• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’کسی کو آزادیٔ اظہار کے نام پر گستاخی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پوری مسلم امہ ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے متحد ہے‘‘۔ یہ الفاظ 25اسلامی ممالک کے سفیروں کے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے سے لئے گئے ہیں۔ یہ اجلاس گزشتہ دنوں اسلام آباد میں وزیر داخلہ چوہدری نثار کی زیرصدارت ہوا۔ اس اجلاس میں گستاخانہ مواد کے خلاف عالمی ریفرنس تیار کرنے کا مستحسن فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ اسی طرح مغرب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ اسلام سے متعلق دہرا معیار ترک کرے‘‘۔ یہ بات درست ہے کہ امریکہ و یورپ نے ہر معاملے میں ٹو ٹریک پالیسیاں اپنا رکھی ہیں۔ دیکھیں! مغرب کے ہاں ہر شخض کو مذہب کی آزادی ہے کہ وہ جیسے چاہے کرے، لیکن جب مغربی ممالک میں رہائش پذیر مسلمان اپنے مذہبی شعائر کی پابندی کرتے ہیں تو ان کے خلاف نت نئے قوانین وضع کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی موجودہ قانون مسلمانوں کے حق میں جاتا ہے تو اس میں ترمیم کی جاتی ہے۔ مغربی ممالک میں آئے دن ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں کہ مسلمان خواتین کو صرف حجاب پہننے کی بنا پر ملازمتوں سے معطل کیا جاتا ہے۔ جب سابق امریکی صدر بش عیسائیت کی ترویج کے لئے وہائٹ ہائوس میں ’’Faith-Based and Community Initiatives‘‘ کے نام سے خصوصی ڈیپارٹمنٹ قائم کرتا ہے اور عیسائی مذہبی تنظیموں کو 40 ارب ڈالر دیتا ہے تو روادار کہلاتا ہے لیکن اگر کوئی مال دار شخص کسی مدرسے کی سرپرستی کرے تو وہ رواداری کا دشمن! سوال یہ ہے کیا امریکا اربوں ڈالر خرچ کرکے اپنے معاشرے کو مذہبی شدت پسند، تنگ نظر اور انتہا پسند بنانے کے لئے کوشاں نہیں؟ یہ کیسا فلسفہ ہے اگر ایک کام صدر بش عیسائیت کی ترویج کے لئے کرے تو اچھا ہے لیکن اگر کوئی صاحبِ ثروت مسلمان، اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے کرے یا کسی دینی مدرسے کو چندہ بھی دے تو اس کی انکوائریاں شروع ہوجاتی ہیں، اس کا رشتہ ناطہ مبینہ دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ کیسی ناانصافی ہے اگر کوئی ’’ہولوکاسٹ‘‘ پر لکھے یا بولے تو وہ قابلِ گرفت ہے لیکن اگر کوئی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی معززترین ہستیوں کے بارے میں شرانگیزی کرے تو اس کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ 1988ء میں ’’وائی کنگ پیلی کیشنز‘‘ کے یہودی ادارے نے ’’شیطانی آیات‘‘ کے نام سے بدنامِ زمانہ کتاب لکھی توکچھ نہ ہو لیکن جب ملائیشیا کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے دنیا کی صرف 0.23 فیصد آبادی یہودیوں کے بارے میں ذرا الفاظ کہے تو ان کو یورپ و امریکا کی طرف سے دھمکیاں ملنے لگیں اور ان کے خلاف میڈیا پر پروپیگنڈا شروع ہوگیا۔ مغرب کی یہی دوغلی پالیسی ہے جو ان کے لئے نفرت اور عداوت میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ عالمی طاقتوں کا یہی دہرا معیار ہے جوان کے رواداری کے دعوئوں کی قلعی کھول رہا ہے۔ ویسے گستاخیوں کا یہ منحوس سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے چودہ سو سال سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ کعب بن اشرف، ابو رافع، بنی خطمہ کی ’’عصماء‘‘ نامی بدبخت یہودی عورت۔ ایران کا خسرو پرویز، ابن خطل جو جان بچانے کے لئے کعبہ کے غلاف سے چمٹا تھا، آپﷺ نے فرمایا:اس حالت میں بھی اس کی یہیں گردن اُڑادی جائے۔ گستاخیوں کا یہ منحوس سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ ’’راجپال ہندو‘‘ اور ’’نتھو رام آریہ سماج‘‘ اس کے بعد ملعون رشدی، بدبخت تسلیمہ نسرین۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمیشہ یہ حرکت مغرب کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔ روس، چین اور دیگر ممالک کی طرف سے کبھی ایسی حرکات سامنے نہیں آئی بلکہ کئی غیرمسلم ممالک نے ایسی حرکتوں پر باقاعدہ پابندی لگارکھی ہے۔ سنگاپور کے سابق وزیراعظم کی حکومت نے ایسی کتابوں اور ڈاکومنٹریز پر پابندی لگادی تھی جس میں اسلام، شعائر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی بات ہے۔ ایک طرف تو یہ صورتِ حال ہے جبکہ دوسری طرف مجھے حیرت ہوتی ہے بعض مستند، سکہ بند، صاحب طرز اور بظاہر دین دار سمجھے جانے والے کالم نگار مغرب کی اس مذموم حرکت کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے ایک دوست صحافی نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’بعض اسلامی حکومتیں بھی اس قسم کی غلطیاں کرتی رہی ہیں۔ پرشین اور عثمانیہ دور میں ایسے خاکے، منی ایچرز اور تصاویر بنائی گئیں جن پر اس وقت کے علماء نے اعتراضات کیے تھے‘‘۔ میرے صحافی دوست نے بعض حوالوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خاکے شائع ہونا کوئی اتنا بڑا مسئلہ اور ایشو نہیں ہے کہ اس پر باقاعدہ احتجاج اور مظاہرے کیے جائیں۔ حالانکہ ذرا سی سمجھ بوجھ اور تاریخ سے واقفیت رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ یہ سب اچھی اور خوبصورت شبیہیں اور عمدہ منظرکشی تھی۔ جیسے کوئی شخص ’’جنت‘‘ کو ’’خوبصورت باغیچے‘‘ اور ’’دوزخ‘‘ کو ’’دہکتی ہوئی آگ‘‘ کو پینٹنگ کے ذریعے دکھانے کی کوشش کرے۔ واقعہ معراج، جنگ اُحد، معرکہ بدر کا خاکہ پیش کرے۔ یہ سب اور چیز ہیں لیکن ایسے خاکے، کارٹون جس سے توہین اور ہتک کا رکیک اور باریک سا بھی پہلو نکلتا ہو وہ کیونکر روا ہوسکتا ہے؟ مغرب کی طرف سے جو گزشتہ چند سالوں سے لانگ ٹرم پالیسی کے تحت اسلام کو دہشت گردی کی تعلیم دینے والا مذہب ثابت کرنے کی ناپاک مہم جاری ہے، اس کو کوئی بھی صاحبِ عقل شخص درست نہیں کہہ سکتا۔ میری اپنے صحافتی دوست سے درخواست ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں کی تاریخ ثابت کرنے کی بجائے ’’ہولو کاسٹ‘‘ کی تاریخ اور حقیقت پر اپنے قلم کی جولانیاں صرف کریں۔ کوئی بھی مسلمان خواہ وہ کیسا ہی گناہ گار اور بدکار کیوں نہ ہو وہ محسن کائنات کی ایسی شبیہ اور گستاخ خاکوں کو کیسے برداشت کرسکتا ہے؟ ایک اور نکتے کی طرف آجائیں! مغرب مکالمہ بین المذاہب رواداری کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔ دانشور اور محققین اس بات پر زورِ قلم صرف کررہے ہیں کہ مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے تاکہ دنیا میں وسیع تر امن کے امکانات روشن ہوں۔ ایسے حالات میں آزادیٔ اظہار کے نام پر گستاخانہ مواد شائع کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ ایسے اقدامات سے نہ صرف بین المذاہب مفاہمت کے مفید عمل کو شدید نقصان پہنچے گا، بلکہ تہذیبوں کے خوفناک تصادم کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ مذہبی اور تہذیبی منافرت کو روکنے کے لئے مغرب اور مشرق کو مل کر بین المذاہب مکالمے اور مفاہمت کی بھرپور کوشش کرنی ہوگی۔ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے چند نئے قواعد وقوانین کی منظور ی دی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ گستاخ رسول، صحابہ کرام اور شعائر مذہب کے تحفظ کے لئے بھی کوئی قانون بن جائے تاکہ بین المذاہب رواداری کو فروغ مل سکے۔ آخری بات یہ ہے کہ مغرب کو ایسے شرانگیز اقدامات سے گریز کرنا چاہئے جن سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے اور مسلمانوں کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن کے ذریعے اسلام کی حقیقی شکل مغرب کے سامنے آسکے۔



.
تازہ ترین