• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی سیاست میں عام انتخابات سے چودہ ماہ پہلے ہی دنگل شروع ہوچکا ہے اور الفاظ کے نشتر سے ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوششیں جا رہی ہیں، داؤ پیچ کے اسی کھیل میں ’نورا کشتی ‘کی آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں۔ یہ وہ لفظ ہے جو اس خطے میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے اور خصوصا پاکستانی سیاست میں اس کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ کہاجاتا ہے کہ شمالی پنجاب میں نورا نام کا ایک پہلوان ہوا کرتا تھا جو تن سازی اور پہلوانی کے اسرار و رموز سے کماحقہ واقفیت رکھنے کی وجہ سے کافی مشہور تھا۔ کشتی کے مقابلے دیکھنے کے شوقین افراد کو نورے کی طاقت،مہارت اور صلاحیتوں پراندھا اعتماد تھا اور اسی اعتماد نے نورے کی نیت میں فتور پیدا کر دیا، اس نے حریف پہلوانوں سے پیسے لے کر کشتی ہارنا شروع کر دی، پہلے پہل تماشائی یہی سمجھتے رہے کہ نورا دل و جان سے مقابلہ کرتا ہے لیکن قسمت اس کا ساتھ نہیں دیتی جس کی وجہ سے وہ کشتی ہار جاتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد ہی یہ بھید کھل گیا کہ نورا حریف سے مک مکا کر کے صرف دکھاوے کیلئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ اس طرح نورا پہلوان مالی فوائد حاصل کرنے کے عوض جان بوجھ کر شکست کھانے کی وجہ سے بدنام ہو گیا جہاں سے نورا کشتی کی اصطلاح نے جنم لیا۔ مختلف ڈکشنریوں میں نورا کشتی کی بیان کی گئی تعریف کے مطابق یہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا عام فہم مطلب ایسی لڑائی ہے جس کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہو یا ایسے تاثر دیا جائے جیسے لڑائی کی جا رہی ہے جبکہ اس کا مقصد دیکھنے والوں کو بیوقوف بنانا ہو۔اسی طرح ریسلنگ کے عالمی مقابلوں کی وجہ سے مشہور ورلڈ ریسلنگ فیڈریشن(ڈبلیو ڈبلیو ایف) جسے تماشائیوں کو محظوظ کرنے کے باعث ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ( ڈبلیو ڈبلیو ای) کا درست نام دے دیا گیا ہے بنیادی طور پر نورا کشتی کی ہی جدید ترین قسم ہے جس کے دنیا بھر میں سالانہ پانچ سو سے زائد مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں اور تقریبا ایک سو پچاس سے زیادہ ممالک میں چار کروڑ کے لگ بھگ لوگ صرف ٹی وی اسکرینوں پریہ دلچسپ کشتیاں دیکھتے ہیں۔ ان نورا کشتیوں میں حصہ لینے والے ریسلر (پہلوان) اپنے حریف پر جھپٹتے اوراسے پٹخ کے ایسے پھینکتے ہیں کہ دیکھنے والوں کی سانسیں رک جاتی ہیں۔ بعض اوقات تو ایسے گمان ہوتا ہے کہ ابھی گردن یا ریڑھ کی ہڈی ٹوٹی ہی ٹوٹی لیکن دوسرے ہی لمحے گوشت پوست کا وہ انسان ایسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا ہے کہ جیسے اسے کسی نے چھوا بھی نہ ہو۔ امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس نورا کشتی کے بہت شوقین ہیں بلکہ حالیہ امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران ان کی ایک ویڈیو تو سوشل میڈیا پر بے حد مقبول ہوئی تھی جس میں وہ اپنے پٹھے (پہلوان) کی مدد کیلئے خود بھی مار دھاڑ کرنے لگے تھے۔ یہ بھی شاید نورا کشتی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی دلچسپی کا شاخسانہ ہی ہے کہ وہ کبھی سی آئی اے کے ساتھ سینگ پھنسا لیتے ہیں تو کبھی امریکی میڈیا سے دو دو ہاتھ کرنے پر اتر آتے ہیں اور تو اور وہ تو سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عالمی رہنماؤں سے مصافحے کے دوران بھی اپنی پہلوانی آزمانےلگتے ہیں چاہے مقابل رہنما بیچارے کی انگلیاں ہی ٹوٹ جائیں۔ ویسے تو ہمارے سابق صدر جو سب پہ بھاری کے نعرے سن کر بہت خوش ہوتے ہیں، کے بارے میں بھی کسی دور میں مشہور تھا کہ ان سے مصافحہ کرنے والے کو بعد میں اپنی انگلیاں گننا پڑتی ہیں۔ آج کل اپنے جیالوں کی تفریح طبع کیلئے انہوں نے بی بی شہید کی مفاہمتی پالیسی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین خصوصا شریف برادران کے بارے میں جو جارحانہ انداز اختیار کیا ہے اور رد عمل میں میثاق جمہوریت کو نظر انداز کر کے میاں صاحبان نے بھی جو لب و لہجہ اپنایا ہے،اس نے عمران خان کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ یہ سب نوراکشتی اور ڈبلیو ڈبلیو ای (ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ) ہی ہے۔ خان صاحب سمجھتے ہیں کہ نورا کشتی کی طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت اوررہنماؤں کے درمیان حالیہ سخت بیان بازی ایک فکس میچ ہی ہے۔ انہوں نے اپنے اس مفروضے کی بنیاد یکے بعد دیگرے ایان علی کی ضمانت، سابق وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کی رہائی، شرجیل میمن کی پاکستان واپسی، ضمانت پررہائی اور ڈاکٹر عاصم کی ضمانت پر رہائی کے واقعات کو بنایا ہے۔ خان صاحب اس نورا کشتی کے حق میں ٹھوس دلیل کے طور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کے مقدمات میں’ ہتھ ہولا‘رکھنے کی صورت میں ڈیل کرنا چاہتی تھی تاہم انہوں نے ایسا کوئی بھی سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کو یکے بعد دیگرے ملنے والی ڈھیرساری خوشیوںکو ایک اتفاق قرار دینے اور کسی ڈیل کی نفی کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ پیپلز پارٹی کے تمام ملزمان کو عدالتوں نے رہا کیا ہے اس لئے ایسی بات کرنا عدالتوں کی توہین کے مترادف ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر استغاثہ اور پراسیکیوشن کمزور ہو تو عدالتوں کو ملزمان کو رہا کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ بھی محض اتفاق ہی ہے کہ عین اسی موقع پرچیف جسٹس آف پاکستان نے تفتیش اور استغاثہ کی ناقص صورتحال پر از خود نوٹس لیتے ہوئے وفاقی اور صوبائی پراسیکیوٹر جنرلز سے جواب طلب کر لیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو اس لئے بھی دال میں کچھ کالا نظر آرہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی شدید خواہش تھی کہ پاناما پیپرز کے مقدمے میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی سپریم کورٹ میں اس کے ہمراہ فریق بنے لیکن مفاہمتی پالیسی راستے میں رکاوٹ بن گئی تھی۔ خان صاحب کو شاید اس لئے بھی حالیہ محاذآرائی محض نورا کشتی دکھائی دیتی ہے کیوں کہ ایک دوسرے پر اربوں روپے لوٹنے اور بھاری کمیشن لینے جیسے سے الزامات عائد کرنے والوں نے گزشتہ نو سالوں میں نہ تو ایک دوسرے کے احتساب کیلئے نیب کو تبدیل کرنے کا قانون بنایا اور نہ ہی ایک دوسرے کے خلاف کسی اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے مدعی بننے کی زحمت گوارا کی۔ تحریک انصاف کی قیادت کو تو میچ اسلئے بھی فکس لگے گا کیوں کہ جب پاکستان کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر فائز رہنے والا شخص بڑے دھڑلے سے للکارے کہ نیب کی یہ جرآت کہ ان کے خلاف مقدمات قائم کرے اور اگلی سانس میں وفاقی وزرا کو بھی دھمکائے کہ کل انہیں بھی کہیں سیف الرحمان کی طرح پاؤں میں گر کر معافی نہ مانگنی پڑجائے۔ اور نورا کشتی کا شک تو تب بھی ہوتا ہے پیٹ پھاڑنے جیسے اعلانات کے بعد ایک دوسرے کے اعزاز میں دی گئی ضیافتوں میں پہلے آپ،نہیں پہلے آپ، کی گردان سنائی دے۔ جس کو سڑکوں پر گھیسٹنے کے دعوے کرتے ہوئے جوش خطابت میں مائیک بھی گرا دئیے جائیں اسی کو بطور صدر مملکت الوداعی عشائیہ دیتے ہوئے ایسے الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جائے کہ کانوں کو بھی یقین نہ آئے۔ جمہوریت کا نام لے کر شیر وشکر ہونے والے صرف ساڑھے تین سال بعد ایک بار پھراس انداز میں اکھاڑے میں اتر آئیں کہ داؤ کوئی بھی آزمانا پڑے بس حریف کو چاروں شانے چت کرنا ہے تو نورا کشتی کا گمان ہی ہو گا۔ جناب عمران خان ان مفروضوں،خدشات اور دلائل کی روشنی میں چاہے ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ہونیوالی حالیہ سیاسی محاذآرائی کونوراکشتی سے ہی تعبیر کریں لیکن وہ مولانا ابو الکلام آزاد کا یہ قول بھی یاد رکھیں کہ ’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ‘۔



.
تازہ ترین