• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما کیس میں آنے والا فیصلہ ابھی نہیں سنایا گیا عدالت عظمیٰ کی خاموشی سے اس کیس کے تمام ہی فریق تذبذب کا شکار ہیں جانے کیا فیصلہ ہو ، ایک خوف، ڈر اور کچھ لوگ دہشت زدگی کا شکار ہیں کچھ لوگ یا شاید حکمران وقت بھی ہولِ دل کا شکار ہیں شاید اسی سبب انہوں نے اس سال ہندو برادری کے تہوار ہولی میں بھی شرکت کی ۔
گزشتہ دنوں میاں صاحب ہولی کی تقریب جو خالصتاً ہندوانہ تقریب تھی میں شرکت کے لئے خصوصی طور پر کراچی تشریف لائے اور بڑے پر جوش انداز میں تقریب میں گھل مل گئے اور اپنی طرف سے انہوں نے ہندو برادری کے ساتھ یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے جس طرح نظریہ پاکستان کو پامال کیا وہ حیرت ناک ہی کہا جاسکتا ہے ۔انہوں نےد دو قومی نظریہ کو جس طرح پامال کیا اس کا کیا جواز ہے انہوں نے اس تقریب میں غیرشعوری طور پر اکھنڈ بھارت کی حمایت کر ڈالی وہ اس بات کو قطعی بھول گئے کہ دو قومی نظریہ جس کی وجہ سے ہی پاکستان کا قیام ممکن ہوا وہ نظریاتی حدود کے باعث ہی وجود میں آیا تھا برصغیر میں رہتی بستی مختلف قوموں میں دو بڑی قومیں ایک ہندو اور دوسرے مسلمان تھے اس نظریہ کی تکمیل کے لئے ہی اٹھارہ بیس لاکھ مسلمانوں نے اپنی جان و مال کی قربانی دی اگر یہ دو قومی نظریہ ہی نہ رہے تو پھر قیام پاکستان کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی ہے پھر تو اکھنڈ بھارت ہی رہ جاتا ہے پھر سوال پیدا ہوتا ہے کیا وہ لوگ جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت اپنی جان و مال کی قربانی دی بے وقوف تھے پاگل تھے کہ اپنے آبائی جدی پشتی علاقوں میں گھروں میں رہتے بستے انہوں نے کیوں جدوجہد پاکستان میں حصہ لینے کے لئے اپنے سر دھڑ کی بازی لگائی جو بچ کر اس پاک سر زمین تک پہنچے وہ کن مشکلوں کن حادثات کس عذاب سے گزر کر خون کا دریا پار کر کے اس پاک سر زمین تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکے تھے کیا انہیں کسی پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ اپنے محل محلے اپنی جاگیریں حویلیاں کوٹھے ہنستے بستے گھرانے اجداد کی قبریں یونہی چھوڑ چھاڑ کر خون کے بہتے دریا میں اتر گئے تھے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے پاکستان کی طرف ہجرت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے انہیں دو قومی نظریے نے ہی متاثر کیا تھا ورنہ پیچھے رہ جانے والے بھی بہت تھے جو آج بھی بھارت میں رہ رہے ہیں بس رہ رہے ہیں اپنی زمین اپنا گھر چھوڑ کر آنے والوں کو کوئی ایسی مجبوری نہیں تھی کہ وہ اپنی جان و مال یوں قربان کرتے اپنی بیٹیوں، بیویوں، مائوں کی عزتیں یوں پامال کراتے وہ خوب سوچ سمجھ کر اس آگ کے دریا میں اترے تھے جناب ہمارے حکمرانوںنے ایک ہی جھٹکے میں ان تمام قربانیوں پر پانی پھیر دیا ۔