• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ اپنی لگ بھگ 50سالہ تاریخ رکھتی ہے۔ وقت کے نشیب و فراز کے ساتھ جمعیت نے جامعہ پنجاب میں اپنا وجود قائم رکھاہے۔ جمعیت سے لاکھ اختلاف رکھنے والے اس بات کا ضرور اعتراف کرتے ہیں کہ اس نے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پاکستانیت اور اسلامی کلچر کو متعارف کروایا ہے۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی وجود میں آنے والی اس ملک گیر طلبہ تنظیم کا سفر 70برس کا ہے۔ جنرل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاءالحق اور کئی سول ڈکٹیٹروں نے جمعیت کا راستہ کھوٹا کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی ان خواہشوں کے ساتھ اس دنیا فانی سے چلے گئے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں داڑھی، نماز، درس قرآن، سیرت کا نفرنسیں، استقبالیے، ٹیلنٹ ایوارڈز، کتاب میلے اسی طلبہ تنظیم کے مرہون منت ہیں۔ آج ملکی سیاست میں مثبت سوچ کے حامل ایسے بے شمار چہرے زیادہ نمایاں اور ممتاز نظر آتے ہیں جو اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے تیار ہو کر نکلے ہیں۔ میری بھی زمانہ طالبعلمی کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی رہی ہے۔ چند روز قبل جامعہ پنجاب میں قوم پرست طلبہ اور اسلامی جمعیت طلبہ کے درمیان تصادم کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ تعلیمی اداروں میں مختلف طلبہ تنظیموں کے لڑائی جھگڑے تو ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں مگر اس واقعہ کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ طالبات اور خواتین کے ہونے والے پروگرام پر قوم پرست طلبہ نے ہلا بول دیا۔ طالبات کے اس پروگرام میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن سمیحہ راحیل قاضی بھی شریک تھیں۔ چند شر پسند قوم پرست طلبہ کے گروہ نے اس موقع پر معزز خواتین اور طالبات کے ساتھ اس قدر بدتمیزی، بدسلوکی اور نازیبا رویہ اختیار کیا جس کی مثال پنجاب یونیورسٹی کی 130سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ حکومت پنجاب کو پنجاب یونیورسٹی میں طالبات کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے واقعہ کی فوری تحقیقات کروانی چاہئیں اور ایسے قوم پرست عناصر جو صوبہ پنجاب میں صوبائیت اور لسانیت کو فروغ دینا چاہتے ہیں ان کا قلع قمع کرنا چاہئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے یومِ پاکستان کی مناسبت سے پورے ہفتے کی سرگرمیوں کا اعلان کیا تھا، نظریہ پاکستان کی مناسبت سے تصویری نمائش، عزم ہمارا پاکستان ریلی اور نظریہ پاکستان کی مناسبت سے جامعہ پنجاب میں سیمینار بالترتیب اکیس، بائیس اور چوبیس مارچ کے منعقد ہونا طے تھے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے بلوچستان کو دئیے گئے خصوصی کوٹے پر آنے والے پشتون طلبہ جن کو سابق وائس چانسلر نے جمعیت کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے لئے پشت پناہی کی تھی، انہوں نے جمعیت کے اعلان کردہ یومِ پاکستان کے پروگرامز کے مقابلے میں پشتون کلچر ڈے منانے کا اعلان کر دیا حالانکہ پشتون کلچر ڈے ہرسال تیئس ستمبر کو منایا جاتا ہے اور اس سال بھی اکیس مارچ کو جامعہ پنجاب کے علاوہ پورے ملک میں کہیں ایسی کو ئی سرگرمی نہیں ہوئی۔ دراصل اس کے ذریعے مسئلہ بنانا مقصود تھا جو پورا ہوا، یوں کہ آمنے سامنے کیمپ لگے تو اونچی آواز پر تکرار ہوئی اور نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی، پولیس موقع پر موجود تھی چنانچہ پولیس کی مداخلت سے یہ ہاتھا پائی چند منٹ میں ختم ہو گئی اور فریقین منتشر ہو گئے، اس کے بعد قوم پرست طلبہ نے جن کے ساتھ کثیر تعداد میں جامعہ کے باہر سے غیر طلبہ افراد بھی آئے ہوئے تھے انہوں نے جمعیت کے لڑکوں کو پکڑ پکڑ کر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور اسی پر بس نہیں کی بلکہ تھوڑی دوری پر موجود طالبات کے پروگرام پر دھاوا بولا، خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی۔ ان سب واقعات کے چشم دید گواہان، تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں۔ بعض ٹی وی چینلز کا رویہ اس سارے معاملے میں انتہائی یک طرفہ، جانبدارانہ اور غیر ذمہ دارانہ رہا۔ طالبات پر ہونے والے حملے کو سرے سے غائب ہی کر دیا گیا اور ایک لفظ بھی اس حوالے سے نہیں بولا گیا، معاملے کی تحقیق کئے بغیر اس کو پنجابی پشتون لڑائی بنا کر پیش کیا گیا جس کے ملکی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور لسانیت اور صوبائیت کو ہوا ملی۔ المیہ یہ ہے کہ جن ویڈیوز میں جمعیت کے کارکنان پر تشدد کے مناظر تھے ان کو جمعیت کی بربریت کہہ کر دکھایا گیا، اور بیشتر ٹی وی چینلز نے پہلے دو دن جمعیت کا موقف لینے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اسلامی جمعیت طلبہ صوبائی اور لسانی سمیت ہر قسم کے تعصبات سے مکمل پاک اور ان کے خلاف ہے، جمعیت کے موجودہ ناظمِ اعلی پختون ہیں، اسی طرح جمعیت کسی کلچر کے خلاف بھی بالکل نہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں بلوچ کلچر ڈے منایا گیا تو ملک بھر میں اور جامعہ پنجاب میں بھی، یاد رہے کہ جامعہ پنجاب میں بھی جمعیت نے اس میں حصہ لیا، بلوچ طلبہ اور بلوچ برادری کو مبارکباد دی۔ جامعہ پنجاب میں ہونے والا حالیہ واقعہ افسوسناک ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ظفر معین ناصر اچھے اور غیر جانبدار فرد ہیں لیکن ابھی یہ قائم مقام ہیں تو سابقہ وی سی صاحب کی لابی ان کو نااہل ثابت کرنا چاہتی ہے۔ جمعیت کا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومتی ادارے صرف اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کے حصول اور جمعیت کو دبانے کے لیے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے نہ آزمائیں کیونکہ اس سے جمعیت کو تو نقصان پہنچے یا نہیں لیکن لسانی اور صوبائی تعصب کی شکل میں ایک ایسی آگ پھیلے گی جو پھر کسی کے بجھائے نہ بجھے گی۔
پنجاب یونیورسٹی ملک کی عظیم مادر علمی ہے۔ ایک تاریخی درسگاہ ہونے کے ناتے اسے ملک بھر میں منفرد اور ممتاز مقام حاصل ہے یہاں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ یونین الیکشن میں کامیاب ہونے والے صدور میں لیاقت بلوچ، جاوید ہاشمی، حافظ ادریس، فرید احمد پراچہ، عبدالشکور، سعید سلیمی، مسعود کھوکھر، امیر العظیم، جہانگیر خان اور دیگر شامل ہیں۔ ایک بہت بڑی کھیپ جمعیت نے پنجاب یونیورسٹی کے ذریعے ملک و قوم کو دی ہے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی میں جمعیت سے وابستہ احسن اقبال بھی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ زندگی کے ہر شعبے میں اعلیٰ دیانت و امانت کے حامل سابقین بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ صحافت کے میدانِ کارزار میں بھی اب تو کافی لوگ ہیں جو جمعیت کی نرسری سے تیار ہوئے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جمعیت نے جامعہ پنجاب میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے تعلیمی امن کو قائم رکھا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ1994 میں ایک فرقہ پرست تنظیم نے پنجاب یونیورسٹی کو لہو لہو کر دیا تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کو چار جنازے اپنے کندھوں پر اٹھانے پڑے تھے اس وقت یہ ملک گیر طلبہ تنظیم چاہتی تو پورے ملک میں آگ لگا دیتی لیکن تاریخ شاہدہے کہ اتنے بڑے سانحے کے باوجود پنجاب یونیورسٹی کو ایک روز بھی بند نہیں ہونے دیا گیا۔ اس کا کریڈٹ بلاشبہ اسلامی جمعیت طلبہ کو جاتا ہے۔ جمعیت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنا احتساب خود کرتی ہے اور یقیناً یہی اس کی زندگی کی علامت ہے۔ جب کبھی جمعیت کے افراد سے کوئی غلطی یا واقعہ سرزد ہوا اس طلبہ تنظیم نے احتساب کی روشن مثال قائم کی۔ جامعہ پنجاب میں سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے جمعیت پر زمین تنگ کرنے کی کوشش کی تھی مگر انہیں یہ خیال تک نہ آیا کہ ایسی خواہشیں تو کئی فوجی اور سول ڈکٹیٹر بھی رکھتے تھے وہ تو کامیاب نہ ہو سکے۔ ماضی میں 107طلباء کو جمعیت سے وابستگی کی بنا پر یونیورسٹی سےخارج کر دیا گیا تھا لیکن جمعیت آج بھی جامعہ پنجاب میں اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ یونین کے الیکشن نہ ہونے کے باوجود سارا سال تعلیمی اداروں میں طلبا کی خدمت کا فریضہ سر انجام دیتی رہتی ہے۔ جمعیت کی تعلیمی خدمات سے انکار ممکن نہیں ہے۔ جمعیت کو یونیورسٹی سے ختم کرنے کی امیدیں رکھنے والوں کو یہ بات ضرور پیش نظر رکھنی چاہئے۔



.
تازہ ترین