• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر حکومت تعلیم اور صحت کے لئے نعرہ ہائے مستانہ بلند کرتی ہے اور آج کل تعلیم اور صحت کی ترقی کے لئے اتنا راگ گایا جا رہا ہے کہ لوگ راگ پانامہ کو بھی بھول گئے ہیں اور راگ درباری گانے والے حکمرانوں کو یہ یقین دلا رہے ہیںکہ آپ جو منصوبے شروع کر رہے ہیں اس کے بعد پورے ملک کے عوام کی کایا ہی پلٹ جائے گی ۔عوام کی کایا کیا پلٹنی ہے البتہ حکمرانوں کی کایا ضرور پلٹ جاتی ہے ۔ہزاروں کا کاروبار کرنے والے کروڑوں اور اربوں اور کھربوں پر جا پہنچے ہیں یہ راگ درباری گانے والے حکمرانوں کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ آپ جو منصوبے شروع کر رہے ہیں اس کے ثمرات قیامت کے روز بھی آ رہے ہوں گے کبھی کسی حکمران نے سوچا کہ راگ درباری گانے والے ہر دور میں ہوتے ہیں اس سے پہلے کےتمام حکمرانوں کو انہی راگ درباریوں نے یقین دلایا تھا کہ آپ کے بغیر یہ ملک نہیں چل سکتا حالانکہ اس ملک کو صرف خدا کی ذات پاک چلا رہی ہے بقول حبیب جالب؎
تم سے پہلےوہ جو اک یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
اس دور کے تمام راگ درباری گانے والے اور راگ درباری سننے والے دونوں آج خاک میں پنہاں ہو چکے ہیں تمام ناگزیں زمین کے نیچے پناہ گزین ہو چکے ہیں ان کی ہڈیوں کا اب سرمہ بھی نہ رہا مگر آج بھی بعض لوگ کس اکڑسے کہتے ہیں کہ نیب کے چیئرمین کی اوقات کیا؟ راگ درباری گانے والوں کے ساتھ کچھ منشی بھی ہوتے ہیں جو ہر حکومت کے لئے خوبصورت نعرے لکھنے کا کام کرتے ہیں کچھ منشی اشعار بھی لکھ کر دیتے ہیں حالانکہ بعض اوقات اشعار پڑھنے والے اور لکھنے والے دونوں کو موقع محل کا پتہ نہیں چلتا کہ کونسا شعر کب اور کہاں پڑھنا ہے؟ مگر منشی اپنے کام میں لگے رہتے ہیں ہوا کچھ یوں دوستو کہ پچھلے ہفتے ایوان اقبال میں وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نےبچوں کوا سکول لانے پر ایک زوردار تقریب کر ڈالی یہ داخلہ مہم 2017ء کے سلسلے کی تقریب تھی بچوں کواسکولوں میں لانے کی اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ مختلف مہمات چلائی گئیںمثلاً ماضی میں ایک مہم آئی ایک کو پڑھائے ایک، پھر کہا کہ موسم گرما کی تعطیلات میں اسٹوڈنٹس ان پڑھ افراد کو پڑھائیں۔ پھر وٹو دور میں ورکشاپس اور کارخانوں میں کام کرنے والے بچوں کو زبردستی اسکول بھیجا گیا اور بچوں کو کارخانوں سے ملنے والی تنخواہ کے برابر سکالر شپ دیا گیا بعد میں وٹو کی حکومت ختم ہو گئی اور بچے رل گئے ۔
ہمارے ہاں ایسےاعلانات ہوتے ہیںکہ بس کچھ نہ پوچھئے لیکن ان تمام اقدامات کی مثال کچھ یوں کہ ہم جمبو جیٹ تو لے آتے ہیں لیکن جب اسے زمین پر اتارتے ہیں تو وہ کچا رن وے ہوتا ہے کچے رن وے پر جمبو جیٹ جب اترے گا تو کیا حشر جہاز کا ہو گا اور کیا زمین کا؟ ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ آپ نے کہا کہ الیکشن سے قبل ہر بچے کواسکول میں لانے کا ہدف پورا کریں گے ۔الیکشن کیوں ؟ کیا الیکشن کے بعد آپ اپنے ہدف پر کام نہیں کریں گے پھر کیسے ممکن ہے کہ لاکھوں بچوں کواسکولوں میں لاسکیں ؟
میاں صاحب برا ہرگز نہ منائیے گا کئی گھرانوں میں کوئی کمانے والا نہیں چھوٹے چھوٹے بچے رات کو ہر شہر کی سڑکوں پر بھیک مانگتے، گاڑیاں صاف کرتے نظر آتے ہیں وہ رات کو جب سو ، پچاس روپے لیکر نہیں جاتےان کے گھر کا چولہا نہیں جلتا آپ انہیںاسکول لانے کی بات کرتے ہیں ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ آپ کے ارادوں پر کسی کو شک نہیں ۔لیکن آپ کے پاس ٹیم میں کچھ ایسے لوگ ضرور ہیں جو زمینی حقائق سے کوسوں دور ہیں وہ جمبو جیٹ میں صرف ہوا میں سفر کر رہے ہیں اور کچے رن وے پر اتنے بڑے جہاز کو لینڈ کرانا اورٹیک آف کا پتہ نہیں کبھی آپ نے سوچا کہ آپ ہر ہفتے ایوان اقبال میں کبھی صحت اور کبھی تعلیم پر دھواں دار خطاب کرتے ہیں ان تقریبات پر کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں ؟ لاکھوں، کروڑوں روپے آپ نے بچوں کو اسکول لانے کی مہم پر خرچ کر ڈالے تو جناب والا اس رقم سے کئی پرائمری اسکولوں کی مرمت ہو سکتی تھی ۔
