• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بجائے میں آپ سے اپنے پرانے شہر کراچی کی باتیں کروں گا…کراچی کو اپنا سمجھنے والوں نے پوچھا ہے کہ آپ کے غلام شہر کراچی میں روڈ راستوں اور ٹریفک کا کیا حال تھا؟ کیا آپ کے غلام شہر کراچی کی سڑکیں اور روڈ راستے خستہ حال اور ٹوٹے پھوٹے ہوتے تھے؟ کیا ٹریفک بدنظمی اور انتشار کا شکار ہوتا تھا؟ جب ٹریفک جام ہوتا تھا تب ٹریفک پولیس کی حکمت عملی کیا ہوتی تھی؟
میرے بچو، آپ ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئے ہیں…آپ ایک آزاد ملک میں پل کر جواں ہوئے ہیں…آپ کیا جانیں کہ غلامی کس بری بلا کو کہتے ہیں…غلام شہر کراچی میں تب ڈھائی تین لاکھ کے لگ بھگ لوگ رہتے تھے…وہ لوگ ایک ہی عقیدے کے لوگ نہیں ہوتے تھے…ان کی رسمیں رواج مختلف ہوتے تھے…مگر کیا مجال ہے کہ ان کے درمیان کبھی دنگہ فساد ہوا ہو…سب لوگ بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کے تہواروں میں حصہ لیتے تھے…مثبت سوچ رکھنے والے کہتے ہیں کہ مثالی بھائی چارے کا ایک ہی سبب تھا…وہ تھااحترام آدمیت…ٹالرنس…قوت برداشت وغیر ہ … آپ جب آزاد معاشرے میں جنم لیتے ہیں جب آپ آزاد معاشرے میں پل کر جواں ہوتے ہیں تب آپ کی سوچ مثبت ہوجاتی ہے۔ تب آپ برائی میں بھلائی کا عنصر ڈھونڈ نکالتے ہیں…مگر میں اصل حقیقت سے واقف ہوں…میں غلامی کے دور میں پیدا ہوا تھا…اس لئے میری سوچ غلامانہ ہے میں خوامخوا برائی میں اچھائی کا عنصر تلاش نہیں کرتا…میں اچھائی میں برائی کا عنصر ڈھونڈ نکالتا ہوں۔
آپ ہمارے غلامانہ دور کے جس رویئے کو ٹالرنس یا احترام آدمیت سمجھتے ہیں، وہ آپ کی بھول ہے۔ غلامی آپ کو مفلوج کر دیتی ہے۔ آپ بے بس ہوکر رہ جاتے ہیں…آپ کو دنگا فساد کرنے کی اجازت نہیں ہوتی…نجی اور سرکاری املاک کو آگ لگانے کی اجازت نہیں ہوتی…کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی…کسی کو لوٹنے اور ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں ہوتی…غلامی میں ایسا کچھ نہیں ہوتا جیسا عمل آپ آزادی کے دور میں کرتے ہیں…کتنے لوگ آزادی سے ایک دوسرے کو آزاد کراچی میں مار ڈالتے ہیں؟ غلام کراچی میں ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا…یہی بنیادی فرق ہے آزادی اور غلامی میں۔
دفتروں میں کچھ کرنے کیلئے لوگوں کے پاس کام کاج نہیں ہوتا تھا…اس لئے ان کو مضحکہ خیز کاموں میں لگا دیا جاتا تھا…آپ کو تعجب ہوگا کہ غلام کراچی میں سائیکلوں کی رجسٹریشن ہوتی تھی دکان سے نئی سائیکل خریدنے کے بعد آپ فوراً سڑکوں پر چلا نہیں سکتے تھے…میونسپل جاکر آپ کو اپنی سائیکل کی رجسٹریشن کرانی پڑتی تھی…آپ کو پیتل کے تکون پر لکھا ہوا نمبر ملتا تھا وہ نمبر آپ کو پچھلے مڈگارڈ پر لگانا لازمی تھا…ورنہ ٹریفک پولیس کے ہاتھوں آپ کا چالان ہوسکتا تھا…رات میں سائیکل چلانے کے لئے آپ کی سائیکل میں ڈائنومو سے جلنی والی بتی کا ہونا ضروری تھا…ورنہ آپ بغیر بتی کے رات میں سائیکل نہیں چلا سکتے تھے…سائیکل چلانے والے کو چوراہے کے بیچوں بیچ چبوترے پر کھڑے ہوئے سپاہی کے اشارے پر باقی ماندہ ٹریفک کے ساتھ رکھنا پڑتا تھا اور سپاہی کے اشارے پر چلنا پڑتا تھا…اس طرح کے کام صرف غلامانہ دور میں ہوتے ہیں…آج کے آزاد شہر کراچی میں موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں ٹریفک سگنل پر نہیں رکتیں۔
میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آزاد کراچی کے حکام کو قطعی خبر نہیں ہے کہ کراچی میں چلنے والی موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی تعداد کتنی ہے؟ اکثر گاڑیوں پر لگی ہوئی نمبر پلیٹیں جعلی ہیں یا اصلی ہیں؟
آزادی میں ان باتوں کی اہمیت نہیں ہوتی…ایک مصدقہ افواہ کے مطابق آزاد کراچی میں روزانہ پانچ سو پرانی گاڑیوں کی لین دین ہوتی ہے اور دو سو نئی گاڑیاں روڈ پر اترتی ہیں…راستے وہی، مگر ہر ماہ آٹھ سو نئی گاڑیاں روڈ پر آتی ہیں…میں نہیں جانتا کہ اس افواہ میں کتنا مبالغہ ہے…آزاد کراچی جانے، آزاد کراچی کے آزاد حکام جا نیں…ہم تو ٹھہرے غلام کراچی کے باسی۔
غلام کراچی کے راستے چونکہ غلام مزدوروں اور غلام انجینئروں نے بنائے تھے اس لئے بے انتہا مضبوط ہوتے تھے…اور پھر غلام کراچی میں گاڑیاں بھی تو گنتی کی تھیں…سائیکلوں کے علاوہ گدھا گاڑیاں بھی رجسٹرڈ ہوتی تھیں…ان کو نمبر پلیٹ ملتی تھی جو گاڑی پر آویزاں کرنا پڑتی تھی…اونٹ گاڑیاں بھی رجسٹرڈ ہوتی تھیں…دو پہیوں والے ٹانگے اور چار پہیوں والی بگیاں جن کو عام طور پر وکٹوریا گاڑی کہا جاتا تھا، وہ بھی رجسٹرڈ ہوتی تھیں…سامان لادنے والے ریڑھے بھی رجسٹرڈ ہوتے تھے…میں سمجھتا ہوں آدمی کو چھوڑ کر غلام کراچی کے روڈوں پر چلنے والی ہر شے رجسٹرڈ ہوتی تھی…ہر شے کا نمبر ہوتا تھا۔
ٹرام وے سسٹم غلام کراچی میں مواصلات کی شہ رگ ہوتا تھا…ٹرام کی پٹریاں جو کہ ریل گاڑی کی پٹریوں سے مشابہ تھیں، روڈ کی سطح تک روڈ میں دھنسی ہوئی ہوتی تھیں اور غلام شہر کراچی کے طول ارض میں پھیلی ہوئی تھیں…آپ ٹرام میں سوار ہوکر ایک آنے میں صدر جاسکتے تھے…کینٹ اسٹیشن جا سکتے تھے…بولٹن مارکیٹ جاسکتے تھے…گاندھی گارڈن جاسکتے تھے… چاکیواڑہ، لی مارکیٹ، جھونا مارکیٹ (جونا نہیں) اور کیماڑی جاسکتے تھے…ٹرام سسٹم چونکہ غلام کراچی کی نشانی تھا اس لئے آزاد کراچی میں اس کیلئے گنجائش نہیں تھی…ہم نے آزاد کراچی سے ٹرام کو اکھاڑ پھینکا…کراچی سے دگنی آبادی والے شہر کولکٹہ (کلکتا) میں ٹرام چل رہی ہے…ممبئی میں ٹرام چل رہی ہے…سان فرانسسکو میں ٹرام چل رہی ہے…بیشمار شہروں میں ٹرام چل رہی ہے…مگر ہم نے غلامانہ دور کی ایک یادگار سہولت کو اکھاڑ دیا۔
مجھے مورتیاں اور مجسمے اچھے لگتے ہیں…غلام کراچی کے چپے چپے پر مورتیاں اور مجسمے آویزاں ہوتے تھے…ان سب میں میوہ شاہ قبرستان کے قریب یہودیوں کے قبرستان میں قبروں کے سرہانے پریوں اور پروں والے ننھے منے بچوں کی سنگ مرمر سے بنی ہوئی مورتیاں مجھے اچھی لگتی تھیں…سب سے پہلے فریئر ہال کے باغ سے رانی وکٹوریا اور انصاف کی دیوی کو اکھاڑا گیا…اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آزاد کراچی سے فنکار کے شاہکار مجسمے غائب ہونا شروع ہوگئے… سندھ ہائی کورٹ اور سندھ سیکرٹریٹ کے درمیاں مہاتما گاندھی کا پیتل اور تانبے سے بنا ہوا مجسمہ ایک اونچے چبوترہ پر لگا ہوا ہوتا تھا…اس مجسمے کو بالکل اسی طرح گرایا گیا تھا جس طرح بغداد میں صدام حسین کا مجسمہ مسمار کیا گیا تھا۔



.
تازہ ترین