• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ نے وسعت اللہ خان کو فکر و نظر کی جو سعت عطا کی ہے، اس پر مجھے تو رشک آتا ہی ہے لیکن پھر جب اس وسعت کے ساتھ کلام کی قدرت بھی شامل ہوجاتی ہے تو بعض اوقات میرا رشک حسد میں بھی بدل جاتا ہے۔ پھر جب ان کی تحریر کی خوبصورتی اور وہاں دریا کو کوزے میں بند کرنے کا رجحان دیکھتا ہوں تو سچی بات یہ ہے کہ احساس کمتری کا بھی شکار ہوجاتا ہوں۔ بسااوقات وہ ایسی بات کہہ یا لکھ دیتے ہیں کہ دل بے ساختہ پکار اٹھتا ہے کہ یہی تو میری بھی آواز ہے۔ جو بات ہم کہنا چاہتے ہیں لیکن بوجوہ کہہ نہیں سکتے، وہ اس خوبصورت اور غیرمضرانداز میں کہہ جاتے ہیں کہ ہم کہنے پر مجبور ہوجاتے کہ کیا کہنے وسعت صاحب۔ پاکستانی سیاست اور صحافت پر نان ایشوز کا راج، غلط ترجیحات اور الیکٹرانک میڈیا کے ریٹنگ زدہ اور افسوسناک رویے کا انہوںنے برطانوی نشریاتی ادارے کی اردو ویب سائٹ پر ’’ہمارا پاکستان اور میڈیا کا پاکستان ‘‘ کے زیرعنوان جس خوبصورت انداز میں خبر لی ہے، وہ ان کے مذکورہ کمالات کی تازہ ترین مثال ہے۔میڈیا کی اس افسوسناک روش نے کافی عرصے سے مجھے بھی پریشان کررکھا ہے۔ جس طرح یہ مسئلہ ان کے ذہن کا روگ بن گیا ہے، اسی طرح میرے ذہن کا بھی روگ بنا ہوا ہے لیکن وسعت صاحب نے جس طرح تشخیص کی ہے، میں ہزار کوششوں کے باوجود اس خوبصورت انداز میںوہ تشخیص کرسکتا ہوں اور نہ ایسی تحریر لکھ سکتا ہوں۔ چنانچہ ان کی تحریر من و عن قارئین کی نذر کررہا ہوں۔ لکھتے ہیں اور کیا خوب لکھتے ہیں کہ :
’’سیاستدان ہو کہ صحافی، اسے زندہ رہنے کے لئے خبر چاہئے۔ اور خبر بھی کراچی، لاہور،پشاور یا اسلام آباد میں چاہئے۔پارہ چنار میں 24افراد کی ہلاکت اور 74کا زخمی ہونا ایک اور افسوسناک واقعہ ضرور ہے مگر خبر نہیں۔اگر ہے بھی تو تین بلیٹنز کے بعد چوتھے گھنٹہ وار بلیٹن کی شہ سرخی بننے کے قابل نہیں۔خیبر ایجنسی میں نماز جمعہ کے موقع پر ایک بم پھٹنا اور تیس سے زائد نمازیوں کا مرنا کافی نہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے لئے ضروری ہے کہ کراچی ائیرپورٹ پر دہشت گرد حملے میں دس دہشت گرد مارے جائیں۔ نیشنل ایکشن پلان اور فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے کوئٹہ کی ہزارہ برادری کی نسل کشی اور ہزاروں کی تعداد میں ہجرت اور یوحنا آباد اور گوجرہ کی کرسچین آبادیوں کا جلنا کافی نہیں تاوقتیکہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ڈیڑھ سو بچے اور اساتذہ نہ مریں۔
آپریشن ردالفساد اور فوجی عدالتوں کا احیا تبھی ممکن ہے کہ جب لاہور کے چیئرنگ کراس پر دس شہریوں کی ہلاکت اور پاک افغان سرحد بند کرنے کے لئے سیہون میں 72افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوجائے۔ کوئٹہ کے سول اسپتال میں پچاس وکلاء اور شاہ نورانی کے مزار پر ساٹھ سے زائد لاشیں گرنے سے کام نہیں چلے گا۔ حالانکہ پارہ چنار افغان سرحد سے ایک پتھر کی مار ہے مگر یہ کوئی ایسا بڑا واقعہ تو نہیں جس کے لئے کابل حکومت سے رسمی احتجاج بھی کیا جاسکے۔چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بڑے بڑے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔چلڈرن آف لیسر گاڈ۔ خبر تو اصل میں یہ ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ اگلے ہفتے سنایا جائے گا کہ نہیں۔ خبر تو یہ ہے کہ فاسٹ بالر محمد عرفان کو چھ ماہ کے لئے قومی کرکٹ کھیلنے سے روک دیا گیا۔ خبر تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کو سندھ ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کردیا۔ خبر تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف دو گھنٹے کے لئے شاہراہ فیصل بند کردی اور سب سے بڑی خبر تو یہ ہے کہ عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ملاقات کی تاکہ یہ یقین کیا جاسکے کہ جنرل صاحب آج بھی جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں کہ نہیں۔ یہ چیک کیا جاسکے کہ تھرڈ ایمپائر کی انگلی اب بھی کام کرتی ہے کہ نہیں۔اور اس سے بھی بڑی خبر مریم نواز کی یہ ٹویٹ ہے کہ وزیراعظم کے گردے میں ایک چھوٹی سی پتھری ہے مگر آپریشن کی ضرورت نہیں۔ وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کے پیٹ میں کچھ درد سا اٹھا تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وزیراعظم اپنے فرائض بخیر و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ یہ اتنی بڑی خبر ہے کہ دو نیوز چینلز کے ٹاک شوز میں ان اسباب کا سیر حاصل تجزیہ بھی ہوگیا کہ ایسے وقت جب پاناما کا فیصلہ سر پر ہے وزیراعظم کے پیٹ میں درد اٹھنے کا مطلب اور مقصد کیا ہے ؟۔ کیا یہ ججوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش تو نہیں ؟۔کہنے کو پاکستان کا رقبہ سات لاکھ چھیانوے ہزار پچانوے مربع کلومیٹر اور آبادی اٹھارہ سے بیس کروڑ کے درمیان ہے لیکن میڈیا کے خبری نقشے کا پاکستان دیکھا جائے تو یہ ملک چھ شہروں (اسلام آباد،راولپنڈی، پشاور،کوئٹہ، لاہور اور کراچی) پر مشتمل ہے جس کا رقبہ دس ہزار دو سو تیئس مربع کلومیٹر اور آبادی پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس میڈیا ئی پاکستان کو چھینک بھی آجائے تو بریکنگ نیوز ہے اور باقی پاکستان خودکشی کرلے تب بریکنگ نیوز ہے۔ پیمرا جب لائسنس بانٹ رہا تھا تو جانے عقل کہاں بٹ رہی تھی ؟۔‘‘
وسعت اللہ خان صاحب بالکل درست فرماتے ہیں کہ ایک اصل پاکستان ہے اور ایک میڈیا کا پاکستان ہے۔ اصل پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بے تحاشہ آبادی ہے لیکن یہ مسئلہ سیاست اور صحافت کا برننگ ایشو (Burning issue) کبھی نہیں بن سکا۔ اصل پاکستان کا اصل مسئلہ چھوٹے صوبوں اور اکائیوں کی محرومی اور پھر وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے لیکن سیاست اور صحافت کے میدانوں میں یہ ایشو کبھی اصل ایشو کے طور پر سامنے نہیں آیا۔ پاکستان کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی اور انتہاپسندی ہے لیکن سیاست میں جس طرح کبھی چار حلقوں اور کبھی پاناما سے متعلق اور میڈیا میں جس طرح کرکٹ سے متعلق انتہاپسندی کا رجحان ہے، اس کی وجہ سے اس بڑے چیلنج کی کوئی تشخیص ہوسکی اور نہ اس کا کوئی حل سامنے لایا جاسکا۔ اس ملک میں اگرغربت اور جہالت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ پڑوسیوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں لیکن ہمارے میڈیا میں پانامہ، کرکٹ اور لوگوں کے طلاق ونکاح کے ایشوز نے ڈیرے ڈال ڈالے ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنی قوم کا ذوق سماعت و دلچسپی اس قدر خراب کردیا ہے کہ اب وہ اپنے اصل مسائل میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لیتی۔ کسی بازار یا ائیرپورٹ میں روک کر مجھ سے میرے کسی قاری یا ناظر نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ پاکستان کی آبادی کیسے کنٹرول ہوگی۔ کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ انڈیا اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی کیسے ختم ہوگی۔ کوئی یہ کرید نہیں کرتا کہ اس حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا کیا ہوا اور وہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کس الماری میں بند ہے۔ کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ یار وہ بلوچستان کے لوگوں کی محرومیاں کچھ دور ہورہی ہیں کہ نہیں اور یہ کہ فاٹا کو پاکستان کا حصہ بنانے کا عمل کس مرحلے میں ہے۔ کوئی یہ جانکاری نہیں کرتا کہ یہ سول ملٹری تنازع ہے کیا اور ان کے مابین بہتر تعلقات کار کیسے استوار ہوسکتے ہیں۔ سی پیک کے دروازے گلگت بلتستان کی آئینی اور معاشی حیثیت کا ذکر کوئی نہیں کرتا اور نہ کوئی مہاجروں کی محرومیوں اور سندھیوں کی حالت زار کے بارے میں سوال اٹھاتا ہے۔پیپلز پارٹی کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں جہاں کوئی ملتا تواس کا ایک ہی سوال ہوتا تھاکہ صافی صاحب یہ بتائیے کہ افتخار چوہدری بحال ہورہے ہیں یا نہیں۔ وہ بحال ہوئے تو پھر ایک ہی سوال ہوتا تھا کہ وزیراعظم سوئس حکام کو خط لکھ رہے ہیں یا نہیں۔ نوازشریف کی حکومت آئی تو یہ سوال ہمارا پیچھے کرنے لگا کہ پنجاب کے چار حلقوں پر کمیشن بن رہا ہے کہ نہیں۔ کمیشن بنا تو پھر ہر زبان پر یہ سوال تھا کہ کمیشن کا فیصلہ کب آئے گا۔ اب پانامادرد سر بن گیا ہے۔ جو بھی ملتا ہے ایک ہی سوال کرتا ہے کہ پاناما کا فیصلہ کب آئے گا۔ جب میں لاعلمی ظاہر کردیتا ہوں تو پھر سوال داغ دیتا ہے کہ چلو یہ تو بتائیں کہ کیا فیصلہ آئے گا۔ حالانکہ میں نے اس کیس پر وقت ضائع کیا ہے اور نہ فیصلے کا انتظار کررہا ہوں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ نوازشریف وزیراعظم رہیں یا ان کا کوئی دوسرا بندہ بن جائے ،میری یا اصل پاکستان کی صحت پر کوئی اثر نہیںپڑتا۔ زرداری وزیراعظم ہوں یا عمران خان ۔ اصل پاکستان کے مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے ۔ کسی کے آنے جانے سے انیس بیس فرق تو پڑ سکتا ہے لیکن نہ میری صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے اور نہ اصل پاکستان کی صحت پر۔ اصل پاکستان کی صحت پر اثر اصل ایشوز ہی کی وجہ سے پڑتا ہے ۔ اس وقت سندھ میں زرداری ، پختونخوا میں عمران خان ، پنجاب میں شریف برادران اور بلوچستان میں محمود خان حکمران ہیں۔ کیا انیس بیس فرق کے سوا کوئی جوہری فرق نظر آتا ہے۔ فرق ہے تو بس یہ کہ مسلم لیگ (ن) چوری کرتی ہے ، پیپلز پارٹی ڈاکہ ڈالتی ہے کہ تحریک انصاف چوری کے ساتھ ساتھ سینہ زوری بھی کرتی ہے ۔ دو آپس میں ڈیل کرتے نظر آتے ہیں تو تیسرا ہر وقت تیسری قوت کے ساتھ ڈیل کے لئے سرگرداں رہتا ہے ۔ پہلے دو کبھی امریکہ اورکبھی چین کوایمپائر بناتے ہیں اور تیسرا تھرڈ ایمپائر کی انگلی پکڑ کر چلنے کا عادی ہے اور اس کی انگلی کے اٹھنے کا منتظر رہتا ہے ۔



.
تازہ ترین