ایک طرف اسکولز این جی اوز کے حوالے کر رہے ہیں اب تک آپ نے پانچ ہزاراسکولز این جی اوز کو دے دیئے اور حکومت ان این جی اوز کو فی بچہ ساڑھے پانچ سو سے ساڑھے سات سو روپے بھی دے رہی ہے تو پھر حکومت کیوں اسکولوں میں داخلہ مہم چلا رہی ہے ؟اب ان این جی اوز کا کام ہے کہ وہ بچوں کو اسکولوں میں لائیں۔ پھر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جو اسکولز این جی اوز کے حوالے کئے ہیں ان میں بچوں کی حاضری ڈبل ہوگئی ہے۔ جب بچوں کی حاضری وہاں ڈبل ہوگئی ہے تو پھر حکومت کو سرکاری اسکولوں میں بچوں کو لانے کے لئے کوئی مہم چلانے کی ضرورت نہیں، آپ شہر کی سڑکوں پر فلیکس، پوسٹرز اور بینرز لگواتے ہیں کروڑوں روپے ان پر خرچ ہو رہے ہیں۔ پی ایچ اے والے تقریب کے بعد فلیکس کو اتارکر لے جاتے ہیں۔ اس کا کیا حساب کتاب ہوتا ہے کسی کو خبر نہیں۔ کسی دن یہ گھپلا بھی سامنے آ جائے گا۔ پھر جو اسکولز این جی اوز کو دیئے جا رہے ہیں ان کے اساتذہ اب حکومت پر بوجھ نہیں؟ان اساتذہ کو اگر ریٹائرڈ کر دیا جاتا ہے یا انہیں فارغ کر دیا جاتا ہے تو یہ بھی زیادتی ہوگی کیونکہ معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ اسکول ماسٹر ہوتا ہے۔ کبھی کسی حکومت نے اسکول ماسٹروں کے مالی حالات بہتر بنانے کی کوشش کی؟ کبھی کسی نے پوچھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اسکول ماسٹرز کس حال میں زندگی کے دن پورے کرتے ہیں؟ آپ کہتے ہیں کہ امیر اور غریب کا فرق مٹا دیں گے۔کیسے مٹا دیں گے۔ یا غریبوں کو مٹا دیں یا پھر امیروں کو غریب کردیں۔ دونوں باتیں ممکن نہیں۔ تو پھر خدارا ایسے بیانات نہ دیں جو صرف غریبوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ 70برس میں ہم ایچی سن کالج اور سرکاری اسکول کا فرق تو مٹا نہ سکے، نہ مزید ایچی سن کالجز بنا سکے اور نہ ایچی سن کے دروازے غریبوں کے لئے کھول سکے۔ حکومت نے قوم کا سرمایہ بے شک اسپتالوں اور تعلیمی اداروں پر لگایا مگر درست انداز میں نہیں۔
ہر ہفتے ایوان اقبال میںتقریب سے تمام ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے جبکہ اس ایوان اقبال سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر تین کالجز اور دواسکولز ہیںجہاں سے پندرہ ہزار کے قریب بچے اور بچیوں نے اپنے گھروں کو جانا ہوتا ہے۔ آپ خدا کے لئے کوئی اور جگہ کا انتخاب کرلیں۔ اسٹاک ایکسچینج والوں کا کاروبار اور اردگرد کے تمام کاروباری مراکز کا کام متاثر ہوتا ہے۔ چلتے چلتے یہ بھی عرض کریں گے ،آپ اتنی زیادہ میٹنگیں لیتے ہیں کہ کوئی سیکرٹری اپنے آفس میں نہیں ملتا۔ اور چلتے چلتے ہی عرض کردیں کہ آپ کے اردگرد وہ ڈاکٹرز جو ماں کے دودھ کے حق میں نہیں ان سے عرض ہے کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں صرف ماں کا دودھ ہی بچے کو ہر بیماری سے بچا سکتا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ سیکرٹری پرائمری ہیلتھ علی جان خاں مدر فیڈ کے حوالے سے پورے پنجاب میں زور دار پروگرام کر رہے ہیں اور ڈبے کے دودھ کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔



.
تازہ ترین