• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ باتیں احساس اور وجدان سے طلوع ہوتی ہیں اور کچھ باتیں مطالعے، غور وفکر اور تاریخی شعور سے پھوٹتی ہیں۔آج آپ سے دو باتیں کہنی ہیں لیکن اس سے قبل یہ عرض کرلوں کہ بعض معاملات اور آنے والے واقعات کو کبھی کبھی انسان محسوس توکرلیتا ہے لیکن اس احساس کو صحیح لفظوں میں ڈھال نہیں سکتا۔ مسلمان ممالک کے فوجی اتحاد.....کسی حد تک نامکمل اتحاد..... کے ضمن میں سوچتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہواجیسے کوئی لغزش مستقبل میں سنجیدہ خطرات اور نتائج کاپیش خیمہ بن سکتی ہے۔ بعض تجزیہ نگار اس فوجی اتحاد کانیٹو سے موازنہ کر رہے ہیں اور اسے اسلامی ممالک کے لئے نیٹوکا متبادل ثابت کرکے بغلیں بجارہے ہیں جبکہ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی اتحاد کا نیٹو سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا چارٹر یا حلقہ عمل اس طرح کا ہوگاحتیٰ کہ دونوں کی فوجی طاقتوں، وسائل اور ٹیکنالوجی کابھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ ابھی اس فوجی اتحاد کوطویل تربیت اور مذاکرات کے عمل سے گزرنے کے بعد صحیح معنوں میں اتحاد بننے کے لئے خاصا وقت درکار ہوگا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان ایک پیچیدہ اور عجیب و غریب صورتحال بلکہ مخمصے میں پھنس چکا ہے۔ اس فوجی اتحاد کا روح رواں سعودی عرب ہے اور وہ اس کے اخراجات کا معتدبہ حصہ برداشت کرے گا۔ اتحاد کا ہیڈکوارٹر بھی وہیں ہوگا اس لئے اس اتحاد کے بارے میں یہی تاثرابھرے گا کہ اس سے برادر عرب ملک کی فوجی طاقت و دبدبے Military Might میں اضافہ ہوگا اور اتحاد کی قیادت بہرحال فیصلہ سازی میں متاثر ہوگی۔ اسے وہ آزادی حاصل نہیں ہوگی جس کا تاثر دیا جارہا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے سعودی عرب سے نہ صرف ہمارے روحانی، قلبی، تاریخی اور نہایت قریبی دوستانہ تعلقات ہیں بلکہ سعودی عرب نے ہر مشکل میں ہمارا ساتھ دیا ہے اورضرورت پڑنے پر خزانے کا منہ بھی کھولتا رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہر پاکستانی اپنے آپ کو سعودی عرب کا ممنون احسان سمجھتا ہے اور برادر عرب ملک کے ہندوستان کی جانب جھکائو کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں۔ ہمارے دشمن ہمارے دشمن ہیں۔ ضروری نہیں کہ سعودی عرب یا یو اے ای یا کوئی مسلمان ملک انہیں اپنا دشمن سمجھے۔ ہر ملک کے اپنے اپنے معاشی، مادی اور سیاسی مفادات ہیں اور ہر ملک اپنے اپنے مفادات کا تعاقب کرنے میں آزاد ہے۔ مسلم ملت کا جو تصور علامہ اقبالؒ کی شاعری سے ہمارے دلوں میں اترتا اور ڈیرے ڈالتاہے وہ ہنوز خواب ہے۔ قومی ریاستوں، قومیت پرستی اور جغرافیائی حدود نے ذہنوں اور جسموں کو بھی تقسیم اور محدود کردیا ہے۔ کم سےکم مستقبل قریب میں علامہؒ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کو اس سمت میں ایک قدم سمجھنابھی فی الحال حقیقت پسندی کے تقاضوں سے انحراف کرنا ہے۔
پاکستان کی ان گنت وضاحتوں کے باوجود اس فوجی اتحاد کے حوالے سے ایرانی خدشات رفع نہیں ہوئے اور صرف دو دن قبل ایرانی سفیر نے اپنے تحفظات کا کھل کر ذکرکیاہے۔ ایران ہمارا ہمسایہ ہی نہیں بلکہ برادرملک ہے جس سے ہمارے تعلقات ہمیشہ دوستانہ اور قریبی رہے ہیں۔ ایران تاریخی حوالے سےپاکستان کی مدد بھی کرتا رہا ہے اور خیر خواہی بھی۔ پاکستان میں مذہبی فرقہ وارانہ قتل و غارت کے باوجودایران نے سنجیدہ رویہ اختیار کئے رکھا ہے۔ بلاشبہ پاکستان نے اس پراکسی وار کی بھاری قیمت ادا کی ہے لیکن اس مسئلے کا تجزیہ کیا جائے تو بالاخر یہ ہماری کمزوریوں اور غلطیوں کی نشاندہی کرتاہے۔ ایرانی سفیر کے تحفظات کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی افسوسناک ہے کہ پاکستان ایران تجارت کا حجم نہایت کم ہوگیا ہے۔ ایران نے پاکستان کے پھلوں پر پابندی لگا دی ہے اورڈیوٹی 80فیصد سے دو سو فیصد کردی ہے۔ دوسری طرف ایران کی ہندوستان سے تجارت 80بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ ایران پاکستان تعلقات میں سردمہری اورتجارتی تنزل کی ایک وجہ سوئی گیس پائپ لائن تنازع بھی ہے۔ مختصر یہ کہ دونوں طرف غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں حالانکہ گوادر اور چا بہار اور پھر افغانستان کے حوالے سے دونوں ممالک کے مفادات مشترکہ ہیں۔ ایران کی روس سے بڑھتی ہوئی قربت بھی اس خطے کے مستقبل پر بہرحال اثرانداز ہوگی اور ہمارے خطے میں روسی امریکی چپقلش کو ابھارے گی۔ دوسری طرف ہمارے دو ہمسائےایران اور ہندوستان ہمارے تیسرے ہمسائے افغانستان کے اندرونی حالات میں خاصے ملوث ہیں اور افغانستان کاپاکستان سے معاندانہ رویہ ہمارے لئے مستقل دردِ سر اور خطرہ ہے۔ اس عالمی تناظر میں نہایت احتیاط اور سمجھداری سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ صورتحال پاکستان کےاندرونی معاملات، مذہبی فرقہ واریت، سماجی تقسیم کے ساتھ ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔
خدشات کو مستقبل کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے نشاندہی کریں تو ایران کے تحفظات سعودی یمن جنگ کے حوالے سے نمایاں نظر آتے ہیں جو مسلمان ملت کی بدقسمتی سے مذہبی فرقہ وارانہ روپ اختیارکرچکے ہیں۔یمن پر وقتاً فوقتاً بم باری اور سلگتے ہوئے جنگی شعلے حوثی اورزیدی قبائل کو نشانہ بنا رہے ہیں جوایران کی دکھتی ہوئی رگ ہے۔ وہ ان کی مدد بھی کر رہاہے چنانچہ ہماری متعدد وضاحتوں کے باوجود ایران کا یہ خدشہ یا تحفظات رفع نہیں ہوتے کہ بالآخر اس اسلامی فوجی اتحادکو جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں یمنی دشمنوں کے خلاف بھی استعمال کیا جائے گا اور اس کی ماہرانہ قوت کا فائدہ بھی اٹھایا جائے گا۔ جنرل راحیل شریف کی جانب سے بھی یہ وضاحت کی جاچکی ہے کہ وہ اس جھگڑے سے دور رہیں گے۔ پاکستان بھی اپنے اس عزم کا اعادہ کرچکا ہے اور سعودی عرب بھی واضح کرچکا ہے کہ اس فوجی اتحاد کا مقصد داعش کے پھیلتے خطرے سے نپٹناہے۔ اعتراض یہ بھی ہے کہ ایران، شام اور عراق کو ساتھ لئے بغیر داعش کامقابلہ کیسے کیاجائے گا؟ داعش جیسی نظریاتی اورظالم فوجی قوت کامقابلہ صرف فوجی قوت سے نہیں کیاجاسکتا۔ فوجی قوت کے ساتھ نظریاتی اتحاد و قوت کی بھی ضرورت ہے ورنہ داعش کو نظریاتی مہم کے زور پر ملنے والی افرادی قوت کاراستہ بند نہیں ہوگا۔ یہ ایک طرح سے چومکھی لڑائی ہے جس کے لئے ابھی تک کوئی منظم اور موثر حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ اس طرح کی جنگوں میں ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ نظریاتی نیٹ ورک ، پروپیگنڈے اور پیغام رسانی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے اسلامی ممالک کے نظریاتی اتحادکی ضرورت ہے۔ تاکہ مذہبی اختلافات سے بالاتر ہو کر حکمت عملی تشکیل دی جاسکے۔ مستقبل کی آنکھ کہتی ہے کہ بڑی احتیاط سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بےاحتیاطی پاکستان کے لئے بھی خطرات لاسکتی ہے، جنرل راحیل شریف بھی اپنی شہرت خطرے میں ڈال سکتے ہیں اور ہاں جنگ کادائرہ وسیع ہو کر اور ’’یہود‘‘ کو ملوث کرکے تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ میری دعا ہے کہ ایسا نہ ہو۔ ان شاء اللہ ایسا نہیں ہوگا لیکن دوستو! احتیاط، حاکمو! احتیاط....!!
نوٹ:گزشتہ کالم میں کتابت کے باعث دو غلطیاں رہ گئیں۔ ڈی پی دھر کی جگہ ڈی پی او لکھا گیا جبکہ کانگریس رول کا عرصہ 1937-39ہے۔ قارئین نوٹ فرما لیں۔



.
تازہ ترین