• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو 38سال بیت گئے ہیں لیکن اس واقعہ کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ 4اپریل 1979ء کو کوٹ لکھپت جیل کے پھانسی گھاٹ میں ایک ایسے شخص کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، جو ابھی تک مر نہیں سکا ہے۔ تختہ دار پر کھڑے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کا قد وقت کے ساتھ ساتھ مزید بلند ہو رہا ہے۔ ان 38 سالوں میں ہم نے یہ دیکھا ہے کہ جن لوگوں نے بھٹو کو تختہ دار پر پہنچانے کے لئے کردار ادا کیا، وہ جیتے جی تاریخ کے ہاتھوں مارے گئے ۔ ہم نے بھٹو مخالف پاکستانی قومی اتحاد ( پی این اے ) میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بھٹو کے خلاف سازش کرنے کے گناہ کا اعتراف کرتے سنا ۔ ہم نے ولی لیکس کی دستاویزات سے اس سازش کو بے نقاب ہوتے بھی دیکھا ۔ ان دستاویزات سے ایک ایک کردار سامنے آ گیا ۔ دستاویزات کے ذریعہ تاریخ کا یہ فیصلہ سامنے آیا کہ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ایک قوم پرست لیڈر تھے ، جو پاکستان کو امریکی سامراجی کیمپ سے نکالنا چاہتے تھے ۔ وہ پاکستان کی خود مختار خارجہ پالیسی کے معمار تھے اور تیسری دنیا کے سامراج دشمن رہنماؤں کے ساتھ مل کر غریب ملکوں کی حقیقی آزادی ، خود مختاری اور خوش حالی کے لئے کام کر رہے تھے ۔ وہ ایسے لیڈر تھے ، جنہیں افریشیائی عوام اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے ۔ دنیا کی سامراجی طاقتیں ان سے خوف زدہ تھیں اور انہیں راستے سے ہٹانے کے لئے پاکستان میں پی این اے نامی سیاسی اتحاد قائم کیا گیا ۔ پی این اے کی تحریک کو ڈالرز کے ذریعہ پروان چڑھایا گیا اور اسلام کے نام پر پاکستان کے لوگوں کو ایک عظیم قوم پرست رہنما کے خلاف گمراہ کیا گیا ۔ ضیاء الحق کو اس خطے میں سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اقتدار میں لایا گیا اور اسے بھٹو کو جسمانی طور پر ختم کرنے کا ٹاسک دیا گیا ۔ وکی لیکس کے علاوہ کئی خفیہ اداروں کی رپورٹس ، عالمی سیاست دانوں کے انٹرویوز اور پاکستانی سیاست دانوں کے اعتراف گناہ سے بھی اس سازش کے تانے بانے دنیا کے سامنے آگئے۔ 38سالوں میں بے شمار حقائق سامنے آئے، جو صرف ایک حقیقت کی تائید کرتے ہیں کہ بھٹو تاریخ کے ہاتھوں نہیں مرا بلکہ ان کے مخالفین نہ صرف تاریخ کے ہاتھوں مر گئے بلکہ آج 38سال بعد بھٹو کے مخالفین سے نئی نسلیں بھی نفرت کرتی ہیں، جنہوں نے نہ بھٹو کو دیکھا اور نہ بھٹو کے عہد کو دیکھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی ذہنی اپچ بہت بلند تھی ۔ انہوں نے انسانی تاریخ کا بہت پیچھے ماضیٰ میں جا کر ادراک کیا تھا اور بہت دور مستقبل کو وہ دیکھ سکتے تھے ۔ جیل کی کال کوٹھڑی سے اپنی سب سے پیاری بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام اپنے خط میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایک جگہ کہا کہ ’’ نظریات ، اصول ، تحریری تاریخ کے دروازے سے باہر رہتے ہیں ۔ غالب عنصر عوام کی تمنائیں ہیں اور ان کے ساتھلئے ہم آہنگی ہے ۔ جب اس راگ یا موسیقی کے معنی سمجھ لئے جاتے ہیں تو منزل کے نشان واضح ہو جاتے ہیں ۔ اصول و نظریات کو پیر لگ جاتے ہیں کہ وہ وقت پر اس راگ کی شان کو بڑھانے کے لئے آموجود ہوں ۔ ‘‘ بھٹو کے ان الفاظ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انسانی سماج اور تاریخ کے بارے میں ان سے زیادہ ادراک کسی اور کو نہیں ہو سکتا ۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ صدیوں تک جو عقائد ، نظریات اور اصول درست تسلیم کیے جاتے رہے ہوں ، وہ بھی تاریخ میں ایک مرحلے پر وقت کی آزمائش پر پورا نہیں اترتے اور لوگوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان عقائد ، نظریات یا اصولوں پر کاربند رہ کر وہ سچائی کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔ بھٹو اپنے عہد کے ترقی پسندانہ اور عقبی نظریات کا بھی ادراک رکھتے تھے ۔ وہ ترقی پسند ہونے کے باوجود اپنی تحریروں سے یہ تاثر دیتے تھے کہ کمیونزم اور سوشلزم بھی سکہ بند نظریات نہیں ہیں ۔ اگرچہ یہ نظریات استحصال ، ظلم اور طبقاتی تفریق کے خلاف تاریخ کے ایک عہد میں ردعمل کے طور پر سامنے آئے ہیں لیکن یہ نظریات بھی تاریخ کے دروازے سے باہر رہیں گے کیونکہ ان میں عوامی امنگوں کو وہ اہمیت نہیں دی گئی ، جو تاریخ کا غالب عنصر ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو عوام کے ساتھ اپنی رومانویت کی وجہ سے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں سے جس انداز میں بھٹو نے محبت کی ، یہ انداز اپنی نوعیت میں بالکل انوکھا ہے ۔
آج 38 سال کے بعد وہ لوگ اکثریت میں ہیں ، جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک عالمی سازش کا نشانہ بنایا گیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمیں بہت تاخیر سے اس سازش کا علم ہوا۔ برطانیہ کے نوبل انعام یافتہ، فلسفی، ریاضی دان مورخ اور ادیب برٹرینڈ رسل کو بہت پہلے پتہ چل گیا تھا کہ بھٹو عالمی سامراجی طاقتوں کے نشانے پر ہیں۔ جب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنے نوجوان وزیر خارجہ ذوالفقا رعلی بھٹو کو وفاقی کابینہ سے برطرف کیا تو اس پر برٹرینڈ رسلنے عالمی رہنماؤں اور دنیا کے بڑے اخبارات کو خطوط لکھے اور ایوب خان کے اس اقدام کے پس پردہ عالمی سازش کو بے نقاب کیا۔ برٹرینڈ رسل اور دنیا کے دیگر ترقی پسند شخصیات بھٹو کو ایک فوجی آمر کی کابینہ کا رکن نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے خیال میں بھٹو ایک ایسے قوم پرست رہنما تھے، جو پاکستان کی حکمران اسٹیبلشمنٹ کے سیٹ اپ میں رہتے ہوئے پاکستان کو سامراجی کیمپ سے نکالنے اور پاکستان کو ایک حقیقی خود مختار اور خوشحال بنانے کے لئے کوشاں تھے۔ انہوں نے ایوب خان کی کابینہ میں تجارت، توانائی، قدرتی وسائل اور خارجہ امور کے وزیر کی حیثیت سے پاکستان کی سامراج نواز داخلی اور خارجی پالیسیوں کی بنیادیں ہلا دیں۔ عالمی طاقتیں ایک فوجی آمر کے وزیر سے خوف زدہ ہو گئیں اور انہوں نے بھٹو کو سیاسی طور پر آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے ایوب خان سے یہ اقدام کرایا۔ ایوب کابینہ سے نکلتے ہی بھٹو اپنے اصل روپ میں آ گئے اور انہوں نے عوام کی طاقت سے جدید نوآبادیاتی اور سامراجی ڈھانچے پر کاری ضربیں لگائیں۔ برٹرینڈ رسل نے عالمی رہنماؤں کو لکھے گئے خطوط میں کہا کہ بھٹو افریشیائی عوام کا لیڈر ہے ۔
وہ پاکستان کو خود مختار پالیسی دینا چاہتا ہے اور وہ عالمی اجارہ داریوں کے خلاف دنیا میں نئی صف بندی کرنا چاہتا ہے۔ جو بات برٹرینڈ رسل 1966 ء میں دنیا کو سمجھا رہا تھا، وہ ہمیں نصف صدی بعد سمجھ میں آئی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس پر فیصلہ کر لیا جائے اور اب بے نقاب ہو جانے والی عالمی سازش کو پاکستان کی عدالت کے فیصلے سے فراہم کردہ جواز ختم کیا جائے۔



.
تازہ ترین