• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برصغیر غیر منقسم ہندوستان میں انگریز حکمرانوں کے خلاف اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے بعد منظم کی ہوئی پولیس کے محکمے کے قائم کیے جانے کا مقصد اور پولیس رولز اصل میں مقامی ہندوستانی کی عزت نفس کو مجروح رکھ کر اس کی آزادی کی امنگ اور سرکشی کو دبا کر رکھنا تھا اور آج تک وہی قوانین و پولیس اسٹرکچر کام کر رہا ہے۔ سندھ میں پولیس کے معاملات میں سیاسی مداخلت انگریزوں کے ہی زمانے سے شروع ہوئی یا قیام پاکستان کے کئی سال بعد؟ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن برصغیر میں لاگو کئے جانیوالے ہر مارشل لا میں حر بغاوت یا جدوجہد کو کچلنے کے لئے انگریز فوجی و نیم فوجی چاہے کرائے کے قاتل قبائلی جتھوں کے علاوہ پولیس نے بھی حروں پر بے شمار مظالم کئے تھے۔ ان میں سے حروں پر ظلم کرنے میں بدنام ایک پولیس افسر غلام رسول شاہ کو حروں نے نارا ریگستان میں اس کی رہائش گاہ پر حملہ کر کے قتل کردیا تھا۔ سانگھڑ سے چونڈکو تک ہم نے کئی سال قبل اسی حر بیلٹ کا سفر کیا تھا اور ان علاقوں میں پیر گوٹھ سمیت حر بغاوت پر اسٹوریاں اکٹھی کی تھیں۔ جہاں وہ تھانہ اور رہائشگاہ بھی کھنڈر دیکھے تھے جہاں حروں نے غلام رسول شاہ کو قتل کیا تھا۔
لیکن پاکستان کے بعد سندھ میں پولیس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی اصل ابتدا باقاعدہ ایوب کھوڑو کی حکومت سے شروع ہو چکی تھی جب سندھ اسمبلی سے ون یونٹ کی قرارداد پر بزور طاقت لالچ و خوف اراکین حکومت سے ون یونٹ کے حق میں ووٹ دلوایا گیا تھا اور انحراف کرنے والے اسپیکر میر غلام علی تالپور کو اونٹ پر سوار کروا کر بذریعہ پولیس تب دور دراز سندھ کے صحرا مٹھی میں نظربند رکھا گيا تھا۔ برسوں بعد جام صادق علی نے پھر ایسی تاریخ عبدالحفیظ پیرزادہ، اور ثناءاللہ زہری و دیگر کے ساتھ گڑہی خیروں میں ضمنی انتخابات کے دوران دہرائی کہ انہیں مٹھی کے ریسٹ ہائوسز میں نظربند کیا۔
ویسے بھی سندھ میں جب بھی نیا وزیر اعلیٰ آتا ہے وہ تین کام کرتا ہے۔ گائوں میں نیا بنگلہ بنواتا ہے، نئی شادی کرتا ہے اور سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈلواتا ہے۔ مخالفین کو جیلوں میں ڈلوانے والے اپنے حمایتیوں کے کرتوت کو چھپانے کیلئے تھانہ سے لیکر آئی جی سطح تک پولیس میں اپنے بندے تعین کرواتے ہیں۔ سندھی حکمران وفاق میں ہوں کہ سندھ میں یہ ان کی پرانی روایت رہی ہے۔ یعنی اپنی سیاسی طاقت برقرار رکھنے کے لئے پولیس کو اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنا سندھی وڈیرے کا خاصا رہا ہے۔ پھر وہ وڈیرہ ملک کا صدر ہو کہ پارٹی کا سربراہ یا پھر صوبے کا وزیر اعلیٰ۔ خاص طور پر جب انتخابات میں ووٹ پڑوانے ہوں تب بھی پولیس میں اپنے من پسند رکھوانے ہوتے ہیں۔ اب کے سندھ میں گزشتہ دنوں جو ایسا معاملہ اٹھا وہ وزیر اعلیٰ کے اوپر کا تھا۔ مجھے یہ تب یاد آیا جب سندھ میں آئی جی کے تقرر و تبادلے،پر تنازع اٹھ کھڑ اہوا۔
ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء اور مشرف ادوار میں بھی سندھ میں سیاسی مداخلت اور کسی نہ کسی طرح حکمران پارٹی اور اس سے تعلق رکھنے والوں کے حق میں پولیس کے ذریعے طاقت کی مثالیں کراچی سے گھوٹکی اور کشمور تک ملتی ہیں۔ جب ایک سابق کور کمانڈر کے زمانے میں بھی ضلع میں اور کئی اضلاع میں تھانیدار سے لے کر تمام انتظامیہ کور کمانڈر تو کیا ان کے پی اے کی مرضی سے مقرر ہوتی تھی۔
