اور سیاسی عناصر کے ہاتھ میں ہے جس کا میں نے اپنے کالم میں ذکر کیا کہ وہ سندھ میں اردو بولنے والے اورا صل سندھیوں کے درمیان اتحاد اور یک جہتی کے چیمپئن ہیں۔ میں تو آج کے کالم میں کچھ عرصے پہلے ایم کیو ایم سے الگ ہوکر پاک سرزمین پارٹی بنانے والے مصطفیٰ کمال کا ایک بیان میں بھی شامل کررہا ہوں جو 9مارچ کو ’’جنگ‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ انہوں نے اس بیان میں کہا ہے کہ ’’خدارا مردم شماری کو سیاسی مسئلہ نہ بنایا جائے جو لوگ اس موقع پر مہاجر اور سندھی کا راگ الاپ رہے ہیں وہ دراصل مہاجروں اور سندھیوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں‘‘۔



.
تازہ ترین