• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچاس سال بعد پیچھے مڑ کے دیکھیں تو کبھی دھند اور دھول میں لپٹے اور اٹے منظروں اور چہروں کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا لیکن کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے جب ہم سب اکٹھے تھے، ٹین ایجرز تھے اور ٹین ایجرز والی ایسی حرکتوں میں ’’ملوث‘‘ پائے جاتے جن پر آج ہنسی آتی ہے۔ اس تصویر کا تیسرا رخ تو رلا دینے یا پتھرا دینے والا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف وہم، وسوسہ، خواب اور خیال ہے اور ایسا کچھ تو کبھی ہوا ہی نہیں اور اگر ہوا بھی ہے تو شاید کسی پچھلے جنم کی بات ہے لیکن سچ یہی ہے کہ پچاس برس پہلے ہم واقعی تھے۔ اکٹھے بھی تھے اور نوجوان بھی۔ یہی نیو کیمپس تھا، یہی نہر تھی، یہی یا ایسے ہی درخت تھے لیکن اس بستی کا کلچر بالکل مختلف تھا۔ آج کے میلے پن اور بدبو کی جگہ اجلے پن اور خوشبو کا بسیرا تھا۔تب کے اسٹار اسٹوڈنٹ لیڈر حفیظ خان کی کینیڈا سے آمد پر جشن اور اکٹھ تو ہمیشہ ہی ہوتا ہے لیکن اس بار تو سابق اسٹوڈنٹ لیڈر، ریٹائرڈ بیوروکریٹ نوجوان بزرگ جی اے صابری نے تو کمال کردیا، 50سال بعد بہت سے دوستوں کو یکجا کر کے نہال کردیا۔ جی اے صابری کی دعوت کو پہلے تو سب نے شرارت سمجھا۔ یکم اپریل کو دعوت پر ’’مانگا‘‘ پہنچنا مہنگا پڑ سکتا تھا لیکن میری مجبوری تھی کہ اتوار کو میرا پسندیدہ پروگرام ’’میرے مطابق‘‘ ریکارڈ ہوتا ہے اور ہفتہ کے دن ’’یکم اپریل‘‘ کی تاریخ پڑتی تھی۔ جی اے صابری نے جیسے تیسے سب کو یقین دلایا کہ دوستیوں کی 50 ویں سالگرہ پر شرارت افورڈ نہیں ہوسکتی۔صابری ’’تہذیب الاخلاق ٹرسٹ‘‘ کا صدر ہے جو 1961 میں علیگڑھ سے فارغ التحصیل بزرگوں نے قائم کیا۔ پہلا کیمپس 1965 میں گلبرگ کے اندر شروع ہوا اور دوسرا لاہور سے ذرا باہر ’’مانگا‘‘ میں عین ملتان روڈ کے اوپر 51ایکڑوں پر محیط یہ عالیشان تعلیمی ادارہ کسی کیڈٹ کالج سے کم نہیں جس کا مرکزی خیال ہی "CREATING NATIONAL HARMONY" ہے۔1967ء میں نیوکیمپس میں داخل ہو کر اجنبیوں سے دوست بننے والوں کا یہ یادگار اجتماع اسی ادارے کے وسیع و عریض، سرسبز و شاداب لان میں تھا۔ اس گولڈن جوبلی ری یونین کیلئے زاہد گردیزی ملتان اور رجب علی تپافی مظفر گڑھ سے آئے۔ جاوید اقبال کارٹونسٹ، مسعود داڑھو، جاوید گتہ، یوسف ہونڈا، ایور گرین مختار چوہدری، جے آر یعنی جاوید رندھاوا، جاوید قریشی (ککڑ صرف پہچان کیلئے عرض ہے) شیخ افضل، عنایت قصورئیے، شان کونری طارق قریشی، حسین پراچہ، سردار ہمایوں..... کس کس کا ذکر کروں کہ ان سے جان پہچان کم کم تھی جو گریجوایشن کر کے آئے۔ ہم نے تو انٹرمیڈیٹ کے بعد ہی بطور انڈر گریجوایٹس جوائن کر لیا تھا۔ پھر کریلے ہاسٹل میں اکٹھے ہو کر نیم چڑھ گئے۔ سب نے جہانگیرمرزا، شاہد ملک اور ڈاکٹر مجاہد کامران کو بہت مس کیا۔ جہانگیر مرزا پولیس اور شاہد ملک فارن سروس کے باوقار نامور لوگ اور ہمارے سینئرزتھے۔ مجاہد کامران نے یونیورسٹی کو نیا روپ دینے کیلئے دن رات کام کیا۔