• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی صرف جسم میں حرکت کرتے خون اور سانس لینے کا نام تو نہیں۔ زندگی تو خواہشات، نظریات، امکانات اور تسخیرِ کائنات سے جڑا ہوا ایک سلسلہ ہے جو مسلسل جاری و ساری رہتا ہے۔ اسی طرح ہر فرد بھی گوشت پوست کا ڈھانچہ نہیں۔ کچھ لوگ انسانیت کی ایسی معراج پر فائز ہوتے ہیں جس تک موت کی رسائی ممکن ہی نہیں۔ اپریل کا مہینہ کھو دینے کے درد اور تاریخی اذیتوں سے بھرا موسم لے کر طلوع ہوتا ہے۔ ہمارے عظیم قائداعظم کی صحت بھی اسی مہینے اس سرزمین کی فکر میں نڈھال ہوئی۔ کچھ ساتھیوں کے منفی رویوں، آمرانہ سوچ اور ٹھیکیداری اپروچ نے ان کی سالوں کی جدوجہد، حوصلے اور اعتماد کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر دیا۔ ایک مخصوص گروہ کو قائداعظم کے وژن کے مطابق آزاد اور خوشحال پاکستان بالکل منظور نہیں تھا۔ آزادی کی حقیقی فضا کا حامل ایسا ملک جہاں جمہور کے حقوق اور انسانیت کا وقار سب سے معتبر ہوں، جہاں امکانات کے دروازے پر کوئی پہرہ دار نہ ہو بلکہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر ازخود تمام دَر وَا ہوتے چلے جائیں اور لوگ اپنی قابلیت کے مطابق ملکی وسائل سے بہرہ ور ہوں، جہاں کسی مخصوص فرقے یا جماعت کی نمائندگی کی بجائے آزاد شہری ہونا زیادہ قابل فخر ہو، جہاں اظہارِ رائے پر قدغن ہو نہ لوگوں کے ایمان کو اپنی پسند کے آئینے میں پرکھنے کا رواج ہو اور جہاں امارت، عہدے اور طاقت برتری کا معیار نہ ہوں۔ قائداعظم کی موت کے بعد بہت سے ادھورے کاموں کی تکمیل کے لئے فاطمہ جناح آگے بڑھیں تو ان کے ساتھ بھی اس مخصوص لابی نے کوئی تعاون نہ کیا بلکہ انہیں عورت ہونے، محبِّ وطن اور لبرل ہونے کی بھرپور سزا دے کر پاکستانی معیشت اور اختیارات پر پوری طرح قابض ہو گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی جمہوری فکر، جمہور نوازی اور اعلیٰ وژن کی وساطت عالمی سطح پر ایک بڑے رہنما بن کر ابھرے۔ طبقاتی مساوات، معاشی آزادی اور فرد کی انفرادی تکریم اور بلند مورال ان کی ترجیحات میں شامل تھے اور اسی وجہ سے وہ بہت جلد لوگوں کے دِلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ جب لوگوں کو یقین ہو جائے کہ کوئی رہنما ان کی خاطر دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی جرأت رکھتا ہے، ہر پلیٹ فارم پر پاکستان کا مقدمہ دلیری سے لڑنا جانتا ہے، ملکی خود مختاری کو گروی رکھنے اور سمجھوتے کرنے کی بجائے دلائل کی جنگ لڑنا جانتا ہے تو لوگ ایسی شخصیت کے گرویدہ ہو جاتے ہیں، اس کے عشق کے لئے تن من دھن کی بازی لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں بلکہ جان اس کے ایک اشارے پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ روشنی کے سفر کو اندھیر نگری میں بدلنے والوں نے ایک لمحے کے لئے ان تمام منصوبوں کی طرف نگاہ کرنے کی زحمت گوارا نہ کی جن کی تکمیل کے بعد ایک ایسا اسلامی بلاک معرضِ وجود میں آنے والا تھا جس کا مرکز پاکستان تھا۔ پاکستان نے ہراول دستے کا کردار نبھاتے ہوئے اسلامی ملکوں کے ذخائر کو مضبوط معیشت کی شکل دے کر صرف مسلم ملکوں کے وقار کو سربلند نہیں کرنا تھا بلکہ عام انسان کی معاشی اور سماجی حالت بھی بدلنی تھی۔ اقوام عالم میں پاکستانی شہریت کو توقیر کی علامت بنانا تھا مگر اسلامی ملکوں کی سونا اگلتی زمینوں کو اپنے قابو میں کرنے کی منصوبہ سازی کرنے والی عالمی طاقتوں کو بھلا یہ کب گوارا تھا؟ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہر دور میں زمین سے بے وفائی کرنے والا کوئی نہ کوئی میر جعفر ملکی راز افشا کرنے اور غیروں کا آلۂ کار بننے پر تیار ہو جاتا ہے۔ سو ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستانی اور اسلامی دنیا کی رہنمائی سے دستبردار کرانے کے لئے ہمیں دل و جان سے عزیز ادارے کے فرد نے طاقت کے نشے میں چور ہو کر استعمال ہونے کی حامی بھر لی۔ اس نے ایک بھٹو کو مارنے کے لئے ایسے سینکڑوں اقدامات کئے کہ ہماری نسلوں کے مستقبل کو دائو پر لگا دیا۔ بھٹو چونکہ لوگوں کی محبتوں کا مرکز بن چکا تھا اس لئے دلوں سے اس کی یاد محو کرنے کے لئے فرقہ پرستی کو ہوا دی گئی، مزاحمت کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی گئیں، سوچ پر پہرے بٹھانے کا عمل شروع کیا گیا، ایک مخصوص فکر کے لوگوں کے مزاج، رویوں اور اذہان میں انجیکٹ کرنے کا آغاز ہوا۔ آج اتنے سالوں بعد بھی ہم اسی زہر آلود فکر کا شکار ہیں۔ افراد مختلف حوالوں سے تقسیم در تقسیم ہونے کے عمل سے گزرتے ہوئے لاعلمی میں انسانیت کا سبق فراموش کر بیٹھے ہیں۔ ہمیں لاکھ کوششوں کے باوجود زہر آلودہ فکر کو اُکھاڑنے اور اس کا اثر زائل کرنے میں دشواریاں درپیش ہیں جس کی وجہ سے جمہوریت اور جمہوری اقدار کا بول بالا ہو سکتا ہے۔ بات ہو رہی تھی اس نعرے کی جو پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا حوالہ بھی ہے اور سہارا بھی، یعنی زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔ کچھ لوگ اس کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کیا واقعی بھٹو زندہ ہے اور کب تک زندہ رہے گا۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے قاتل کا موازنہ کیا جائے تو ایک لمحے میں سب پر عیاں ہو جائے گا کہ بھٹو زندہ ہے کیوں کہ اس کا نظریہ، اس کے افکار اور اس کا مشن زندہ ہے۔ بھٹو کو مارنے والوں نے ایک فرد کی جان نہیں لی تھی بلکہ اس کے افکار کو قتل کرنے کی سعی کی تھی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کی برسی اور سالگرہ پر پوری دنیا میں تقریبات ہوتی ہیں، لوگ اب بھی اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کے فلسفے کو پسند کرتے ہیں۔ جب کہ ضیاالحق کے دور پر تاریخ نے سیاہی پھیر دی ہے۔ کہیں کسی جگہ اس کے اقدامات کی پذیرائی نہیں۔ اس کی پیدائش اور موت پر عوامی سطح پر کوئی تقریب نہیں ہوتی۔ خود فوج بھی اس کی بیجی نفرت کی فصل کاٹنے میں بہت سی قربانیاں دے چکی ہے لیکن جب کبھی 12 اکتوبر جیسا دن طلوع ہوتا ہے کوئی سیاسی رہنما رات کے اندھیرے میں خفیہ ملاقات کر کے وکٹری کا نشان بناتا ہے۔ فضا میں بھٹو کی زنجیروں کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔ اس کا سانس اکھڑنے لگتا ہے۔ شکر ہے آج آزاد میڈیا کا دور ہے اس لئے اب ایسی کسی مہم جوئی کی گنجائش نہیں تاہم پیپلز پارٹی کی سندھ اور گزشتہ دور میں حکمت عملی نے بھی بھٹو کے افکار کو قتل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ موت جسم کو نابود کرتی ہے نظریات کو نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کب تک صرف بھٹو کے نام پر سیاست کرتی رہے گی۔ اس کی شہادت پر بین ڈال کر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کا وقت گزر چکا۔ اب لوگ بڑھکوں سے متاثر ہونے کی بجائے عملی کام دیکھنے کے خواہش مند ہیں اس لئے ایسا نہ ہو پیپلز پارٹی کی بھٹو مخالف پالیسیوں کے باعث بھٹو سے لوگوں کی نظریاتی وابستگی ختم ہو جائے اور بھٹو واقعتا مر جائے۔ بلھے شاہ نے کہا تھا:
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور
ابھی تک یہ مصرعہ بھٹو پر صادق آتا ہے۔ وہ زندہ ہے۔ اگر پیپلز پارٹی اس کے افکار پر عمل نہیں کر سکتی تو کم از کم اس کے نام کو بیچنا ترک کر دے کیوں کہ اب لوگ موازنہ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو چکے ہیں۔



.
تازہ ترین