• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسٹیبلشمنٹ کے قومی معاملات میں کردارکو میڈیا کی چکاچوند تشہیر سے دور، مکمل خاموشی کے ساتھ ، تبدیل کیا جارہا ہے ۔ پیچیدہ معاملات سے لے کر سادہ پیشہ ورانہ امو ر تک، ہر معاملے میں اس تبدیلی کے آثار نمایاں ہورہے ہیںاورچند ماہ پہلے عہدہ سنبھالنے والے جنرل قمر باجوہ کی ٹیم نے سابق ادوار میں سامنے آنے والی خرابیوں کو درست کرنے کا کام شروع کردیا ہے ۔ ان خرابیوں کی وجہ سے نہ صرف فوج کے وسائل ، بلکہ وقت بھی ضائع ہوااور مطلوبہ نتائج بھی برآمد نہ ہوئے ۔
ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت پر رہائی سے زیادہ شاید ہی کسی اور پیش رفت سے اس نکتے کی وضاحت ہوتی ہو۔ فوج کی موجود ہ ہائی کمان کا اس سے کوئی تعلق نہیں، اوریہی حقیقی تبدیلی ہے ۔ پیغام واضح ہے ، ہم سیاسی معاملات درست کرنے نہیں آئے ، اور نہ ہی ہم یہ ذمہ داری اٹھائیں گے ۔ ڈاکٹر عاصم کی ضمانت پر رہائی مکمل طور پر قانونی طریق ِ کار کے مطابق ، اس شرط پر ہوئی ہے کہ وہ خود پر لگنے والے الزامات کا سامنا کرنے کے لئے وطن میں موجود رہیں گے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کے قریبی رفیق، ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پی پی پی پر مائنس ون فارمولہ استعمال کرنے کی کوشش تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی حراست اور پوچھ گچھ زرداری اور سابق ہائی کمان کے درمیان تنائو کی وجہ تھی ۔ اسی تنائو کے دبائو کے سامنے ہی اُنھوںنے سابق کمان کے خلاف احمقانہ حد تک دھمکی آمیز بیانات دئیے تھے ۔میڈیا کا فوکس رکھنے کی وجہ سے آصف زرداری ایک ایسے امیدوارتھے جو یہ باور کراسکتے تھے کہ ریاستی ادارے ملک کو تبدیل کرنے کا عظیم منصوبہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم اُن کے قریبی معاون تھے ، اورمحترمہ کے بعد پی پی پی آصف زرداری کے مکمل کنٹرول میں تھی۔ خیال تھا کہ عاصم حسین پر ہاتھ ڈالنے کا مطلب زرداری کو گھیرنا ہوگا۔ چنانچہ اس طرح قومی سیاست کو کنٹرول میںلایا جاسکتا تھا۔
چنانچہ ڈاکٹر عاصم کا دوسال پر محیط تکلیف اور توہین کا دور شروع ہوا۔ پہلے تو اُنہیں دہشت گردی اور بدعنوانی کی سرگرمیوں کا اہم مہرہ قرار دیا گیا۔ کئی ماہ تک یہ الزام میڈیا کے پنڈتوں کے ورد ِزبان رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اس شخص کے ظالم ہاتھوں نے معصوم انسانیت کا دامن تار تار کردیا تھا۔ بعض کو حیرت تھی کہ اس پاک سرزمین پر اتنا گھنائونا کردار کا شخص بھی موجود تھا؟الزامات کا ایک دریا تھا جو بہتا چلا آرہا تھا، لیکن پھر ہفتوں پر ہفتے گزرتے چلے گئے ، مہینے ، اور سال بیت گئے لیکن قانون کی عدالتوں میں کوئی شہادت پیش نہ کی گئی، کچھ بھی ثابت نہ ہوا۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے کا آغا زہوا۔ بدعنوانی کے کیسز کے سرخیل، 462بلین روپوں کی ہوشربا بدعنوانی کا کیس اُن کے سر پر ڈال دیا گیا۔ اس دوران میڈیا میں کردار کشی کی تلوار بے نیام رہی ۔ ہمارے ہر منفی مقاصد حاصل کرنے کے لئے یہ تلوار تیر بہدف ثابت ہوتی ہے ۔
اعلیٰ ترین سطح پر ہونے والی میٹنگز میں یہ بات کی جانے لگی کہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں ہے، چنانچہ اُنہیں مزید تفتیش کے لئے نیب کے حوالے کردیا گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا، وہی کہانی بار بار دہرائی گئی، بنیادی طور پر ہوا کچھ بھی نہیں تھا، اور آخر کار ڈاکٹر عاصم حسین لیگل سسٹم کے لئے ایک ڈرائونا خواب بن گئے ۔ اُن کے خلاف نہ تو کچھ ثابت ہورہا تھا اور نہ ہی اُنہیں رہا کیا جاسکتا تھاکیونکہ ایسا کرنے سے اُن اہم افراد کو شرمندگی ہوتی جنہیں یقین تھا کہ یہ شخص ایک عادی مجرم اور مجرموں کا معاون ہے ۔ اس اثنا میں ایان علی کا سائیڈ شو بھی کسی لوکل عدالت میں جاری رہا۔ اس التباسی ریمپ پر میڈیا بھی اُس کے ہم قدم تھا۔ کبھی وہ عدالت میں ہے تو اگلے ہی لمحے ضمانت، پھر حراست، پھر ائیرپورٹ۔مجال ہے جو میڈیا نے سکون کا سانس لیا ہو۔ دراصل ایان علی کے ذریعے بھی زرداری صاحب کو دبائو میں لانے کی کوشش کی گئی تھی تاکہ پس ِ پردہ کوئی ڈیل کی جاسکے ۔ لیکن وہ کیس بھی ڈاکٹر عاصم حسین کا چربہ ثابت ہوا۔ تشہیر کی دنیا کی ایک ماڈل کویہ میڈیا فوکس راس آیا ہواگا، لیکن ریاستی اداروں کے لئے اُس کے ساتھ یہ کھلواڑ یقینا مناسب نہیں تھا۔ زرداری صاحب کی سیاسی گردن زنی کے لئے ایک ڈاکٹر عاصم حسین کو ایک تیغ سمجھا گیا تو ایان علی ایک خنجر تھی، لیکن ایک مرتبہ پھر وار چوک گیا۔ زرداری کیمپ میں وقتی طور پر پریشانی ضرورآئی ، اور سابق صدر کو وطن چھوڑ کر جانا پڑا۔ اُن کے دست ِراست ، جن میں آدمی بھی تھے اور خواتین بھی، نے بھی ایسا ہی کیا۔
اس دوران بلاول بھٹو نے بھی شہرت اور عظمت کا پرچم بلند کرنے کی کوشش کی ، لیکن اس کا دورانیہ بہت مختصر تھا۔ کچھ طاقتور حلقوں کے چہروں پر طمانیت کھلنے لگی کہ وہ پی پی پی میںجنریشن گیپ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ ایک کامیاب کوشش دکھائی دیتی تھی۔ کچھ نے زرداری کے سیاسی عہدکے اختتام کی خبریں بریک کرنا شروع کردیں۔ لیکن ان پریشان کن لمحات میں باس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ عاصم حسین اور ایان علی کے کیسز کو منطقی انجام تک کیسے پہنچائیں؟ کیا اُنہیں ایک بار پھر عدالت میں لے جایا جائے ؟باس کے پاس حقیقی پلاننگ کا فقدان دکھائی دیا، لیکن تشہیر اور مقبولیت کے زینے سے اترنا آسان نہیں ہوتا۔
اس کے فوجی قیادت کی تبدیلی اور تمام احمقانہ منصوبے اپنی موت مرنے لگے ۔ نئی قیادت کو ایان علی یا عاصم حسین کیس یا زرداری کو نیچا دکھانے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ چنانچہ دونوں بیک وقت ہی اپنے انجام کو پہنچے ۔ اپوزیشن کے لئے سیاسی طور پر آسان تھا کہ وہ چوہدری نثار علی خان (جن پر کچھ دیگر معاملات میں تنقید کی جاسکتی ہے )اور موجودہ حکومت کے ساتھ ایک ڈیل کرکے زرداری صاحب کے لئے اسپیس حاصل کرلیں جو اس سے پہلے ممکن دکھائی نہیں دیتی تھی ۔ درحقیقت ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی ایک اہم پیش رفت تھی ، جسے بعض حلقوں نے ’’مک مکا‘‘ کا نام بھی دیا۔ کہا گیا کہ پاناما کیس کے فیصلے کے قریب پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے درمیان ڈیل ہوگئی ہے ۔
آج جب کہ معاملات سدھار کی طرف چل نکلے ہیں، آصف علی زرداری نہ صرف واپس آگئے ہیں بلکہ ان کے ہاتھ مزید مضبوط دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ وہ سیاسی بصیرت اور دانش میں سب پر بھاری ، اور ڈیل کرنے کے ماہر ہیں، بلکہ اس لئے کہ اُن کی ایک سیاسی جماعت ہے اور یہ جماعت ووٹ بنک رکھتی ہے ۔ یہ ووٹ کم ہیں یا زیادہ، یہ ایک الگ ایشو ہے ، لیکن اُنہیں عوامی حمایت تو حاصل ہے ۔ یہ جماعت سندھ میں گہری جڑیں رکھنے کے علاوہ ملک کے تمام حصوں میں اپنی موجودگی رکھتی ہے، اور یہ کہیں سے بھی الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے رہنما ئوں(اچھے ہیں یا برے) کو آپ بیک جنبش ِ قلم نظر انداز نہیں کرسکتے ، حالانکہ اُن میں سے بہت سوں نے ڈاکٹر عاصم حسین کیس کے دوران احمقانہ بیانات دینا جاری رکھا، لیکن اُن کی قومی سیاست میں موجودگی ایک حقیقت ہے ، اور حقیقت سے صرف ِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔
یہ سسٹم طویل اور مسلسل سیاسی عمل سے ہی صاف ہوگا۔ اس کے لئے جراحت کی نہیں، مرہم کی ضرورت ہے ۔اس کے علاوہ کوئی اور کوشش کام نہیں دے گی۔زرداری کو سیاسی طورپر راستے سے ہٹانے کی کوشش تمام ہوئی۔ اب وہ واپس آچکے ہیں۔ کرکٹ کے کھلاڑی کو کبڈی میں ہرانے کی منصوبہ بندی کرنا درست نہ تھا۔



.
تازہ ترین