• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویزارت عظمیٰ یا اقتدار صرف ووٹ کی طاقت سے نہیں بلکہ منصوبہ بندی اور جوڑ توڑ سے ملتا ہے اور جوڑ توڑ کیلئے مناسب وقت، مناسب لوگ اور حکمت عملی درکار ہوتی ہے ، بھٹو کی سیاست کا وقت گزر چکا ہے کہ ایک نعرہ لگایا ،لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں باور کرایا اور لوگ نعرے لگاتے ہوئے آپ کے پیچھے بھاگنے لگے ، اقتدار کیلئے سیاست اور سیاست کیلئے اقتدار بہت ضروری ہے، جبکہ سیاست اور سیاست کی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے اقتدار تک پہنچنے کیلئے ایسے مالدار لوگ درکار ہوتے ہیں جوسیا ست میں انوسٹ کرسکیں کیونکہ سیاست ووٹ، حکمت عملی، وقت کے درست تعین کے ساتھ ساتھ مال یا مالی طورپر مستحکم پارٹیوں کی معاونت بہت ضروری ہوتی ہے ، یہ با تیں میں نے اپنے پا س سے نہیں لکھیں بلکہ بابا اسکرپٹ جو پاکستا نی سیا ست اور اقتدا ر کے ایو ا نو ں پر نہ صرف تبصر ہ کر تے رہتے ہیں بلکہ اہم شخصیا ت سے رابطوں کا دعویٰ کرتے ہو ئے اندر کی با ت کی جا نکا ری کے امین بھی کہلا نا پسند کر تے ہیں۔لیکن باباا سکرپٹ کے اس لیکچر کی میں ان سے وجہ پوچھنا چاہتا تھا کہ باباا سکرپٹ نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ الفاظ یا سوچ میری نہیں بلکہ ایک جوڑ توڑ کے بادشاہ کی ہے جو اپنے بچوں کو بار بار سمجھانے کےلیے بھاشن دیتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر سیاست کو اس طرح نہیں اپنائو گے،پرجوش تقاریر، اخلاقی جواز محض عوامی خدمت کے نعرے لگاتے ہوئے جلسہ گاہوں اور میدان میں نکل جائو گےتو پاکستانی سیاست کے ہجوم کے پائوں تلے کچلے جائو گے ، بابا اسکرپٹ سے ملا قا ت کے دو را ن انکا یہ دعویٰ کہ ان ان کی کچھ بہت ہی ذمہ دار اور بااثرلوگوں سے ملاقات ہوئی ہے اور میں یہ چاہ رہا تھا کہ باباا سکرپٹ کی ان ملاقاتوں میں حاصل ہونے والی وہ معلومات حاصل کروں جو چاہے من گھڑت اور خوابوں پر ہی مشتمل کیوں نہ ہوں مجھے اس میں سے ضرور کچھ نہ کچھ مل جائے گا، لیکن باباا سکرپٹ نے جوڑ توڑ کے بادشاہ سیاست دان کے اقوال زریں بیان کرنا شروع کردیے تھے اور میں انہیں ٹوکنا یا چھیڑ کر اس لئے بھی ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا کہ بابا اسکرپٹ مجھے عموماً یہ کہہ کر خاموش کرادیتے ہیں کہ سیاست اور اقتدار کے سمندر میں تم ایک بچے ہو اور تمہیں اس گہرائی کیلئے ابھی بہت وقت درکار ہے، اس لئے میں خاموش حکمت عملی سے کریدنے کی کوشش کرتا رہا۔ میں نے باباا سکرپٹ کی رائے جاننے یا ایک آسان گیند کرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہاکہ سر کیا الیکشن سر پر آچکے ہیں ، بابا نے بڑے غصے سے میری طرف دیکھا اور پھر ایک عجیب اور مصنوعی سا قہقہ لگا کر کہنے لگے کوئی الیکشن نہیں ہیں ابھی تو بیچ چوراہے میں ترازو لگے گا اور ترازو میں بات چلے گی جو اس ترازو کے ناپ تول میں صحیح ہوگا وہی آگے آئے گا، ناپ تول میں میں ایکسٹرا بیگج والوں کیلئے اب کوئی معافی نہیں ہے ۔میں نے آداب بجا لاتے ہوئے بابا سے کہاکہ بابا یہ سن کر تو کان پک گئے ہیں، گرجدار آواز اور کسی قسم کا کمپرومائز نہ کرنے کے اقوال بیان کرنے والے بھی چلے گئے لیکن سب جوں کا توں چل رہاہے مجھے تو لگتا ہے کہ یہ ملک اسی طرح چلتا رہے گا، جس کے پاس طاقت ہوگی اس کی بات سنی جائے گی کیونکہ’’ باشعور‘‘ عوام بھی ابھی تک انفرادی مفاد، جعلی نعروں ، جھوٹے خوابوں اور چمک دمک سے باہر نہیں نکل سکی، بابا اسکرپٹ نے چھت کو گھورتے ہوئے کہاکہ کچھ عرصہ پہلے میں بھی یہی سوچ رکھتا تھا کہ شاید اس ملک نے ایسے ہی چلنا ہے جس کا دائو لگے گا وہ کمائے گا ،کوئی کمیشن کھائے گا، کوئی سرکاری وسائل کو لوٹے گا اور اپنی جمع تفریق کی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے اثاثے اکٹھے کرے گا، لیکن جب سے میری کچھ بااثر لوگوں سے ملاقات ہوئی ہے میں یہ سمجھنے میں ذرامشکل پیش نہیں آئی کہ ابھی الیکشن نہیں ترازو لگے گا ، ترازو کے تول بڑے سخت ہیں ہاں یہ بات درست ہے کہ اگر اب بھی ایسا نہ ہوا تو پھر ہمیں کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے ۔ پاکستا ن کبھی تبد یل نہ ہو گا۔البتہ تم لکھ لو کہ ابھی کو ئی الیکشن نہیں ہیں۔



.
تازہ ترین