• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ ہمارے لئے معمول کی بات ہو گئی ہے۔ اتنے آدمی فلاں حادثے میں مارے گئے اور اتنے آدمی فلاں شخص نے مار ڈالے۔ ہم ٹی وی پر خبر سنتے ہیں، اخبار میں یہ خبر پڑھتے ہیں۔ تھوڑی دیر افسوس کرتے ہیں اور پھر اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ اور اس وقت تک ہم فراموشی کے عالم میں رہتے ہیں جب تک ایسا ہی کوئی اور سانحہ نہیں ہو جاتا۔ یہ ہماری عادت بن گئی ہے۔ اسے آپ عادت ثانیہ کہہ سکتے ہیں۔ روز روز کے ان حادثوں نے جیسے ہماری کھال موٹی کر دی ہے۔ ہم کسی بھی ایسے حادثے یا واقعے کو اپنا حادثہ یا اپنا واقعہ نہیں سمجھتے۔ اور ہماری حکومت نے یہ عادت بنا لی ہے کہ جونہی ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے اس کی طرف سے فوراً مرنے والوں اور زخمی ہونے والوں کے لئے مالی امداد کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ گویا انسانی جانوں کی قیمت چند لاکھ روپے ہیں۔ اس طرح ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داری سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ ریل گاڑی کا حادثہ ہو، بس کا حادثہ ہو یا کسی فرد کے ہاتھوں دس بیس انسانوں کا قتل ہو، ہمارے لئے ایک ہی بات ہے۔ سنیچر کی شام سرگودھا کے قریب ایک مزار پر جو ہوا وہ ہمارے لئے ایسا ہی روزمرہ کا ایک واقعہ ہے۔ مزار کے متولی نے اپنے مریدوں کو نشہ پلایا اور ایک ایک کو اپنے حجرے میں بلا کر لاٹھیوں، ڈنڈوں اور چھریوں سے قتل کر دیا۔ پولیس نے متولی اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا۔ اور ہمارے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے فوراً مالی امداد کا اعلان کر دیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ ہمارے اوقاف کے وزیر نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لی کہ وہ مزار اوقاف کی تحویل میں نہیں تھا۔ یعنی اگر کوئی مزار یا کوئی ایسی جگہ جو حکومت کے کسی ادارے کی تحویل میں نہ ہو وہاں کچھ بھی ہوتا رہے، حکومت اس کی ذمہ دار نہیں ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ اس مزار پر نشہ والی چیزیں فروخت ہوتی تھیں اور وہاں آنے والے عام طور پر نشہ کیا کرتے تھے۔ اس کا ثبوت ٹی وی پر دکھایا جا نے والا وہ شخص بھی ہے جسے دو پولیس والے پکڑ کر لئے جا رہے ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ نشے میں دھت ہے۔ اب ہماری حکومت اس علاقے کی پولیس سے نہیں پوچھے گی کہ تمہاری نظروں کے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا تھا اور تم کچھ نہیں کر رہے تھے؟ اس کے نزدیک تو پولیس نے قاتل کو پکڑ لیا، بس یہی کافی ہے۔ اب یہ کہتے ہو ئے ڈر لگتا ہے کہ ایسے مقامات پر یہی کچھ ہوتا ہے اور ہماری پولیس کی ناک کے نیچے ہوتا ہے۔ اور ہماری حکومت آنکھیں بند کئے رہتی ہے۔
اب رہے پیر صاحب۔ اپنی جان بچانے کے لئے آپ انہیں جعلی پیر کہہ لیجئے.... تو جو کچھ انہوں نے کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس شخص کی طرح جس نے سینکڑوں لڑکوں کو تیزاب میں ڈال کر ہلاک کیا تھا، نفسیاتی مریض ہیں۔ اس طرح کا بہیمانہ فعل کوئی سادیت پسند نفسیاتی مریض ہی کر سکتا ہے۔ تو کیا اس شخص پر قتل کا مقدمہ چلانے سے پہلے اس کا نفسیاتی تجزیہ کرایا جائے گا؟ مہذب دنیا میں تو ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ قتل کی سزا بعد میں، پہلے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ اس شخص نے اتنا گھنائونا اور ایسا انسانیت سوز کام کیوں کیا؟ اسے اپنے ہاتھوں جیتے جاگتے انسانوں کو قتل کرنے میں کیا سکون ملا؟ اور کیا اس سے پہلے بھی وہ یہ کام کرتا رہا ہے؟ بیس آدمیوں کا قتل کوئی معمولی واقعہ یا سانحہ نہیں ہے۔ کسی اور ملک میں یہ ہوتا تو تمام ٹی وی چینلز اور اخباری رپورٹر صرف اسی کے پیچھے لگ جاتے۔ اس واقعے کے ایک ایک پہلو کا جائزہ لیا جاتا۔ بچپن سے لے کر اب تک اس متولی کی زندگی کا ہر ہر پہلو کھنگالا جاتا۔ مزار پر آنے والے ایک ایک شخص کا انٹرویو کیا جاتا اور ہم سب کو بھی بتایا جاتا۔ ہمیں یہ بھی بتایا جاتا کہ یہ کس بزرگ کا مزار ہے۔ اور اس کی تعمیر کب شروع ہوئی۔ زعیم قادری اگر یہ کہتے ہیں کہ یہ مزار اوقاف کی تحویل میں نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تعمیر کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ لیکن... یہ مہذب ملکوں کی باتیں ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ ہوا کہ چند گھنٹے بعد ہی اس وحشیانہ واقعے کی خبر ٹی وی چینلز کی اصل خبروں کے بجائے ان کے ’’ٹکرز‘‘ میں چلی گئی۔ اور عمران خاں کے جلسے نے تمام ٹی وی چینلز کو اپنی گرفت میں لے لیا اور ہر چینل اس ہولناک سانحے کو بھول کر عمران خاں کی تقریر دکھانے لگا۔ وہ تقریر جو ہر جلسے میں کی جاتی ہے اور جسے سن سن کر اس کا ہر ایک لفظ ہمیں ازبر ہو گیا ہے۔ بلاشبہ عمران خاں کا جلسہ ضرور دکھانا چاہئے۔ جس جلسے میں اتنے زیادہ لو گ موجود ہوں اسے دکھانا لازمی ہے ،لیکن اتنی جلدی اس وحشیانہ واقعے کو نظر انداز کر دینا ہماری بے حسی کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے؟
اب تو واقعی ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا کہ کہیں ہم ’’مرگ انبوہ جشنے دارد‘‘ والی کیفیت کا شکار تو نہیں ہو گئے ہیں؟ کیا ہمارے اوپر مشکلیں اتنی پڑی ہیں کہ آسان ہو گئی ہیں؟ ہم انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کٹتے دیکھتے ہیں اور سکون کا سانس لیتے ہیں کہ چلو ہمیں تو کچھ نہیں ہوا؟ ہم بچ گئے۔ کیا یہ نفسیاتی بیماری نہیں ہے؟ اور کیا یہ اجتماعی نفسیاتی بیماری ہمیں کہیں اور تو نہیں لئے جا رہی ہے؟ ہماری معتبر شاعر یاسمین حمید کہتی ہیں
مجھ کو معلوم نہ تھا دھوپ پڑے گی اتنی
سر پہ جب پہنچے گا سورج تو ٹھہر جا ئے گا
جی ہاں، سورج اپنی پوری تمازت کے ساتھ ہمارے سر پر ٹھہر گیا ہے اور ہم چلچلاتی دھوپ میں ننگے سر کھڑے ہیں۔




.
تازہ ترین