• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ دور میں سائنس جتنی تیزی سے ترقی کررہی ہے اس سے واقفیت رکھنا ناممکن تو کیا اس کے ساتھ چلنا بھی بہت مشکل ہے۔
عہد قدیم سے انسان کوشش کرتا رہا ہے کہ زمین میں جو وسائل موجود ہیں ان کو نکالے اور اپنی زندگی کو آرام دہ اور پرسکون بنانے کیلئے استعمال کرے۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی دماغ کی صلاحیتوں نے بھی ترقی کی اور انسان نے قدرت کے راز سمجھنے اور حل کرنے کیلئے جدّوجہد کی تاکہ اپنی زندگی آرام دہ بناسکے۔ شروع شروع میں اس ترقی کی رفتار بہت آہستہ تھی لیکن پچھلی دو تین صدیوں میں انسان نے بہت ترقی کی ہے۔ اور اگریہ کہا جائے کہ نئی ایجادات خود انسانوں کی تعداد سے زیادہ ہیں تو یہ مبالغہ آمیز بات نہ ہوگی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سائنس نے بے حد ترقی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے سائنس میں بے انتہا ترقی ہوئی ہے۔ پچھلے پچاس، ساٹھ سال میں جو ترقی ہوئی ہے وہ پچھلے دو سو سال سے زیادہ ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ تقریباً چار سو برس سائنس کی ہر برانچ میں لیڈر رہنے کے بعد ہم بارہویں صدی سے زوال کے شکار ہوگئے اور پھر ہم سنبھل ہی نا سکے۔ حکمراں کرپشن میں مصروف رہے اور عوام کاہلی کا شکارہوگئے۔
آج کل دنیا میں جس قدر ترقی ہورہی ہے وہ امریکہ، یورپ، جاپان وغیرہ میں ہورہی ہے۔ دوسرے ممالک، خاص طور پر مسلم ممالک،صرف خریدنے اور استعمال کرنے والے ہیں۔ جاپان نے یہ دائرہ توڑ دیا ہے اور کئی میدانوں میں امریکہ اور یورپ سے آگے ہے۔ اب چین نے بھی 30,25 برسوں میں کمال کردیا ہے، یہ ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا مگر اب ہم سے 100 سال آگے ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان بھی دوسرے پسماندہ ممالک کی صف میں ہے۔ غربت، بیروزگاری، بیماریاں اور غلاظت عروج پر ہیں۔ آجکل کراچی کی جو تصاویر ٹی وی پر دکھائی جاتی ہیں ان کو دیکھ کر دل دہل جاتا ہے کہ اس اکیسویں صدی میں جبکہ اہل اقتدار محلات میں رہ رہے ہیں جبکہ عوام کو غلاظت کے ڈھیروں پر چھوڑ دیا ہے۔ اس کچرے سے بہ آسانی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے مگر کمیشن نہیں ملے گا۔ وقت بہت ضائع ہوچکا ہے اور ہم نے ابھی اس لمبے سفر کیلئے پہلا قدم بھی نہیں اُٹھایا ہے۔ 27 مارچ کو حیدرآباد میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے قوم سے مذاق ہی کیا ہے کہ ملک میں جلد تعلیمی انقلاب آئے گا۔ تعلیمی انقلاب تو مشکل کام ہے مجھے ڈر ہے کہ جہالت کا انقلاب آجائے گا جو آہستہ آہستہ قدم جماتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کے رفقائے کار میں کوئی بھی ایسا نہیں جو سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیم کی تعریف بھی کرسکے۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل نہیںکی۔ میں نے غلام اسحٰق خان انسٹی ٹیوٹ بنایا ہے اور کے آر ایل(KRL) بنائی ہے آپ دیکھیں گے تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائینگی۔
