• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے انہوں نے افغانستان کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ البتہ شام اور عراق میں امریکی مداخلت بڑھ گئی ہے۔ صدر اوباماکے زمانے میں امریکی پالیسی یہ تھی کہ ہر طرح سے یقین کر لینا چاہئے کہ کسی فضائی یا زمینی حملے میں سویلین کی اموات کم سے کم ہوں۔ اسی لئے ہر حملے کی منظوری چھان بین کے بعد وائٹ ہاؤس سے دی جاتی تھی۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اختیار علاقہ کمانڈروں کے حوالے کر دیا ہے چنانچہ اب احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فضائی حملے کئے جا رہے ہیں جن میں سویلین کی اموات حد سے بڑھ چکی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جلد از جلد داعش کو شکست دینے کی کوشش میں سویلین اموات کو در خور اعتنا نہیں سمجھ رہے۔ اس طرح کی پالیسی سے ہوسکتا ہے کہ داعش کے نقصانات بڑھ جائیں لیکن امریکہ دشمن جذبات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔ کیا آخرکار امریکہ افغانستان میں بھی یہی پالیسی اختیار کرے گااور اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کرکے اور فضائی حملے بڑھا کر طالبان کو سرنگوں کرنے کی کوشش کرے گا؟
واشنگٹن کے سفارتی حلقوں میں جو کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے اس سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکیوں کا طالبان کے بارے میں نقطہ نظر داعش سے مختلف ہے۔ امریکی سمجھتے ہیں کہ ان کی طالبان سے براہ راست کوئی جنگ نہیں تھی: طالبان کے ساتھ تضاد کی اصل وجہ القاعدہ تھی جو کہ امریکی سر زمین پر حملے کرنا چاہتی تھی۔ طالبان پر الزام تھا کہ انہوں نے القاعدہ کو پناہ دے رکھی ہے۔ چنانچہ اب جب القاعدہ زوال پذیر ہو چکی ہے اور اصل دشمنی داعش کے ساتھ ہے تو طالبان سے جنگ کی کوئی بنیادی وجہ نہیں ہے۔ اس پس منظر میں مختلف امریکی دانش ور اور تبصرہ نگار طالبان کے ساتھ صلح جوئی کی تجویز دے رہے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو امریکیوں کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کہ طالبان افغانستان میں کس طرح کا نظام حکومت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ مشرق وسطی میں واشنگٹن کا سب سے بڑا اتحادی (اسرائیل کے بعد) ایک برادر عرب ملک ہے جس کی حکومت قدامت پرستی میں بہت سخت گیر ہے۔ امریکہ نے ماضی میں بھی انتہائی قدامت پسند ڈکٹیٹروں کا ساتھ دیا ہے۔ اس لئے طالبان کی قدامت پرست پالیسیوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ’سب سے پہلے امریکہ‘ کی پالیسی کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ اگر طالبان امریکی سر زمین پر حملے نہیں کرتے تو پھر ان سے جنگ کا کیا جواز ہے؟ لیکن امریکہ کابل میں صدر اشرف غنی کی حکومت کا بھی تحفظ چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ طالبان اور غنی حکومت کے درمیان کسی طرح سے معاملات طے پا جائیں جو کہ طالبان کو بظاہر قابل قبول نہیں ہے:طالبان کا مطالبہ ہے کہ پہلے بیرونی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں اور پھر کسی طرح کے بامعنی مذاکرات طے پا سکتے ہیں۔
امریکہ کا علاقائی اتحادی ہندوستان بھی چاہتا ہے کہ کسی طرح کابل حکومت کا تحفظ کیا جا سکے۔ ہندوستان نے افغانستان میں کافی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور کابل حکومت پاک ہند تنازع میں ہندوستان کی حمایت کرتی ہے۔ پاکستان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے طالبان کے ساتھ افہام و تفہیم سے کام لینا پڑتا ہے۔ اگرچہ امریکی پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی پر مستقل معترض رہتے ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی قائم رکھتے ہیں کیونکہ امریکیوں کو علم ہے کہ اس علاقے میں پاکستان کے تعاون کے بغیر معاملات طے نہیں ہو سکتے۔ اب جبکہ امریکہ بیرونی امداد میں بہت زیادہ کمی کر رہا ہے تو وہ پاکستان کو بھی کسی طرح کی امداد دینے کے قابل نہیں ہوگا جس کے نتیجے میں پاکستان پر اس کا دباؤ مزید بے اثر ہوگا۔ اس لئے افغانستان میں پراکسی جنگ جاری رہے گی۔
افغانستان کی زمینی صورت حال بھی امریکیوں کے لئے حوصلہ افزا نہیں ہے۔ خود امریکہ کے انسپکٹرجنرل کے مطابق پچھلے سال میں طالبان نے مزید علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور کابل حکومت کے زیر اثر علاقوں میں کمی آئی ہے۔ یہ حقیقت تقریباً واضح ہو چکی ہے کہ کابل حکومت امریکی فوجی امداد کے بغیر زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر امریکی فوج کی موجودگی موجودہ سطح پر ہی قائم رہتی ہے تو طالبان کی پیش قدمی کو روکا نہیں جا سکتا۔ اور اگر امریکہ اپنی فوجوں کی موجودگی بڑھا کر وقتی طور پر طالبان کی پیش قدمی روک بھی دیتا ہے تو اس سے مسئلے کا مستقل تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ امریکہ کے پاس طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
امریکی پالیسی ابہام اور تضادات کا شکار ہے۔ ایک طرف تو اس کے پالیسی ساز اور دوسرے واشنگٹن حلقے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کابل حکومت میں ان کی شرکت کو قبول کرنے کو تیار بیٹھے ہیں تو دوسری طرف وہ کابل حکومت کی مکمل بقا چاہتے ہیں۔ امریکہ کے انہی متضاد مقاصد کی وجہ سے افغانستان کا مسئلہ کھٹائی میں پڑا دکھائی دیتا ہے۔ اور اسی پس منظر میں روس اور چین نے مسئلے کو حل کرنے کے لئے سفارتی کوششیں تیز تر کردی ہیں۔ امریکی حلقوں کا یہ دعویٰ تو شاید درست نہیں ہے کہ روس طالبان کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے لیکن اس امر کا امکان موجود ہے کہ روس اور طالبان میں قربتیں بڑھ رہی ہوں۔ اسی طرح چین بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا حامی ہے۔ اس پس منظر میں امریکہ کو جلد یا بدیر اپنی پالیسی کے ابہام کو ختم کرکے افغانستان میں جنگ کو ختم کرنا ہوگا۔



.
تازہ ترین