• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان پاکستان کا برادر ہمسایہ اسلامی ملک اور دونوں ممالک ایک طویل مشترکہ بارڈر اور دین و ثقافت کے لازوال رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ تاہم افسوس کی بات ہے کہ افغان سیاست کے کئی ادوار میں وہاں کے حکمرانوں نےاپنوں کے بجائے غیروں سے امیدیں وابستہ کیں اورپاکستان کے ساتھ باہمی کشش کی بجائے کشمکش کی فضا کو پروان چڑھایا۔ پاکستان نے مشکل کی ہر گھڑی میں نہ صرف افغان بھائیوں کا کھل کر ساتھ دیا بلکہ جب جنگ کی ہولناکیوں سے بچنے کیلئے لاکھوں افغان ہماری سرحدوں پر آئے تو پاکستان نے ان کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کردیئے۔ پھر بھی پاک افغان کشیدگی خطرے کے نشانات کو چھونے لگی۔ اس پس منظر میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لندن میں سینئر برطانوی و امریکی سیاسی و عسکری قائدین سے ملاقاتوں کے بعد کہا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام دونوں ممالک کامشترکہ مفاد ہے، ہم افغانستان میں حصول امن کیلئے اس سے مل کر کام کرنے کوتیار ہیں۔ جنرل باجوہ سے قبل گزشتہ ماہ وزیراعظم کے مشیر برائے امورخارجہ سرتاج عزیز نے لندن جا کر وہاں کے حکام اور افغان قومی سلامتی کے مشیر حینف اتمار سے ملاقاتیں کیں۔ جن کے بعد یہ سمجھا جارہا تھا کہ برف بڑی حد تک پگھل چکی ہے،تعلقات میں پیش رفت ہوئی ہے اور دوطرفہ مسائل و معاملات کے حل کیلئے گفت و شنید اور افہام و تفہیم کا ایک میکنزم تشکیل پاچکا ہے۔ اگرچہ افغانستان میں امریکہ سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہے تاہم امریکی صدر داخلی معاملات پر زیادہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اسی لئے اہم عالمی معاملات میں ابھی تک ان کا کوئی قائدانہ کردار سامنے نہیں آیا البتہ پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے اور علاقے میں قیام امن کیلئے برطانیہ کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ باہمی اعتماد کو مزید مستحکم کرے اور کھلے دل و دماغ کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ، سرحد پار دہشت گردی، اسمگلنگ وغیرہ جیسے معاملات کو باہمی مشاورت سے حل کرے، افغانستان میں قیام امن کو یقینی بنائے اور سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔

.
تازہ ترین