ایک طرف تو دنیا میں سائنس کی ترقی بہت تیزی سے جاری ہے دوسری طرف ہم ابھی تک جہالت کے کنوئیں میں غوطہ کھا رہے ہیں۔ ایک قوم کی حیثیت سے خاص طور پر حکمراں طبقہ اورہم بہت خراب حالت میں ہیں۔ احساس ہی نہیں ہورہا کہ ہماری کشتی بھنور میں پھنس گئی ہے اور ہم کسی وقت بھی ڈوب سکتے ہیں۔ یہ بہت افسوس اور شرم کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ہمیں بیش بہا قدرتی وسائل عطا کئے ہیں بلکہ ایک اچھی تعداد نہایت قابل سمجھدار لوگوں کی بھی دی ہے۔ کیا ہم نے، پاکستانیوں نے، چھ سات سال میں ایٹم بم نہیں بنا دیا؟ کیا ہم نے میزائل نہیں بنائے؟ اگر حکمراں تھوڑے سمجھدار ہوتے (بھٹو صاحب و بینظیر کی طرح) تو قابل، تجربہ کار لوگوں کو ملکی ترقی کا کام سونپ دیتے تو ہم ایک ترقی یافتہ قوم بن گئے ہوتے۔اپنے ملک کے قدرتی وسائل اور قابل لوگوں کی موجودگی میں ہمیں ترقی کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ جن لوگوں نے کے آر ایل کو دیکھا ہے ان سے پوچھئے کہ ہم نے کس طرح ناممکن کو ممکن بنادیا تھا۔ جو بھی وہاں آتا تھا بس یہی کہتا تھا کہ یہ پاکستان نہیں لگتا۔ اسی بات سے متاثر ہو کر جنرل ضیاء الحق نے یکم مئی 1981میں ہمارے ادارے کا نام تبدیل کرکے میرے نام سے منسوب کردیا تھا۔ یہ ایک زندہ شخص کیلئے بہت اعلیٰ واقعہ تھا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک اچھی بڑی تعلیم یافتہ اور قابل ٹیم کی موجودگی کے باوجود کوالٹی کنٹرول، ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ کارکردگی کا فقدان ہے اور اس کے نتیجے میںہمارے ہونہار، قابل نوجوان طبقہ غیرممالک کی راہ لیتا ہے اور ملک ان کی خدمات سے محروم ہوجاتا ہے۔ دیکھئے ٹیکنیکل ترقی بغیر فنی تعلیم سے مُرصع لوگوں کی غیرموجودگی میں ناممکن ہے اور نہ صرف یہ کہ تعلیمیافتہ قابل طبقے کی اشد ضرورت ہے بلکہ اس کیلئے مناسب ٹیکنیکل سہولتیں بھی بے حد ضروری ہیں۔ میں نے اپنے ادارے میںجو سہولتیں فراہم کی تھیں وہ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کم نہ تھیں اور پھر میرے قابل اور محب وطن ساتھیوں نے ان سہولتوں سے پورا فائدہ اُٹھایا اور ملک کو ناقابل تسخیر دفاع فراہم کردیا۔ اب اگر کبھی ہندوستان نے کوئی جارحانہ اقدام اُٹھایا تو پاکستان اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔ دیکھئے جو نمائشی کام کئے جارہے ہیں ان سے نہ ہی ملک ترقی کررہا ہے اور نہ ہی عوام کو روزگار کے مواقع مل رہے ہیں۔ وقت کا اہم تقاضہ یہ ہے کہ ہم نوجوان طبقے کیلئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں۔ ہم نے ہر محکمے میں نااہلیت کا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ رکشہ ڈرائیورز کو ایئر بس چلانے کی ذمہ داری سونپ دی ہے نتیجہ آپ خود سوچ سکتے ہیں۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے اہل اقتدار کی نظر میں تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں ہے جبکہ ترقی کیلئے سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت بہت ضروری ہے۔ ہمارا نظام تعلیم بھی بے حد ناقص ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے نااہل لوگ سیاست کے ذریعے ملک کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوجاتے ہیں اور انھیں سوائے غیرملکی دوروں اور اپنی کرپشن کے کسی اور چیز میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ اور بڑی اور نقصان دہ بات یہ ہے کہ تعلیم پر بہت ہی کم رقم خرچ کی جاتی ہے۔ اربوں روپیہ کے پروگرام چلائے جاتے ہیں جن میں کرپشن کی گنجائش ہوتی ہے، اچھے تعلیمی اداروں کی تعمیر میں قطعی دلچسپی نہیں لی جاتی تو ملک کس طرح ترقی کرے گا؟



.
تازہ ترین