فوجی آمر مشرف کے دنوں میں جب صوبے میں ارباب رحیم وزیراعلیٰ تھے تو سندھ کے آئی جی یا انسپکٹر جنرل نے سندھ کے دور دراز علاقے سے ایک ایس ایچ او کو تبادلے کا حکم نہ ماننے پر طلب کیا تو اس نے کہا ’’سر ’’ابے‘‘ نے مجھے کہا کہ تم کرسی پر بیٹھے رہو۔ چارج نہ چھوڑو۔ میں نے ’’ابے‘‘ کا حکم مانا۔ جب آئی جی نے ایس ایچ او کے ’’ابے‘‘ کے متعلق معلوم کیا تو ’’ابے‘‘ سے ایس ایچ او کی مراد حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والا علاقے کا ایم این اے تھا۔ ایک ایم این اے کیا دور نواز شریف کا ہو کہ مشرف کا لیکن جب جب بھی ایم کیو ایم مخلوط اقتدار میں رہی تو کراچی میں سٹی پولیس چیف یا آئی جی کوئی بھی تھا لیکن حکم سلیم شہزاد کا چلتا تھا۔ پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آئی جی آفتاب نبی تھا کہ معین الدین، جام صادق علی تو سندھ کے ایک آئی جی کو ’’میرا گوریلا‘‘ کہتا تھا۔ نواز شریف کی سابقہ حکومت کے دوران سندھ میں رانا مقبول آئی جی کے ذریعے اپنی ہی حکومت اور جمہوریت پر خودکش حملہ اب ایک تاریخ ہے۔
ایوب خان کے دور میں بھی فاطمہ جناح کے خلاف کنونشن لیگ ہو کہ بھٹو کے جلسے پولیس کو استعمال کیا گيا۔ حیدرآباد کے اس ہوٹل میں توڑ پھوڑ کروانے کی دھمکی دی گئی جس پر ہوٹل کے مالکان نے ذوالفقار علی بھٹو کی رہائش کینسل کردی تھیلیکن سندھ پولیس میں سیاسی مداخلت کو ایک فائن آرٹ میں تبدیل کرنے کا کلچر ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت سے شروع ہوا جب انہوں نے اپنے ہی آبائی شہر اور ضلع میں ایس پی محمد پنجل جونیجو کو مقرر کرنے کا حکم دیا اور سندھ میں ہوم سیکرٹری محمد خان جونیجو (بدین والے) تھا۔ حیدرآباد میں غلام شبیر کلیار اور آئی جی رئیسانی کو مقرر کروایا لیکن جتنے بے حساب اختیارات لاڑکانہ ضلع کے ایس پی پنجل کو تھے اتنے آئی جی کو بھی نہیں تھے۔ سیاسی مخالفین کے ساتھ عقوبتیں پورے سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو دور کا خاصا رہا، جن میں لاڑکانہ کے شیخوں کو تھانوں میں بچوں اور بزرگوں سمیت توہین آمیز سلوک، اور سندھی قوم پرستوں و دیگر سیاسی مخالفین اور ان کے اہل خانہ پر تشدد کی تاریخ بہت ہی بھیانک ہے۔ جامشورو کے ہونہار لیکچرر اشوک کمار اور اسداللہ مینگل کی گمشدگياں اور پھر ان کے قتل، پیر پگاڑو کے چھ حروں کے قتل اور انتخابات میں جماعت اسلامی سندھ کے رہنما جان محمد عباسی کے اغوا (خالد کھرل اس وقت کے ڈی سی لاڑکانہ تھے جو کہ اب پھر پنجاب پی پی پی میں شمولیت اختیار کر گئے ہیں) یہ صرف چند مثالیں ہیں جو کہ آگے چل کر بھٹو حکومت کے زوال کے سبب بنے۔
بھٹو ہی کے زمانے میں سول سروس میں لٹرل انٹری کا رواج پڑا جن میں پولیس میں بھی براہ راست سیاسی یا من پسند لوگوں کی بھرتیاں کی گئیں جن میں اس زمانے کے طالب علم رہنما بھی شامل ہیں جن کا تعلق حکمران پارٹی کی طلبہ تنظیم پی ایس ایف سے تھا، وہ ہوم سیکرٹری اور آئی جی ڈی آئی جی کی سطح تک جاکر ریٹائرڈ ہوئے۔ طالب علم کارکنوں چاہے رہنمائوں کی پولیس میں سینئر پوزیشن پر تقرریاں آج تک جاری ہیں۔
بینظیر بھٹو حکومت کے دنوں میں ایک ایس ایچ او کی گڈاپ تھانے پر تقرری کے احکامات بذریعہ فیکس وزیراعظم ہائوس اسلام آباد سے جاری کئے گئے کہ اس کی سفارش نجیب احمد کی بہن نے کی تھی، اب وہ ایس ایچ او ایس ایس پی ہیں۔ جام صادق علی کی زندگی کے آخری دنوں میں جب وہ لندن علاج کے لئے روانہ ہو رہے تھے تو خالی سادہ کاغذوں پر کم از کم ایک سو پنوں پر ان کے دستک لئے گئے اور پھر انہی سادہ کاغذات پر جام صادق علی کے دستخطوں سے سمریاں تیار کی گئیں جن کے ذریعے براہ راست سندھ انتظامیہ اور پولیس میں ایک سو ڈی ایس پی اور اسسٹنٹ کمشنر و دیگر ایسے عہدوں پر اپنے من پسند نوجوانوں کی تقرریاں کی گئیں جو آج سندھ میں پولیس انتظامیہ اور حکومت کے سینئر عہدوں پر ہیں۔،
بینظیر کے پچھلے دور حکومت میں جس طرح پولیس کو استعمال کیا گيا یہاں تک کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے لئے بھی پولیس مقابلے کا سین گھڑا گيا۔ مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں ملوث جتنے بھی پولیس افسران تھے انہیں موجودہ دور میں زبردست نوازا گیا یہاں تک کہ ان میں سے ایک ملوث سابق افسر کو بحال کر کے اسے پولیس پر سیاہ و سفید کا مالک بنادیا گیا۔ اس دور یا اب کے دور میں پولیس کے ذریعے متحدہ کے کئی کارکنوں کےماورائے عدالت قتل بھی شامل ہیں۔




.
تازہ ترین