• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب بعض ایسی سچائیاں پیدا ہو رہی ہیں، جن سے انکار ممکن ہے نہ فرار ہوا جا سکتا تھا، قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا ’’پاکستان اس دن بن گیا تھا، جب پہلا مقامی فرد مسلمان ہوا۔‘‘ اجنبی کو تو آپ گھر سے نکال سکتے ہو، اس کو واپس اپنے وطن بھیجنے کی بات کر سکتے ہو لیکن جو گھر کا فرد خاندان کا حصہ ہے اس کا کیا کرو گے؟ اس کے ساتھ سانجھ رکھنی ہے یا پھر وراثت بانٹنی پڑے گی۔ قائداعظم کا فرمانا یہی تھا۔ سید، صدیقی، فاروقی کو کہہ سکتے تھے کہ نووارد ہیں مگر قائداعظم خود قدیم ہندوستانی نسل سے تعلق رکھتے تھے، جاٹ، راجپوت، کھوکھر، مسلم شیخ، الغرض سینکڑوں چھوٹی بڑی اقوام مقامی اور پرانے مذاہب چھوڑ کر مسلمان ہو چکے تھے۔ اب وہ نئے دین میں داخل ہو کر ایک کے بعد دوسری قوم پیدا کر چکے ہیں۔ اگر خاندان کو متحد رکھنا ہے تو پھر ان کو بھی برابر کا احترام اور حق دینا ہے، اگر یہ منظور نہیں تو پھر گھر کا صحن اور کمرے بانٹ کر درمیان میں دیوار کھڑی کرنا پڑے گی اور ہندوستان میں ایک دفعہ یہ واقعہ گزر چکا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو جب اقلیت قرار دیا گیا تو سرسید نے کہا تھا چھ کروڑ انسان اقلیت نہیں ہوتے (تب ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد چھ کروڑ تھی)، انگریزی راج میں حکومت برطانیہ کی، اکثریت ہندو کی، دولت برہمن کی، سیاست کانگریس کی اس کے باوجود مسلمانوں نے آزادی ہی نہیں اپنا الگ وطن بھی حاصل کر لیا۔ سرسید نے 1899ء میں انتقال فرمایا تو مسلمانوں کی تعداد 6 کروڑ تھی اور بقول سرسید چھ کروڑ لوگ اقلیت نہیں ہوتے تو آج انڈیا میں مسلمانوں کی تعداد پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے، یعنی 20کروڑاقلیت کیونکر ہو سکتے ہیں؟ ہاں یہ درست ہے کہ وہ انڈیا کی دوسری بڑی اکثریت ہیں، بیس کروڑ لوگوں کو ختم کیا جا سکتا ہے نہ دبایا جا سکتا ہے۔ ہندوئوں کی اکثریت کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اکثریت کی بنیاد پر جمہوری حکومت چلائیں اور اقلیتوں کو اتنی آزادی ضرور دیں جتنی یورپ نہیں تو کم ا زکم اتنی جتنی مسلمان ملکوں میں اقلیتوں کو حاصل ہے، دبانے یا مشتعل کرنے کے نتائج ہندوستان کی خوشحالی اور سلامتی کیلئے بڑے خطرناک ہو سکتے ہیں، انڈیا کے ہندو کسی الگ تھلک جزیرے یا دور دراز سیارے پر بسنے والی مخلوق نہیں ہیں، انڈیا کے انتہا پسند حکومت مسلمانوں کی قیادت انتہا پسند مسلمان نوجوانوں کے ہاتھ میں نہ جانے دے، کشمیر میں چند لاکھ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو فوج کے ساتھ لاکھ سورما نہیں دبا سکے تو بیس کروڑ کو مشتعل کر کے اس راہ پر لگانا دانش مندی نہیں ہے، اگر یہ تصادم مذہبی رخ کے ساتھ وسعت اختیار کر گیا تو بنگلہ دیش سے انڈیا کو آنے والی ٹھنڈی ہوائیں بھی باد سموم میں بدلتے دیر نہیں لگے گی اور کوئی وجہ نہیں اگر آزادی کی کوئی تحریک شروع ہوئی تو 20کروڑ دلت، بہادر اور جفاکش سکھ اس سے دور رہ سکیں۔ انڈیا کی سیاسی قیادت اگر ایک دفعہ پھر ’’پٹیل‘‘ اور ’’تارا سنگھ‘‘ کا رویہ اختیار کرنے والی ہے تو اس طرز عمل کا ردعمل بعینہٖ وہی ہوگا جو 70 برس پہلے ہوا تھا۔
