• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ہم دوسرے درجے کے کارکن نہیں، ہم بھی ترقی اور مراعات کے حقدار ہیں۔ اگر ہم بس میں کھڑے ہو کر ’’کنڈیکٹری‘‘ کر سکتے ہیں تو بیٹھ کر ڈرائیونگ بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
’’اگر یہاں کیمونسٹ کے لنچ کرنے پر کوئی پابندی نہیں تو عورت پر کیوں پابندی ہے؟‘‘
’’عورت کو انسانیت کے معیار پر پرکھو، بیوی سمجھ کر نہیں!‘‘
یہ عبارتیں اُن پلے کارڈز پر درج ہیں جو عورتوں نے ہاتھ میں اٹھا رکھے ہیں اور وہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کر رہی ہیں۔ دور ہے ساٹھ کی دہائی کا اور ملک کا نام ہے امریکہ۔ گویا 1960تک امریکہ کی بعض ریاستوں میں عورتوں کے ریستورانوں میں بیٹھ کر کھانا کھانے پر بھی پابندی تھی۔ کچھ ریستوران عورتوں سے مکمل پردہ کرتے تھے جبکہ کچھ نے اُن کے لئے ایک حصہ مختص کر رکھا تھا، کچھ کیفے وغیرہ ایسے بھی تھے جہاں دوپہر کے کھانے کے اوقات میں عورت کے داخلے پر پابندی تھی، وجہ اس کی یہ بتائی جاتی تھی کہ اس دوران مرد حضرات لنچ کے ساتھ ساتھ اہم امور پر بھی گفتگو فرماتے ہیں اور عورتوں نے چونکہ محض گپ شپ کرنی ہوتی ہے اور وہ کھانے میں بھی سست روی سے کام لیتی ہیں اس لئے مردوں کا قیمتی وقت بربادی سے بچانے کے لئے عورتوں کا داخلہ بند کرنا ہی مستحسن سمجھا گیا۔ یہ وہی دور تھا جب امریکہ میں سیاہ فام لوگوں سے امتیاز برتا جاتا تھا، ایسے ہی دور میں مارٹن لوتھر کنگ نے وہ شاہکار تقریر کی جو I have a dreamکے نام سے تاریخ میں امر ہے۔ کنگ نے کہا تھا ’’میرا خواب ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے جب میرے بچوں کو ان کی جلد کی رنگت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کے کردار کی خوبی پر پرکھا جائے، یہ میرا خواب ہے۔‘‘ یہ وہی دور تھا جب سیاہ فام افراد کے لئے لازم تھا کہ اگر وہ بس میں سفر کر رہے ہیں تو سفید فام شخص کے لئے نشست خالی رکھیں گے۔ سیاہ فام روزا پارکس نے مگر روایت بدل دی، ایک روز بس میں سفر کرتے ہوئے اُس نے اپنی نشست سفید فام شخص کے لئے چھوڑنے سے انکار کر دیا، اس انکار نے سیاہ فام تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی، روزا پارکس سے پہلے بھی کئی لوگ اِس انکار کی ہمت کر چکے تھے مگر تاریخ میں روزا پارکس کو ہی ’’تحریک آزادی کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہی وقت تھا جب امریکی اسکولوں میں بھی گورے اور کالے بچوں میں امتیاز برتا جاتا تھا اور بعض ریاستوں میں کالوں کے الگ اسکول تھے اور انہیں گورےا سکولوں میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ یاد رہے یہ اُس زمانے کی بات ہے جب امریکہ کو آزادی حاصل کئے تقریباً دو سو برس ہو چلے تھے جبکہ عورتوں کو ووٹ کا حق آزادی کے ڈیڑھ سو سال بعد ملا تھا۔ یہ امریکہ تھا۔
فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ آج کا امریکہ بالکل مختلف ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اب وہاں نسلی تعصب نہیں ہے، یہ تعصب مگر عوامی، سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر نظر نہیں آتا، اگر کوئی نسل پرستی کا الزام لگا دے تو طوفان کھڑا ہو جاتا ہے، سفید فاموں میں سے کچھ لوگ اب بھی یقیناً خود کو برتر سمجھتے ہوں گے مگر اعلانیہ اس کا اظہار قریباً ناممکن ہے۔ اسی طرح خواتین کے حقوق بھی اب مردوں سے آگے نکل گئے ہیں، کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں عورتوں نے مردوں کی حاکمیت ختم نہ کی ہو، ٹرک چلانے سے لے کر یونیورسٹیاں چلانے تک اور امور مملکت چلانے سے لے کر کاروباری ادارے چلانے تک ہر جگہ اب عورت دکھائی دیتی ہے۔ ملازمت کے دوران اب بھی خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے مگر کسی کی یہ ہمت نہیں کہ کمپنی میں ملازمت دینے سے قبل غیر اخلاقی شرائط عائد کرے۔ یہ بحث کہیں دور نکل جائے گی سو یہیں سے یو ٹرن لے کر واپس پاکستان آتے ہیں۔
