• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لوگوں میں یہ خبر بڑی دلچسپی سے دیکھی اور پڑھی گئی کہ پنجاب پولیس کے یونیفارم کا رنگ ’’اولیو گرین‘‘ کر دیا گیا ہے، لاہور پولیس کے 31ہزار اہلکار آج سے یہ وردی پہنیں گے جبکہ 30نومبر 2017ء تک پنجاب بھر کی سوا دو لاکھ پولیس اس وردی کو اپنا لے گی۔ قیام پاکستان سے آج تک ستر سال کے دوران دوسری مرتبہ پولیس کی وردی تبدیل کی گئی ہے۔ قیام سے قبل خاکی رنگ کی لانگ نیکر، شرٹ اور جرابوں پر مشتمل تھی پھر1958 میں یہ وردی خاکی رنگ کی پینٹ اور سیاہ شرٹ میں تبدیل کی گئی پھر آج تک یہ وردی پولیس کی شناخت بن کر رہ گئی۔ شاید لوگوں کی نظر میں یہ وردی تشدد کی علامت بن گئی تھی، ہو سکتا ہے کہ حکومت پنجاب نے بڑی شدت کے ساتھ یہ محسوس کیا ہو کہ وہ پولیس اور تھانے کا کلچر تو تبدیل نہیں کر سکی وردی کا رنگ ہی تبدیل کر دیا جائے، شاید اس رنگ کے نفسیاتی اثرات کی وجہ سے پولیس کے کردار میں تبدیلی لائی جا سکے چونکہ پولیس کے اعلیٰ افسران اکثر یہ ذکر کرتے ہیں کہ پولیس ایک مقدس پیشہ ہے، اس کو لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کی خاطر اپنے تن من اور دھن کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ ان الفاظ کی لاج رکھنے کیلئے مختلف اوقات میں پولیس میں مختلف ونگ بنائے گئے، جن کی وردی کے رنگ تبدیل کرنے کیساتھ ساتھ ان کی ذمہ داریوں کا تعین بھی کیا گیا تاکہ کسی طرح پولیس کا ’’امیج‘‘ بہتر ہو سکے۔ لیکن ان کا کام وی آئی پیز پروٹوکول ڈیوٹی اور سیکورٹی تک محدود ہو کر رہ گیا۔ محکمہ پولیس کی کارکردگی بڑھانے کیلئے گزشتہ 30برس میں اربوں روپے خرچ کر کے انہیں جدید آلات، مشینری اور مراعات دی گئیں لیکن نہ تو جرائم میں کمی آسکی اور نہ ہی عوام کو تحفظ مل سکا۔ بلکہ پولیس مقابلوں کے نام پر ماورائے عدالت قتل ہوئے، لوگوں میں پولیس کا خوف پیدا کیا گیا، تھانے عقوبت خانوں میں تبدیل ہوئے اور اکثر خود جرائم میں ہیں، جو ملوث نہیں اور شریف ہیں وہ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اُن میں سے گزشتہ برس 12افراد نے خودکشی کر لی ہے جبکہ کوئی بھی شریف شہری اپنی شکایت درج کرانے تھانے جانے سے کترانے لگا ہے۔
یہ تو اتنی لمبی تفصیل ہے کہ ایک کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بس پولیس کے کردار کے حوالے سے یہ واقعہ سن لیجئے کہ ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا میں بند 36قیدیوں نے ضمانتیں ہونے کے باوجود رہا ہونے سے انکار کر دیا ہے ان قیدیوں نے احتجاجی طور پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سرگودھا کو ایک خط لکھا کہ عدالتوں کے حکم پر جب انہیں رہائی ملتی ہے تو سی آئی اے پولیس کے بعض اہلکار دوبارہ انہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں اور زبردستی ڈکیتیاں کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بعض افسران علم ہونے کے باوجود سی آئی اے پولیس کی خود سرپرستی کرتے ہیں، گو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے قیدیوں کے اس انکشاف کا سخت نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے فوری رپورٹ طلب کی ہے۔ لیکن عدالت کی طرف سے دوبارہ رپورٹ طلب کرنے کے باوجود پولیس نے ابھی تک کوئی واضح موقف عدالت میں پیش نہیں کیا۔ اس حوالے سے تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ پولیس نے جو رپورٹ مرتب کی ہے اس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ سنگین نوعیت کے مقدمات میں ضمانتوں پر رہا ہونے والے ملزمان کو اس لئے جیل سے حراست میں لیا جاتا ہے کہ متعلقہ تھانے کی پولیس اس ملزم یا اسکے اہل خانہ سے شورٹی بانڈز حاصل کر لے، گزشتہ دو سال سے سی آئی اے پولیس ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا اور ڈسٹرکٹ جیل شاہ پور سے رہا ہونے والے 80فیصد تک ملزمان کو دوبارہ غیر قانونی حراست میں لے لیتی ہے، انہیں مختلف عقوبت خانوں میں رکھا جاتا ہے اور جرائم کرائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 36ملزمان نے ضمانت ہونے کے باوجود رہائی سے انکار کر دیا جبکہ پولیس اس غیر قانونی اقدام کو چھپانے کیلئے تگ ودو میں مصروف ہے۔
