• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری بدقسمتی کہ پاکستانی لکھاریوں میں ایک ایسا گروہ موجود ہے جسے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو تہہ و بالا کرنے، نوجوان نسلوں کے ذہنوں میں بدگمانیوں کا زہر گھولنے اور قائداعظمؒ کے کردار کو مشکوک بنانے پر مامور کر دیا گیا ہے..... حیرت کی بات نہیں کہ انہیں ہندوستان کی محبت اور سرپرستی میسر ہے اور ہندوستانی حکومت انہیں خطابات و اعزازات سے بھی نوازتی ہے۔ وہ خود بھی سیکولرازم سے اس قدر وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو پاکستانی نظام تعلیم کے اسلامی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے ہندوستان میں زیور تعلیم سے آراستہ کرواتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک ہی ایسا ہیرو، آئیڈیل اور سیاسی رہنما بچا تھا جس کی امانت و دیانت، عظیم کردار، سیاسی بصیرت اور خلوص کی پوری دنیا قائل ہے، جس کو غیر ملکی مورخین نے تحقیق کے بعد عظیم ترین لیڈر قرار دیا ہے اور اس کی عظمتِ کردار کو بے پناہ خراج تحسین ادا کیا ہے۔ اس عظیم لیڈر کا نام ہے قائداعظم محمد علی جناحؒ... ہمارے کچھ نامہربان لکھاری مورخ ہونے کے دعویدار قائداعظمؒ کے کردارپر بھی شکوک کے تیر چلارہے ہیں اور نوجوان نسلوں کو اس آئیڈیل اور سیاسی ہیرو سے بھی محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے دانشوروں اور طلبہ کو گمراہ کرنے میں ہندوستانی ڈی پی او کے کارناموں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اسی طرح کے حربوں کو اب موجودہ پاکستان میں دہرایا جا رہا ہے۔
یارو! مجھے بے حد صدمہ ہوا جب میں نے ڈاکٹر مبارک علی کا خط ایک معاصر روزنامہ (یکم اپریل 2017) میں پڑھا۔ انہوں نے یکم اپریل کا فائدہ اٹھا کر پاکستانی قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے اور ایک ایسا شوشہ چھوڑا ہے جو نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ زہر آلود بھی ہے۔ ہندو مصنفین رام جی لال، انیتا اِندر سنگھ، خشونت سنگھ وغیرہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے قراردادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان (23-24مارچ 1940) کے حوالے سے لکھا ہے ’’انڈیا کے وائسرائے لارڈ لنلتھگو نے یہ قرارداد چوہدری سر ظفر اللہ سے لکھوائی..... یہ مسودہ قائداعظم محمدعلی جناحؒ اور برطانوی حکومت کی توثیق کے بعد 23مارچ 1940کو مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش کیا گیا‘‘ مزید لکھا ہے ’’1940کی قرارداد کو دلکش داستان بنا کر پیش کرنے کا سلسلہ قیام پاکستان کے کئی سال بعد شروع ہوا‘‘ گویا ڈاکٹر صاحب کو یہ بھی علم نہیں کہ مسلم لیگ نے فروری 1941کو ایک قرارداد کے ذریعے ہر سال یوم پاکستان 23مارچ کو منانے کا فیصلہ کیا تھا اور اسے خوب تشہیر دی گئی تھی۔ چنانچہ 23مارچ 1941سے لے کر ہر سال یوم پاکستان مسلم لیگ کے تحت منایا جاتا رہا اور قومی لیڈران اس موقع پر بیانات جاری کرتے رہے۔
میرے سامنے معتبر کتابوں کا ڈھیر لگا ہے۔ کالم کی تنگ دامنی حوالوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ڈاکٹر مبارک علی نے یک جنبش قلم قائداعظمؒ کو انگریزوں کا کارندہ اور قراردادِ پاکستان کو انگریز حاکموں کا عطیہ قرار دے دیا ہے جس کے بارے میں دنیا بھر کے مورخین اور برطانوی مورخین بھی متفق ہیں کہ وہ نہ بکتا تھا نہ جھکتا تھا۔ خود قراردادِ پاکستان کے بارے میں سار ے محققین کا کہنا ہے کہ اسے برطانوی حکمرانوں نے ناپسند کیا اور شدید خطرات کا اظہار کیا۔ قرارادِ پاکستان کے حوالے سے یہ پراپیگنڈہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ سب مورخین کا ذکر کرنا ممکن نہیں آپ صرف تین درجہ اول کے مورخین کی کتابیں پڑھ لیجئے تو آپ پر اس پراپیگنڈے کی حقیقت منکشف ہو جائے گی۔ انہوں نے برطانوی ریکارڈ کی مدد اور ٹھوس حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ یہ نقطہ نظر بے بنیاد اور گمراہ کن ہے۔ کنیڈین ہندوستان نژاد اور نامورمورخ خالد بن سعید نے اپنی کتاب "Pakistan The formative phase"، ڈاکٹر اسکندر حیات "Aspects of Pakistan Movement" اور شریف الدین پیرزادہ "Evolution of Pakistan"نے اپنی کتابوں میں ٹھوس شواہد سے اس دعوے کو مسترد کیا ہے۔