سائنس کے جد اعلیٰ نے کہا تھا کہ ایک ثابت شدہ تجربے کو جتنی مرتبہ دہرایا جائے اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو پہلی دفعہ آیا تھا۔ ہر عمل ایک ردعمل پیدا کرتا ہے، ایک جیسے عمل کا ہر مرتبہ ردعمل وہی ہوگا جو پہلی دفعہ ہوا تھا۔ ایسی توانا آواز ہندوستان میں اٹھنے لگی جس کی پشت پر کروڑوں انسان ہوں تو ان کو دوسرے ملکوں کی حمایت اور تعاون ملنا شروع ہو جائے گا، جن کے اندرونی معاملات میں انڈیا مداخلت اور جن کے خلاف پراکسی (خفیہ) جنگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ انڈیا میں کوئی عدم استحکام پاکستان کو بری طرح متاثر کرتا ہے، اس لئے کہ کسی ایسے بحران کے نتیجے میں نہرو لیاقت معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اقلیتوں کے ساتھ ہم مذہب ہونے کی وجہ سے پاکستان غیرمتعلق نہیں رہ سکے گا، اگر بحران میں شدت آئی تو متاثرہ لوگوں کے بڑے ریلے پاکستان، بنگلہ دیش، برما، نیپال وغیرہ کا رخ کریں گے۔ اب بھی پاکستان انڈیا کیلئے ایک بفر کا کام دیتا ہے، ورنہ محمود غزنوی سے نادر شاہ درانی تک مداخلت کار بلا رکاوٹ آیا کرتے تھے، پاکستان کی بدولت، انڈیا روس کی جوع الارض سے نہ صرف محفوظ رہا اور پاکستان نے ان کے بڑے ہلے کو اپنے سینے پر لیا بلکہ افغانوں کی سینہ زوری جو دراصل انڈیا کے حصے میں آنے والی تھی کہ پانی نشیب میں اترتاہے، وہ سینٹرل ایشیا، ایران اور روس کا رخ کرنے کی بجائے اب تک شیو سینا اور مودی کی جارحیت روکنے کیلئے کب کے گجرات اور یوپی کا رخ کر چکے ہوتے۔ ایسا ہی ایک مسئلہ ہمارے لئے ایک دوست ملک کی طرف سے بھی متوقع ہے۔ اگرچہ یورپ، امریکا اور اس کے بعد مسلمان ملکوں نے چین کے ساتھ دوستی کا پیمان وفا باندھنا شروع کیا ہے اور تجارت کیلئے چین کیلئے اپنی تجارتی منڈیاں اور شاہراہیں کھول دی ہیں اس کے باوجود چین کیلئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی ملک کے اندر جاری کش مکش اور بحران کو اسی تحمل اور بردباری سے نمٹائے جو اس کی خاصیت ہے، جس تحمل کے ساتھ اس نے ہانگ کانگ کو لیا، جس قوت برداشت کا مظاہرہ تائیوان کے بارے میں روا رکھا اور جو برداشت جاپان کیلئے اس کے دل میں ہے، ایسی ہی قوت برداشت کا مظاہرہ ’’سنکیانگ‘‘ کے مسلمانوں اور ’’یغور‘‘ قبائل کے ساتھ بھی کرنا چاہئے۔ ایک کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کسی طرح بھی خود دوست ملک کے مفاد میں نہیں ہے جبکہ اسے اچھی طرح معلوم ہے، اس کی مسلمان آبادی کی ہمسائیگی دوسرے مسلمانوں سے جڑی ہے، ہر طرف مسلمان اکثریت کے ملک ہیں اگرچہ ابھی وہ دوست ملک کی طرح طاقتور نہیں مگر کسی بحران کی صورت میں ’’مہاجرین‘‘ کو پناہ دینے پر مجبور ہوں گے۔
امریکا اور انڈیا، کب سے اس بحران کی آبیاری کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں، بحران کو پیدا ہونے کا موقع دینا دانش مندی نہیں کہلا سکتا، مسلمان جیسا گیا گزرا بھی ہو وہ دو باتوں کو کبھی نظرانداز نہیں کر سکتا، ایک اپنے پیغمبر پاکؐ کی شان میں گستاخی اور دوسرا اس کے مذہبی عقائد میں مداخلت۔ دوست ملک میںمسلمانوں کو روزے پر پابندی اور اب حجاب اور داڑھی بڑھانے کی اجازت نہ دینا ان کے مذہبی عقائد میں براہ راست مداخلت ہے، اس سختی کو بہانہ بنا کر چین کے دشمن، حاسد اور مسابقت رکھنے والے ممالک اس طرح کی صورتحال کو ایکسپلائٹ کر سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں بدامنی کے علاوہ ہمسایوں اور دیگر مسلمان ملکوں اور چین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ دوست ملک کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس خبر کی تردید کرے کہ نماز، روزے پر پابندی یا حجاب ا ور داڑھی کی ممانعت کا حکم نہیں دیا گیا، اگر ایسا کوئی حکم ہے تو اسے فوراً منسوخ کیا جانا چاہئے۔



.
تازہ ترین