• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’میں چھوٹا سا بچہ تھا تو صبح سویرے کی تازہ نیم سرد ہوا میں ورانڈے میں بیٹھے دادا جی کی گود میں چڑھ آتا تھا۔ تازہ غسل کے بعد اُن سے ولایتی صابن، ٹیلکم پاؤڈر اور اولڈ اسپائس آفٹر شیو لوشن کی مہک آیا کرتی تھی۔ وہ مجھے اپنی گود میں بٹھا کر، سامنے سڑک سے گزرتی اکا دکا رینالٹ، والکس ویگن، مورس گاڑیوں، آسمانی رنگ کے ویسپا اسکوٹروں، گھنٹی کی جل ترنگ میں خراماں سائیکلوں کی میکانکی موسیقی میں گھلتی ملتی چھاؤنی کے قدیم برگد کے چھتناور درختوں میں کُوکتے پرندوں، نیم کے درختوں سے گرتے نیم کے پیلے پکے پھل کی تھک تھک درختوں سے جامن کے گرنے کی ہلکی ٹپ ٹپ اور انگور کی بیلوں میں چھپی چھوٹی رنگین چڑیوں کی چہکار میں گھلتی ملتی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ اُن کی سنائی کہانیاں، کہانیاں کم اور اُن کے وطن امرتسر، جسے وہ امبرسر کہتے تھے، کے قصے زیادہ ہوتے۔ اُ ن کی زبانی ماضی کی تصوراتی عینک سے دیکھا گیا امبر سر کوئی جادوئی شہر لگتا تھا جہاں امرت کے چشمے بہتے، سونے میں ڈھلا سورج سنہری شعائیں بکھیرتا، ٹھنڈے ٹھار میٹھے پانی کے کنوئیں اپنی گہرائیوں میں برف آب، آب حیات کا خزانہ رکھتے۔‘‘
کاش یہ تحریر میری ہوتی۔ ایسی عمدہ، کھلکھلاتی اور کپاس کے پھولوں کی طرح لہلہاتی نثر اگر میں لکھ سکتا تو خود کو کسی نوبیل انعام یافتہ ادیب سے کم نہ سمجھتا۔ یہ اقتباس عرفان جاوید کی کتاب ’’دروازے‘‘ کا ہے۔ عرفان جاوید سے میں حسد کرتا ہوں۔ اس حسد کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود میں عرفان جاوید میں کوئی شرعی یا غیرشرعی عیب تلاش نہیں کر سکا۔ ہم پاکستانی جب بھی کسی کو ملتے ہیں تو ’’بائی ڈیفالٹ‘‘ سب سے پہلے اُس کی کوئی خامی تلاش کرتے ہیں اور ایسا کرتے وقت محدب عدسہ جیب سے نکال لیتے ہیں بالکل اُس شخص کی طرح جو اپنے مرحوم والد کا قصہ سناتے ہوئے کہہ رہا تھا ’’اللہ بخشے ابا جی بہشتی ایک دفعہ کسی مکان میں چوری کرنے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مکان مالک بے ایمان کا بچہ نماز پڑھ رہا ہے.....!‘‘ سو، اپنی تمام تر کھوجی طبیعت کے باوجود میں عرفان جاوید کی شخصیت میں سوائے محبت کرنے کی ’’خامی‘‘ کے اور کوئی خرابی تلاش نہیں کر سکا۔ عرفان جاوید سے حسد کی دوسری وجہ اُن کا صاحب مطالعہ ہونا ہے۔ دنیا کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جو موصوف نے نہ پڑھی (کاما سوترا سمیت ) اور شاید ہی کوئی ایسا ادیب ہو جس کے مقام کا آپ نے تعین نہ کیا ہو۔ اب مجھ ایسا شخص حسد نہ کرے تو کیا کرے۔ ہم چار کتابیں پڑھنے کے بعد گردن اکڑا کر پھرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ غیرملکی ادیبوں میں فلاں فلاں اچھا ہے اسے پڑھ لو تو افاقہ ہو جائے گا جبکہ دیسی لکھاریوں میں کوئی اِس قابل نہیں اور یوں اپنا علمی اور قلمی قد بڑھانے کی کوشش کرتےہیں۔ جبکہ عرفان جاوید سے گفتگو کرتے ہوئے عجیب سا خوف دامن گیر رہتا ہے، جب بھی انہیں کسی افسانہ نگار کا حوالہ دے کر بحث کرنے کوشش کی کہ اس کے افسانے اچھے یا برے ہیں تو جواب میں موصوف نے بتایا کہ مذکورہ افسانہ نگار کا پہلا افسانہ کس ادبی رسالے میں شائع ہوا تھا، اسے شہرت کب ملی، اس کے افسانوں میں کس کا رنگ نمایاں ہے، غیرملکی ادب سے اس نے کیا کچھ مستعار لیا ہے، حتیٰ کہ افسانہ نگار کی وفات کی پیشین گوئی بھی کر دیتےہیں۔ اب ایسے شخص سے کوئی کیا ادبی بحث کرے۔ موصوف سے حسد کی تیسری وجہ اُن کی تحریر ہے۔ ایک نمونہ تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں، یہ چاول کی دیگ کا صرف ایک دانہ ہے اور پوری دیگ ہی ایسے میوہ جات سے بھری ہے۔ اتنی شاندار تحریر کہ انسان پڑھ کر گھنٹوں اُس کے سحر میں مبتلا رہتا ہے، عرفان جاوید ایک ایسا ساحر ہے جس کی کتاب اٹھا کر اگر آپ پڑھنا شروع کریں تو ایک ہی نشست میں ختم کرکے دم لیں گے، بہت کم کتابیں ایسی ہوتی ہیں اور بے حد کم لکھار یوں کے پاس یہ فن ہوتا ہے۔ عرفان جاوید کے پاس یہ ہنر ہے، وہ پہلی سطر سے قاری کو یوں جکڑ لیتا ہے کہ وہ باوجود کوشش کے عرفان کے قلم کی قید سے آزاد نہیں ہو پاتا۔ اس صورت میں مجھ ایسا لکھنے والا عرفان جاوید سے حسد کے علاوہ اور کیا کرسکتا ہے ۔
’’دروازے‘‘ عرفان جاوید کے مضامین کا مجموعہ ہے جو انہوں نےبارہ مشاہیر کے بارے میں تحریر کئے۔ لفظ ’’خاکے‘‘ میں نے جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا کیونکہ یہ مضامین محض خاکے نہیں، یہ ایک تاریخ ہے جو عرفان جاوید نے ایک کتاب میں سمو دی ہے۔ ذرا شخصیات کے نام اور عنوان ملاحظہ ہوں، خود بخود عرفان کے تخلیقی قلم کا انداز ہ ہوجائے گا:پارس (احمد ندیم قاسمی)، بارش، خوش بو اور سماوار (اے حمید)، شریر (احمد فراز)، کاہن (مستنصر حسین تارڑ)، باگھ (عبداللہ حسین)، کامریڈ (احمد بشیر)، کھلکھلاتا آدمی (عطا الحق قاسمی)، بازی گر (شکیل عادل زادہ)، نانگا پربت (تصدق سہیل)، ٹلا جوگیاں کا مصلی (نصیر کوی )، دوسرا آدمی (جاوید چوہدری) اور دھندلا آدمی (محمد عاصم بٹ) حقیقتا ً عرفان جاوید نے ان شخصیات کے دلوں کے دروازوں میں جھانک کر دیکھنے کے بعد یہ خاکے قلمبند کئے ہیں۔ خدا کو جان دینی ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ میں نےاتنی جاندار تحریریں بہت کم پڑھی ہیں، یہ مضامین پڑھتے وقت بعض اوقات عرفان پر کسی جادو گر کا گمان ہوتا ہے، ایک ایسا جادوگر جو ایک کے بعد ایک اپنی زنبیل سے استعاروں کی کہکشاں نکال کر قاری کو مبہوت کردے، جس کے قلم سے کہانیاں یوں امڈتی چلی آئیں جیسے پہاڑوں سے لاتعداد جھرنے بہہ رہے ہوں اور جس کی تحریر کی روانی یوں ہو جیسے ایک رو میں مندر کی گھنٹیاں بجتی چلی جاتی ہیں۔ عرفان جاوید سے حسد کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ سول سروس میں ہونے کے باوجود سرکاری ملازمت اِن کا کچھ نہیں بگاڑ سکی، اپنی زندگی انہوں نے عبداللہ حسین، انتظار حسین، احمد فراز، ا ے حمید اور شکیل عادل زادہ صاحب جیسوں کی کمپنی میں گزاری اور گزار رہے ہیں۔ کتابیں پڑھتے ہیں، دل جلانے والی تحریریں لکھتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ کسرنفسی سے بھی کام لیتے ہیں، خود کو بہت طرم خان قسم کا ادیب نہیں سمجھتے۔ اکثر میں جب موصوف کی تحریر کی تعریف کرتا ہوں تو عرفان کا جواب ہوتا ہے ’’یاسر بھائی، یہ صرف آپ کی محبت ہے!‘‘ میرا جواب ہوتا ہے ’’میں جس سے محبت کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں سو اسے محض محبت نہ سمجھئے، میرٹ پر تعریف کی ہے، قبو ل فرمائیے!‘‘ جواب آتا ہے ’’قبول ہے، قبول ہے!‘‘ آپ میں سے اگر کسی کو ان مشاہیر سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا جن پر عرفان نے مضامین لکھے ہیں تو کوئی بات نہیں، ’’دروازے‘‘ پڑھ لیں، یوں لگے گا جیسے اِن ادیبوں کے ساتھ آپ کی عمر بھر کی رفاقت رہی ہے ۔
شکیل عادل زادہ پر مضمون کا عنوان عرفان جاوید نے ’’بازی گر‘‘ رکھا ہے۔ میں اگر کسی روز عرفان جاوید کا خاکہ لکھوں گا تو اُس کا عنوان ’’جادوگر‘‘ہوگا۔
نوٹ: تصدق سہیل کا خاکہ صرف بالغوں کے پڑھنے کے لئے ہے!



.
تازہ ترین