• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوسری جنگ ِعظیم میں جرمنی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، اوپرسے حکم آیا فوراً پیرس خالی کردو۔جرمن کمانڈر نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور بتایا ہم جنگ ہار چکے ہیں فوراً پیرس کے عجائب گھروں سے قیمتی سامان اربوں ڈالرز کے نوادرات ،تصاویر اور جو بھی سامان سمیٹ سکتے ہوسمیٹ کر اکھٹاکر لو اور جب فرانسیسی فوج واپس آئے تو اُس کو پیرس کی اُجڑی سڑکوں اور گلیوں کے سوا کچھ نہ ملے۔سارے سپاہی عجائب گھروں کی طرف دوڑگئے اور جو بھی قیمتی سامان ان کے ہاتھ لگا وہ جمع کرکے ایک پوری ٹرین بھر کر جرمنی کی طرف روانہ ہوگئے ۔ٹرین پیرس سے نکل کر جب 10بارہ کلومیٹر دور پہنچی تو اُس کا انجن فیل ہوگیا پیرس سے انجینئرز بلوائے گئے۔
انہوں نے جیسے تیسے کر کے انجن اسٹارٹ کیا اور ٹرین روانہ ہو گئی ۔ ابھی چند میل کا فاصلہ طے ہی کیا تھا کہ بریک خراب ہوگئے ۔ ٹرین پھر رک گئی ، ان انجینئرز نے بریک ٹھیک کئے تو پھر ٹرین رینگنے لگی ، مگر پھر چند میلوں کا فاصلہ طے ہوا تھا کہ برائلر پھٹ گیا ۔ انجینئرز پھر لگے مگر نیا برائلر آتے آتے کافی وقت ضائع ہو گیا۔ پھر بڑی کوشش کے بعد ٹرین چلی تھی تو اچانک پریشر بنانے والے پسٹن جواب دے گئے۔ یہ جرمن انجینئر ز پریشان ہو گئے ، جیسے تیسے کر کے پسٹن کا پریشر بحال ہوا ٹرین ابھی فرانس کی حدود میں ہی تھی تو ٹرین کے ڈرائیور کو پیغام ملا کہ فرانسیسی فوج پیرس واپس آچکی ہے ۔ لہٰذا ٹرین موڑ کر واپس لاؤ۔ ڈرائیور نے جلدی جلدی مکا لہرایا ٹرین واپس پیرس کی طرف موڑ دی ۔ جب یہ ٹرین پیرس کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو پوری قوم اس ٹرین کے ڈرائیور کے استقبال کے لئے جمع تھی ۔ اس کے ہاتھ میں مائیکرو فون دے کر پوچھا کہ اتنی دیر میں تم 2مرتبہ جرمن کی سرحد میں آجا سکتے تھے ، تم وہاں کیوں نہیں گئے۔ اس نے بتایا کہ جرمن بیوقوف فوجی یہ بھول گئے تھے کہ اس ٹرین کا ڈرائیور جرمن نہیں، فرانسیسی تھا اس کو وقت کا احساس تھا اور اپنے قیمتی اربوں ڈالرز کے سامان کو بھی بچانا تھا۔ اس نے اپنا قومی فرض پورا کر دکھایا اور اپنی حکمتِ عملی سے جرمنوں کو خوب بیوقوف بناتا رہا تو یہ ثابت ہوا کہ اگر گاڑی کا ڈرائیور نہ چاہے تو گاڑی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتی ۔ اس وقت یہی حال پاکستان کا ہے جس کو 2چار سال کے بعد سے ہی اچھے ڈرائیور نہ مل سکے ۔
پہلے قائد اعظم (پہلا ڈرائیور جس نے اس کی سمت متعین کی تھی ) اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ ابھی ٹرین نے صحیح سمت دوڑنا شروع کیا تھا تو ظالموں نے قائد ملت لیاقت علی خان کو بھی سازش کر کے شہید کروا دیا۔ ساتھ ہی قاتلوں کو گولی مار کر ثبوت بھی ختم کر دیا۔ اس کے بعد جس کی مرضی آئی گاڑی کا رخ بدل بدل کر دوڑاتا رہا ۔ ملک بچانے کے نام پر دس دس سال تک حکمرانی کی جاتی رہی مگر سمت متعین نہ ہو سکی۔ کبھی عوامی ادارے قومیا ئےگئے ، معیشت کو تباہ کیا گیا ، تعلیمی ادارے قومیانے سے تعلیم کا معیار 50سال پیچھے چلا گیا ۔ بینک ، انشورنس قومیا نے کی وجہ سے صنعتکار ملک چھوڑ گئے ۔ کسی نے پروا نہیں کی جبکہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے بجائے دائیں بائیں دیکھنے لگے ۔ ہمارے حکمراںجمہوریت کی آڑ میں کرپشن میں آہستہ آہستہ اضافہ کرتے رہے ۔