ایک فلیکس پر جہانگیر بدر مرحوم، راشد بٹ مرحوم، جاوید نور مرحوم کی تصویریں تھیں۔ بمشکل آنسو ضبط کرتے ہوئے میں نے جی اے صابری سے کہا ’’جو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئے انہیں یاد کریں، دعا کریں، تب ڈاکٹر حسین پراچہ نے دل کی زبان سے امتیاز تاجی، خواجہ سلیم، اعجاز بائی گاڈ، یوسف زمان شنواری، پرنس برکت علی، جہانگیر بدر، راشد بٹ، متین قریشی، میاں اشرف، مقبول ملک، افتخار فیروز کیلئے دعا کی، سب ہم زبان تھے۔ آسماں سب کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔ یہ ہیروں سے زیادہ چمک دار اور پھولوں سے بڑھ کر خوشبودار لوگ تھے جو اکثر میرے کالموں میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ رات سونے سے پہلے ایک ایک کا چہرہ دھیان میں لا کر انہیں یاد کرتا اور دعائیں دیتا ہوں۔ ان جیسے پھرکہیں دکھائی نہیں دیئے۔ بہت لوگ کہتے ہیں ’’آپ بیتی‘‘ لکھوں۔ کبھی لکھی تو اصل وجہ یہ ہوگی کہ انہیں جی بھر کے یاد کروں اور ان کی خوبصورتیاں اپنی قارئین کے ساتھ شیئر کروں۔ جو بنگالی دوست جیتے جی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئے، ان کے بارے تو علم بھی نہیں کہ ہیں یا رخصت ہوگئے۔حفیظ خان، جی اے صابری، کارٹونسٹ جاوید اقبال اور میری ٹوٹی پھوٹی گفتگو کے بعد فیصلہ ہوا کہ ’’اولڈ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘‘ کی بنیاد رکھی جائے جس کے صدر حفیظ خان، نائب صدر جی اے صابری اور زاہد گردیزی، سیکرٹری میاں منور غفور اور جائنٹ سیکرٹری جاوید قریشی ہوں گے۔ یہ ہمارا ہر دلعزیز وہی جاوید قریشی ہے جو کسی بھی تقریب میں ککڑ کی آواز لگا کر اسے کچھ دیر کیلئے درہم برہم کردیا کرتا تھا، پھر جج بن گیا، اب ریٹائر ہوچکا۔کیسے کیسے لوگ تھے جو کیسے کیسے ہوگئے۔ آدمی آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر پوچھتا ہے ’’بھائی! تو کون ہے؟‘‘ جی اے صابری نے وقتی طور پر ’’تہذیب الاخلاق ٹرسٹ‘‘ غالب روڈ گلبرگ میں نوزائیدہ ’’اولڈ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘‘ کیلئے جگہ آفر کی ہے تو اسے یعنی اولڈ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کو چاہئے کہ جلد از جلد ’’خودکفیل‘‘ ہونے کی کوشش کرے۔لنچ میں دیسی دیگی کھانوں، نانوں اور لسی کے بعد اصولاً تو بستروں کا بندوبست ہونا چاہئے تھا لیکن لوٹنا پڑا۔سدا نہ باگیں بلبل بولے سدا نہ باغ بہاراںسدا نہ ماں پے، حسن جوانی سدا نہ صحبت یاراںچلتے چلتے ایک مشورہ آج کی یونیورسٹی کے متحارب متصادم نابالغ گروہوں کیلئے کہ ہوش کرو ..... وہ وقت دور نہیں جب تم بھی ایک دوسرے کو دیکھنے کیلئے تر سو گے، ایک دوسرے کو یاد کر کے آہیں بھرو گے کہ یکم اپریل 2017ء کو ’’مانگا‘‘ میں ملنے والے بھی کبھی ایک دوسرے کے حریف ہونے کے باوجود مخصوص حدود سے تجاوز نہیں کرتے تھے۔حفیظ خان نے اپنے حریف جہانگیر بدر کا سوگ منایا اور سارے کام چھوڑ کر علی بدر کی دعوت پر اسے بیٹوں کی طرح گلے لگایا اور بہت سے ’’جماعتیئے‘‘ راشد بٹ کے بچھڑنے پر بلک بلک کے روئے۔دایاں بایاں نہیں سیدھا رستہ ہی صحیح رستہ ہے۔



.
تازہ ترین