اگروزیراعظم صاحب آپ کی یہ تقریر آپ کے کسی تقریر نویس کی لکھی ہوئی تھی تو بھی پڑھی تو آپ نے ہی ہے آپ کو چاہیے کہ تحقیق کریں کہ تقریر نویس نے کیونکر یہ جرأت کی کہ نظریہ پاکستان کو ہی ڈبو دیا کون جانے کل کیا ہو آپ نے تو بر سر اقتدار رہتے ہوئے بھارتی افکار و خیالات کی ترجمانی کردی ہے ، مسلمان بھارت میں اقلیت کے طور پر رہتے ہوئے ہندو قوم کے نشانے پر رہتے ہیں ان کے ظلم و ستم کا شکار رہتے ہیں پاکستان میں ایسا ہر گز نہیں ہے ہندو اور دیگر تمام اقلیتوں کو ہر قسم کے شہری حقوق ملے ہوئے ہیں جن کی ضمانت پاکستان کا آئین دے رہا ہے ہندو کیا عیسائی یا دیگر اقلیتوں کو ہر قسم کی مذہبی معاشرتی اقتصادی آزادی حاصل ہے جبکہ بھارت میں مسلمان ایک قیدی اقلیت کے طور پر رہتے بستے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں جب ہندو انتہا پسندوں کا دل چاہتا ہے بلا وجہ بلا جواز ہی مسلمانوں کیخلاف ہنگامہ آرائی شروع کردیتے ہیں ان کا قتل عام تو معمول بن کر رہ گیا ہے مسلمانوں کے اکثریت والے علاقوں میں بھی ہندو انتہا پسندوں کی زور آوری قائم ہے اگر کبھی کسی مسلمان نے سر اٹھانے کی کوشش بھی کی تو اسکی سزا پوری پوری بستی پورے پورے علاقوں کو دی جاتی ہے۔
وزیراعظم صاحب کیا آپ کو کشمیر میں ہونے والے مسلمانوں پر مظالم نظر نہیں آرہے کیا وہاں مسلمان مسلمانوں کو مار کاٹ رہے ہیں کیا وہ پاکستان سے الحاق کے پاگل پن میں یوں ہی مبتلا ہیں کیا بھارتی ہندو سرکار کشمیریوں کے ساتھ آپ کی طرح محبت و رواداری کا سلوک کر رہی ہے کشمیر کے علاوہ بھی بہت بڑے علاقے پر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے انتہا پسند حکمران قابض ہیں جو اپنی من مانی کرتے رہتے ہیں۔حکمران بھارت کو امن و دوستی کا کون سا پیغام دے رہے ہیں ہولی کا تہوار خالص ہندو تہوار ہے اول تو مسلم ملک کے سربراہ کی حیثیت سے ایسی تمام تقریبات سے دور رہنا چاہیے کیونکہ یہ اسلام اور اسلامی اقدار کے قطعی منافی ہے آپ انہیں اس تہوار پر مبارک باد ضروردے سکتے تھے۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں پاکستان جس کا اللہ نے ان کو حکمران بنایا ہے ایک نظریاتی اسلامی مملکت ہے، اس کی بنیاد اور اس کی شناخت ہی اسلام ہے اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس عظیم مملکت جس کی بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں کا خون ہے عظیم مملکت کے حکمران ہونے کی حیثیت سے ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کل روز محشر آپ اپنے رب کو جس نے آپ کو اس عظیم عزت سے نوازا ہے کیا جواب دیں گے کس طرح سرخرو ہوں گے وہاں نہ آپ کا کوئی ساتھی کام آئے گا نہ آپ کا مال و متاع کسی طرح کام آئے گا آپ کا نامہ اعمال آپ کے ہاتھ میں ہوگا اور آپ رب کے سامنے کس طرح جواب دہی کرسکیں گے اللہ آپ کی ہمارے تمام اہل وطن کی حفاظت فرمائے اور پاکستان کو تا ابد قائم و دائم رکھے اس کی ہر طرح سے حفاظت کرے، آمین۔



.
تازہ ترین