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ قرارداد پاکستان میں تقسیم ہند کا مطالبہ کرنے سے پہلے ہندوستان میں اس حوالے سے ان گنت اسکیمیں گردش کر رہی تھیں جن پرمسلم لیگ کی قیادت کئی برسوں سے غور کر رہی تھی۔ قائداعظمؒ اور مسلم لیگی قیادت کو تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے نتیجے پر جن عوامل نے پہنچایا ان میں اہم ترین چند صوبوں میں کانگریسی حکومتوں کا قیام اور علامہ اقبالؒ کے خطوط بنام جناح(1936-37)تھے۔ کانگریس کی صوبائی حکومتوں (1937-38)کے مسلمانوں سے ذلت آمیز رویے، بندے ماترم جیسے مسلمان مخالف ترانے پر اصرار، گاندھی کے بت کی پوجا اور مسلمانوں پر سیاسی اقتدار اور ملازمتوں کے دروازے بند کرکے کانگریس نے اپنے عزائم کو بے نقاب کر دیا تھا۔ اسی دور میں علامہ اقبالؒ نے قائداعظمؒ کو خطوط لکھے اور انہیں ایک آزاد مملکت کے حصول پر آمادہ کیا۔ قائداعظمؒ کی سیاسی و فکری تشکیل میں ان خطوط نے اس قدر اہم کردار سر انجام دیا کہ قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد قائداعظمؒ نے ایک بیان میں برملا کہا کہ ’’اقبال میرے قائد تھے۔ آج وہ زندہ ہوتے تو کس قدر خوش ہوتے کہ ہم نے وہ مطالبہ کر دیا جو وہ چاہتے تھے‘‘ دنیا بھر کے مورخین متفق ہیں کہ قائداعظمؒ عمر بھر انگریزوں کے خلاف برسر پیکار رہے۔ ان کے ہمیشہ برطانوی حکمرانوں سے تعلقات سرد مہری کا شکار رہے اور وہ کسی سے ڈکٹیشن لینے والی قسم ہی نہیں تھے۔ تاریخی ریکارڈ گواہ ہے کہ مسلم لیگ 1940سے قبل ہی تقسیم ہند کے مطالبے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ اس ارادے کا اظہار سندھ مسلم لیگ کانفرنس نے اکتوبر 1938میں ایک قرارداد کے ذریعے کر دیا تھا جس میں آل انڈیا مسلم لیگ سے آزادی کی اسکیم تشکیل دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ اس اجلاس کے موقع پر قائداعظمؒ نے 1938میں سر عبداللہ ہارون کے گھر ڈنر پر چوہدری رحمت علی کی اسکیم چند ترمیمات کے ساتھ Adopt کرنے کا بھی عندیہ دیا تھا۔ فروری 1940تک مطالبہ پاکستان کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ چنانچہ جب قائداعظمؒ لارڈ لنلتھگو سے ملے تو انہوں نے وائسرائے کو اس فیصلے سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔ وائسرائے نے قائداعظمؒ کو اس فیصلے سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن قائداعظمؒ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ قراردادِ پاکستان انگریز حکمرانوں کی خواہش پر پیش کی گئی اور قرارداد سرظفر اللہ نے لکھی اس صدی کاسب سے بڑا جھوٹ ہے۔ مسلم لیگ کے ریکارڈ (کراچی یونیورسٹی) میں قراردادِ پاکستان کا اصل مسودہ اور اس میں کی گئی خاص ترمیمات موجود ہیں۔ یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ 21مارچ 1940کو مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے قرارداد ڈرافٹ کرنے کے لئے کمیٹی بنائی تھی جس نے کئی گھنٹوں کی بحث کے بعد قرارداد ڈرافٹ کی۔ اس کی گواہی پیر علی محمد راشدی بھی دیتے ہیں اور جناب کھوڑو بھی عینی گواہ کی حیثیت سے تصدیق کرتے ہیں۔ قراردادِ لاہور پنجاب کے پریمئر اسکندرحیات نے ڈرافٹ کی لیکن ورکنگ کمیٹی نے اس میں بہت زیادہ ترمیمات کیں۔ سر اسکندر حیات نے 11مارچ 1941کو پنجاب قانون ساز اسمبلی میں یہ بیان دیا جو ریکارڈ میں موجود ہے کہ قرارداد انہوں نے ڈرافٹ کی لیکن جب اسے ورکنگ کمیٹی میں پیش کیا گیا تو اس میں بہت زیادہ تبدیلیاں کر دی گئیں۔ چنانچہ یہ کہنا سراسر جھوٹ ہے کہ قرارداد سر ظفراللہ نے برطانوی وائسرائے کے کہنے پر ڈرافٹ کی۔ یقین رکھئے اگر سر ظفراللہ خان نے یہ معرکہ سر انجام دیا ہوتا تو وہ اپنی کتاب ’’تحدیث نعمت‘‘ میں اپنے کارنامے کا ذکر ضرور کرتے لیکن انہوں نے تو قیام پاکستان کے 34برس بعد بھی اس کی تردید کی (بحوالہ ڈان 21دسمبر 1981) حالانکہ اس وقت وہ اس کا کریڈٹ لے سکتے تھے اور ان کی جماعتی ضرورت بھی تھی۔ سر ظفراللہ کی جس اسکیم کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے وائسرائے لنلتھگو کیلئے تیار کی تھی اور اس کی بنیاد فیڈریشن تھی نہ کہ مکمل آزادی اور تقسیم ہند.... برطانوی ریکارڈ گواہ ہے کہ وائسرائے نے نہ صرف قائداعظمؒ کو باز رکھنے کے لئے حربے استعمال کئے بلکہ سیکرٹری آف اسٹیٹ Zetlandکو لکھے گئے خط میں اس قرارداد کو خلافِ عقل اور احمقانہ قرار دیا۔ زٹلینڈ نے وائسرائے سے اتفاق کرتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا۔ ذرا سوچئے کہ کیا وائسرائے اپنی بھیجی ہوئی قرارداد کو احمقانہ کہہ سکتا تھا؟ ہماری تاریخ کو مسخ کرنے والو! خدا کا خوف کرو۔بہت سی باتیں رہ گئیں ان شا اللہ پھر کبھی۔



.
تازہ ترین