حکمراں ایک دوسرے سے بڑھ کر آئی ایم ایف سے من مانی شرائط پر قرضے لے کر قوم پر مہنگائی کا بوجھ بڑھاتے رہے اور کرپشن کرتے رہے ۔ عدلیہ بار بار روکنے کی کوشش کر تی رہی ، صرف ایک بڑے ادارے اسٹیل ملز کا مک مکا نہ ہو سکا۔ مگر جس حکومت نے عوامی اداروں کو قومیایا تھا اسی پارٹی نے ان اداروں کو اونے پونے بیچ کر خوب کمایا ۔ پھر ہاکی کے کھیل کی طرح بال سمیع اللہ سے کلیم اللہ کی طرف بڑھا دی جاتی رہی ۔ حزب اختلاف اقتدار چھین کر دوبارہ حزب اقتدار بن جاتی ہے ۔ قانون اور الیکشن کے ضوابط دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ جب تعلیمی پابندیاں لگیں تو جعلی ڈگریوں کا سہارا لے کر اسمبلیوں کو بھرا گیا ۔ ، جعلی ووٹ ڈالنا فیشن ٹھہرا ، عدلیہ پر حملے ہوئے ۔ جج صاحبان ڈر ڈر کر فیصلے کرتے رہے ، پھر ایسا بھی دور آیا کہ من پسنداشخاص عدلیہ میں بھرتی کروا کر سیاسی فیصلے ہونے لگے۔ انصاف کے نام پر پاکستان میں وکلاء نے عدالتوں پر دباؤ ڈال کر ججوں کو بے بس کر دیا۔ گویا ہر طرح کا گھناؤنا طرز عمل اپنا کر پاکستان کو بدنام کیا گیا۔ پھر دہشت گردی شروع ہوئی ، ہم نے غلط فیصلے کئے ، 2مرتبہ افغانستان کو بچانے کا ذمہ لیا ۔ آج ہم دہشت گرد ممالک کی فہرست میں ہیں جبکہ ہم خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔ اتنا سب کچھ لکھنے کا مقصدیہ ہے کہ اگلے سال کے الیکشن کی تیاری کیلئے مسلم لیگ (ن) جس نے پی پی پی کی حکومت میں جان بوجھ کر مصالحت کی پالیسی اپنائی تھی ،کیخلاف پی پی پی نے جواباً 4سال کی خاموشی توڑ کر اعلان جنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے مگر اس مرتبہ شطرنج کے مہرے تبدیل ہو گئے ہیں۔ پی پی پی کی طرف سے نیا خون بھٹو، زرداری خاندان یعنی بلاول، بختاور اور آصفہ ہونگے ۔ مگر تجربہ کار سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری ڈرائیونگ کی سیٹ پر بیٹھیں گے ۔ تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز ، حمزہ شہباز شریف اور عابد شیر علی ہونگے ۔ ان کی طرف کے ڈرائیور کی سیٹ پر نواز شریف اور کو پائلٹ شہباز شریف ہونگے ۔ اب دنگل پاناما لیکس کے فیصلے کے بعد شروع ہوگا۔
وہی گھسے پٹے نعرے ، وہی سنہری وعدوں کی یلغار ہو گی ۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ کر عوام کو پھر بیوقوف بنایا جائےگا، جس کی بھر پور تیاریاں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں شروع ہو چکی ہیں۔ اس مرتبہ ابتداحزب اختلاف یعنی پی پی پی نے کی ہے ، جس طرح پچھلی مرتبہ مسلم لیگ (ن) نے کی تھی اور پھر الیکشن کا نتیجہ مسلم لیگ (ن) کے حق میں پلٹ گیا۔ غالباً اسی وجہ سے آصف علی زرداری تاریخ کو دہرا رہے ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام بار بار کیوں ان کے وعدوں پر یقین کرتے ہیں۔ صرف چند سیاستدان اپنی وابستگی تبدیل کر لیتے ہیں۔ جب تک ہم صحیح لیڈر کا انتخاب نہیں کر یں گے اور ڈرائیور کی سیٹ پر وہی حکمراں بیٹھے رہیں گے ، 70سال نہیں ، 700سال تک ہم اپنی منزل نہیں پا سکیں گے اور اسی طرح حکمرانوں کو برا بھلا کہتے رہیں گے ۔ خدا نے کبھی اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔ قدرت ہمیں ہر 5سال بعد موقع دیتی ہے ، مگر ہم نے ان ہی حکمرانوں کا انتخاب کیا ہے جن کو ہم 70سال سے آزماتے چلے آئے ہیں۔ لگتا ہے کہ اگلے سال پھر وہی غلطی دہرائی جائے گی ۔ اللہ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے۔



.
تازہ ترین