1960میں پاکستان میں مارشل لا لگ چکا تھا اور وہ آئین منسوخ ہو چکا تھا جس میں ریاست نے تمام افراد کو برابری کی بنیاد پر ووٹ کا حق دیا تھا۔ رنگ، نسل، مذہب یا جنس کے نام پر پچاس کی دہائی کے پاکستان میں کم از کم آئینی سطح پر کوئی امتیاز نہیں تھا۔ عورتوں، گوروں یا کالوں کے بارے میں امتیازی قوانین نہیں تھے، سو جو حقوق امریکہ نے آزادی کے ڈیڑھ دو سو برس بعد اپنے آئین میں عوام کو دیئے وہ پاکستان نے آزادی کے فوراً بعد آئین میں درج کر دیئے مگر اس کے بعد مارشل لا لگا دیا گیا اور یوں وہ تمام حقوق اور آزادیاں چھین لی گئیں۔ امریکہ میں ایسا نہیں ہوا۔۔۔ اُس وقت بھی نہیں ہوا جب وہاں خانہ جنگی جاری تھی، اُس وقت بھی کسی نے جمہوریت کا بسترا گول نہیں کیا جب وہاں عورتیں اپنے حقوق کے لئے لڑ رہی تھیں اور اُس وقت بھی کسی نے آمریت کا پھریرا نہیں لہرایا جب مارٹن لوتھر کنگ لاکھوں کے مجمع سے لنکن میموریل واشنگٹن میں خطاب کر رہا تھا۔ یہی امریکہ کی کامیابی کا نسخہ ہے۔ جو لوگ اٹھتے بیٹھتے امریکہ کی مثالیں دے کر کہتے ہیں کہ وہاں قانون کی عملداری ہے، انصاف بکتا نہیں، ادارے مضبوط ہیں۔۔۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس منزل تک پہنچنے سے پہلے امریکہ نے محض آئین میں ہی ترامیم نہیں کیں بلکہ عوام نے ایک طویل جدوجہد کے ذریعے ان ترامیم پر عمل کروایا اور امریکہ کی اعلیٰ عدالتوں نے ہر قسم کے تعصب اور شہرت کے لالچ سے بے نیاز ہو کر صرف آئین اور قانون کے مطابق فیصلے صادر کیے۔ وہاں کسی خیر اندیش ڈکٹیٹر نے ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کا ڈنکا بجا کر یہ حقوق اور آزادیاں عوام کی جھولی میں ڈھیر نہیں کیں۔ اپنے ہاں تو جو لوگ قانون کی حکمرانی نہ ہونے کا ماتم کرتے ہیں وہی طالع آزماؤں کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ دلیل بھی دیتے ہیں امریکہ میں تو ایسی جمہوریت نہیں ہے۔ بندہ پوچھے کیا امریکہ میں وہ آمریت تھی جو ہم نے بھگتی؟ یہ لوگ ایک ہی سانس میں کہتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی ہو اور دوسرے سانس میں آمریت کے فوائد ایسے گنواتے ہیں جیسے کوئی حکیم اپنی تیار کردہ مردانہ قوت کی دوا کے خوشگوار نتائج کی مارکیٹنگ کرتا ہے۔
جمہوریت دراصل ایک مکمل پیکیج کا نام ہے، یہ بزنس کلاس ٹکٹ نہیں جو خرید لو تو ساتھ میں تمام آسائشیں خودبخود مل جائیں، جمہوریت میں سب سے پہلے آئین کی پاسداری کی جاتی ہے اس کے بعد اُن قوانین پر عمل کروانے کے لئے عوامی جدوجہد کی جاتی ہے جو عوام کے حقوق اور آزادیوں کی ضمانت دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم آئین میں حقوق درج کرکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور پھر کوئی ڈکٹیٹر ان حقوق کی عدم دستیابی کو جواز بنا کر جمہوریت کو ہی جعلی کہہ کر جڑ سے اکھاڑ دے۔ یاد رہے امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا۔



.
تازہ ترین