• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
پھر تو جیسے حکومت کو بھی جواز مل گیا اور وزیراعظم نواز شریف نے پے درپے انگریزی میں خطابات شروع کر دیئے جس سے جلا لے کر سرکاری سیکرٹریوں نے مقتدرہ قومی زبان کے اکلوتے ماہرین سے جو پیشہ ورانہ اصطلاحات کے تراجم مانگے تھے، وہ سب آرڈرز کینسل کر دیئے، اس طرح نفاذِ اردو کی بیل منڈھے چڑھتے چڑھتے رہ گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کے اس نیک فیصلے میں ابھی حال ہی میں اُس وقت پھر جان پڑتی نظر آئی تھی جب سی ایس ایس کے ایک امیدوار سیف الرحمان نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی کہ چونکہ عدالتِ عظمیٰ اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کا حکم جاری کر چکی ہے، اس لئے مقابلے کے امتحانات اردو میں لئے جائیں، جس پر عدالت نے متعلقہ حکام کو تحریری حکم جاری کیا کہ سی ایس ایس کے امتحانات اردو میں لینے کیلئے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا یہ فیصلہ سنتے ہی ’’بابو ایمپائر‘‘ کے ایک ’’خاص مائنڈ سیٹ‘‘ نے عدالت کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیا کہ اس سال تو چونکہ امتحانات قریب ہیں اور امیدوار بھی آدھی سے زیادہ تیاری کر چکے ہیں، اس لئے اردو میں امتحانات اگلے سال، یعنی 2018ء ہی میں ممکن ہو سکتے ہیں۔ یہ حیلہ کسی حد تک معقول دیکھتے ہوئے عدالت نے تو ایک سال کی مہلت دے دی مگر ’’بابو ایمپائر‘‘ کو کب چین آنے والا تھا، سو، ایک برس کی مہلت ملنے کے باوجود فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے ہفتہ بھر میں اپیل دائر کرنے کی تیاریاں مکمل کر لیں، حالانکہ اصولی طور پر یہ اپیل اسے 2018ء میں دائر کرنی چاہئے تھی۔ اتنی جلد اپیل دائر کرنے کا مقصد فقط ایک ہی ہوسکتا ہے کہ اس معاملے کو پائوں نہ جمانے دیئے جائیں اور بروقت ہی اس پر مٹی ڈال دی جائے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ایف پی ایس سی کی اپیل منظور کرتے ہوئے سی ایس ایس 2018ء کا امتحان اردو میں لینے کا فیصلہ معطل کردیا ہے۔ درخواست میں تو اردو میں امتحان لینے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کیلئے کہا گیا تھا لیکن عدالت نے اسے کالعدم قرار دینے کے بجائے فی الحال معطل کر کے مزید سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایف پی ایس سی کی جانب سے اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’’سی ایس ایس کا امتحان اردو میں لینا مشکل ہی نہیں، عملی طور پر ناممکن بھی ہے کیونکہ اردو میں امتحان لینے کیلئے نصاب دستیاب ہے نہ ہی ممتحن، جبکہ گریجویشن میں بھی اردو لازمی زبان نہیں ہے‘‘۔ ایف پی ایس سی کی اپیل میں ایک حیرت انگیز نکتہ یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ عدالتِ عالیہ کے یک رکنی بنچ نے اردو میں امتحان لئے جانے کا فیصلہ زمینی حقائق کا جائزہ لئے بغیر صادر کیا ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی طرف سے پیش کی گئی اس بے سروپا دلیل پر تو ماتھا پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ زمینی حقائق کا ادراک کیا ہوتا ہے، یہ ایف پی ایس سی والے ملک کی ایک اعلیٰ عدالت کے تجربہ کار اور ذمہ دار ججوں کو بتائیں گے؟ ثانیاً، جو یہ بات کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اردو زبان کو رائج کرنے کیلئے اقدامات کا ہے، اور پاکستان کا آئین بھی اردو زبان رائج کرنے کیلئے پیشگی اقدام کرنے کا کہتا ہے، تو اس تناظر میں تو ہم یہی پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ پاکستان کا آئین وضع ہوئے تو 43برس کا عرصہ بیت چکا ہے، اس طویل عرصہ میں اردو نافذ کرنے کیلئے ہم پیشگی اقدامات کیوں نہیں کر پائے؟ کیا اس کام کیلئے نصف صدی کم تھی؟ اب بھی ہمیں اور مہلت چاہئے؟ سچ بات تو یہ ہے کہ ’’بابو ایمپائر‘‘ اردو کیلئے مہلت نہیں، بلکہ اس سے نجات چاہتی ہے۔ درحقیقت تو یہ نیت کا معاملہ ہے۔ یہ نیت ہی تھی کہ سندھیوں نے سندھی کے نفاذ کیلئے سالوں کا کام مہینوں اور ہفتوں میں مکمل کرلیا تھا، اور نہ صرف سرکاری وتدریسی اداروں میں سندھی رائج کردی بلکہ ادبی میڈیم کو بھی سندھی زبان میں بدل دیا۔ یہ بھی نیت کا دارومدار ہی تھا کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بنگالیوں نے ملکی ضرورت کی ہر دستاویز کو محض تین سے چھ ماہ کے اندر اندر اپنی زبان میں ٹرانسکرائب کرلیا تھا۔ اردو سے عداوت صرف وفاقی بیورو کریسی کو ہی نہیں، صوبائی بیورو کریسی اورصوبائی حکومتوں کو بھی ہے۔ اردو میں امتحان لینے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو صرف خادمِ اعلیٰ پنجاب نے قدرے سنجیدگی سے لیا، اور مقابلے کے امتحان اردو میں لینے کیلئے متعلقہ اداروں کو کام پر بھی لگا دیا تھا مگر اب تو شاید یہ نائو بیچ منجدھار ہی رہ جائے۔ پنجاب کے علاوہ کوئی اور صوبہ اردو میں امتحان لینے کیلئے اس لئے سامنے نہیں آیا کہ سندھی‘ پختون اور بلوچی تو اردو کے بجائے اپنی ثقافتی زبانوں کو قومی زبانیں مانتے ہیں‘ وہ تو اردو کو قومی زبان ماننے کیلئے تیار ہی نہیں، تو پھر اسے وہ سرکاری زبان کیسے تسلیم کرینگے؟ ہمارے نزدیک یہ انتہائی خطرناک معاملہ ہے کہ ایک طرف تو اردو کو صوبائی مزاحمت کا سامنا ہے تو دوسری جانب بیورو کریسی اس کے وفاقی اور حکومتی اداروں میں لاگو کئے جانے کی سخت مخالف ہے۔ آجاکر ایک پنجاب ہی رہ جاتا ہے جہاں اردو کی دال گلتی آرہی ہے کیونکہ پنجاب واسی پنجابی سے زیادہ اردو کو عزیز سمجھتے ہیں۔ سی ایس ایس کے امتحانات اردو میں لینے کے فیصلے سے صوبائی کے ساتھ ساتھ وفاقی بیورو کریسی میں بھی خوف کا ماحول بازگشت کر رہا تھا کیونکہ بیورو کریٹ اشرافیہ کے وہ نمائندے ہیں جنہوں نے اردو کو مڈل اور لوئر کلاس میں دھکیل کر انگریزی کو اپر کلاس کیلئے ایک ٹول کے طور پر بحق خود محفوظ کر رکھا ہے‘ ان بابوئوں کی ہوائیاں اس لئے اُڑی ہوئی تھیں کہ اگر سی ایس ایس اور دیگر مقابلے کے امتحانات اردو میں ہونے لگے تو پسماندہ اور دیہی علاقوں کے غریبوں اور کسانوں کے بیٹے بیٹیاں بھی پی اے ایس‘ پی ایس پی اور فارن سروس کے قابل افسر بن کر سامنے آنے لگیں گے اور اشرافیہ کے موروثی ممی ڈیڈی ٹائپ نالائق بچے ’’بابو ایمپائر‘‘ کی فیکٹریوں میں بننا بند ہو جائینگے، انہی طلسماتی فیکٹریوں کی کرامت ہے کہ گزشتہ سال سی ایس کے امتحان میں صرف 2اعشاریہ 9فیصد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جبکہ 92فیصد امیدوار انگریزی کے مضمون میں فیل ہو گئے، یعنی 9ہزار 642طالب علموں نے امتحان میں حصہ لیا جن میں سے فقط 202کامیاب ہوئے، جب ان کا انٹرویو ہو گا تو شاید مشکل سے 50ہی سلیکٹ ہو پائے۔ اسی طرح 2015ء میں بھی صرف3فیصد امیدوار پاس ہوئے تھے اور 97فیصد فیل ہو گئے تھے، یعنی 12176امیدواروں میں سے صرف 238کامیاب ہوئے۔
یہ تنزلی دراصل ضیا دور سے شروع ہوئی،جو اب نقطۂ غرقاب کو چھو رہی ہے۔ 70ء کی دہائی کے بعد دیوانی ملازمتوں کے معیار میں نمایاں کمی کی وجہ سے اچھے امیدوار سامنے نہیں آرہے اور امتحان میں پاس ہونے کی شرح بھی کم ہو رہی ہے۔ یہ دعوے محض دعوے ہی ہیں کہ ملک میں تعلیمی معیار پرائیویٹ سیکٹر کے آنے کے بعد بہتر ہوا ہے‘ اگر یہ سچ ہے تو پھر معیاری امیدوار کم کیوں ہو گئے ہیں؟ حکومتیں عملی طور پر سی ایس ایس کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات و اصلاحات کرنے میں مکمل طور پر نااہل ثابت ہوئی ہیں۔ صداقت تو یہ ہے کہ بیورو کریسی کو محض حکومتیں بنانے اور چلانے کی مشینری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے یہ کام تو میرٹ سے ہٹ کر چور دروازوں سے آنے والے سفارشی اور مرتشی قسم کے نام نہاد بیورو کریٹ ہی کر سکتے ہیں جو کہ اس وقت پوری آب و تاب سے جاری ہے، چنانچہ حکمرانوں کو نفاذِ اردو سے زیادہ افسر شاہی کی خوشیاں عزیز ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اوّلاً تو چیف جسٹس سپریم کورٹ کو جسٹس جواد ایس خواجہ کے نفاذِ اُردو کے فیصلے پر سنجیدگی سے عملدرآمد کروانا چاہئے۔ ثانیاً، لاہور ہائیکورٹ کو بھی اس ضمن میں اپنی عدالت کے حالیہ فیصلے کی صرف یہ دیکھتے ہوئے لاج رکھنی چاہئے کہ یہ آئینِ پاکستان کی سفارش اور قومی یکجہتی کا تقاضا ہے، اس لئے نہ صرف تدریسی اورامتحانی میڈیم کو اردو میں رائج کرنے بلکہ سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں بھی اردو زبان کی ترویج کے احکامات صادر فرمائے جائیں، بھلے ہی اس کیلئے پیشگی اقدامات کیلئے درجہ بدرجہ مہلت دے کر ایک مجوزہ ’’نفاذِ اردو کمیشن‘‘ سے تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد جزوی پیشرفت کی رپورٹ مانگی جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اردو یتیم اور لاوارث ہو کر ایک دن پاکستان سے رختِ سفر باندھ جائے گی اور ہم لسانی بکھیڑوں میں گم ہوکر اپنے ہی زخم چاٹ رہے ہوں گے۔



.
تازہ ترین