یہ انکشاف تو صرف ایک ضلع کے حوالے سے سامنے آیا ہے اگر تحقیقات کی جائیں تو پورے پنجاب میں ایسے انکشافات سامنے آئیں گے۔ پچھلے دنوں صوبائی محتسب نے گورنر پنجاب کو سال 2016ء کی جو کارکردگی رپورٹ جمع کروائی ہے اس کے مطابق مختلف محکموں کیخلاف 24ہزار 637شکایات درج کرائی گئیں، جن میں گزشتہ برسوں کی طرح محکمہ پولیس ہی سرفہرست رہا، اب آپ پولیس ذرائع کی گزشتہ برس کی رپورٹ دیکھئے کہ صرف صوبائی دارالحکومت لاہور کے 85تھانوں میں 50ہزار سے زائد مقدمات کا اندراج ہوا، ڈکیتی پر مزاحمت پر 17افراد کو ڈاکوئوں نے قتل کیا، 520افراد قتل، 15ہزار 55وارداتیں ہوئیں، گاڑیاں چھینی گئیں، موٹر سائیکل چوری اور ہزاروں نوسربازی کے کیس رپورٹ ہوئے لیکن جو رپورٹ نہیں ہوئے یا پولیس نے مقدمات درج نہیں کئے وہ علاوہ ہیں۔ اب اگر ان حالات میں حکومت پنجاب یہ دعویٰ کرے کہ وردی تبدیل کرنے سے پولیس اور تھانہ کلچر میں تبدیلی آئے گی تو یہ صرف دیوانے کا خواب ہے۔ پولیس کو جس نام سے بھی پکارا جائے یا کوئی بھی یونیفارم کا رنگ تبدیل کر دیا جائے اس کے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی نہیں آ سکتی، یہ خبر بھی حیران کن ہے کہ لاہور جیسے شہر کے تمام تھانوں میں مڈل پاس انچارج اور تفتیشی آفیسر ہیں، ان سے انصاف کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ تو صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب سیاسی مداخلت ختم کی جائے، ان کا استعمال سیاسی مقاصد کی بجائے صرف عوام کے جان ومال کے تحفظ کیلئے کیا جائے، جس طرح کے پی میں تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی ہے، نئی یونیفارم کے حوالے سے پولیس کیلئے صرف ایک خوشخبری ضرور ہے کہ اس میں 8جیبیں ہیں اور وہ بھی بڑی بڑی جو چھپانے میں کام آسکتی ہیں!
دعوے نہیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے!
آخر میں وزیراعلیٰ کے نوٹس میں ایک اور اہم مسئلہ لانا ہے جو ایک خط کے ذریعے کالج انٹرنی ٹیچرز (CTI) نے اس شرط کیساتھ لکھا ہے کہ اُن کے نام نہ دیئے جائیں۔ ان فی میل سی ٹی آئیز کا کہنا ہے کہ اس وقت پنجاب بھر کے کالجوں میں چھ ہزار کے قریب آسامیاں خالی ہیں، حکومت لیکچراز کی مستقل تقرری کی بجائے دس مہینے یا ایک سال کے کنٹریکٹ پر سی ٹی آئیز بھرتی کرتی ہے۔ کنٹریکٹ کے مطابق ہر مہینے تنخواہ ملنی چاہئے مگر گزشتہ برس آٹھ مہینے کے بعد تنخواہ دی گئی لیکن سمن آباد گرلز کالج اور اسلامیہ کالج کوپر روڈ کی 40کے قریب سی ٹی آئیز کو آخری چار مہینوں کی تنخواہیں ہی نہیں دی گئیں جبکہ اُن کے کنٹریکٹ کو ختم ہوئے سات ماہ ہو چکے ہیں۔ شنید یہ ہے مبینہ طور پر تنخواہوں کا بجٹ حاصل کر کے خورد برد کر لیا گیا ہے۔ چلتے چلتے وزیراعلیٰ کے نوٹس میں یہ بات بھی لائی جائے کہ اکتوبر2016ء میں دس مہینے یا ایک سال کیلئے جن ہزاروں سی ٹی آئیز کو بھرتی کیا گیا ہے انہیں چھ مہینے گزرنے کے باوجود تنخواہیں نہیں دی گئیں، کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے ابھی تک بجٹ ہی نہیں دیا۔ یہ چیز کسی بھی صورت میں آپ کی حکومت کی نیک نامی کا باعث نہیں اس چیز کا فوری نوٹس لیا جائے یہی تعلیم سے آپ کی محبت کا تقاضا ہے!



.
تازہ ترین