• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترم وزیرِاعظم صاحب،
حیدرآباد کا دورہ کرنے پر آپ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ یوں تو سندھ کے اکثر شہر وں کو آپ کی توجہ کی ضرورت ہے، جنہیں، اگر اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو، پچھلے 70برس سے حکمران نظر انداز کر رہے ہیں۔ لاڑکانہ ایک ایسا شہر ہے جس نے کئی وزیرِاعظم اور کئی وزیرِاعلیٰ اس ملک اور صوبے کو دئیے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بھی یہاں سے منتخب ہوتے رہے۔ ان کے تو دن پھر گئے، ایک خاندان نے 1994 میں صرف 94 ہزار ٹیکس دیا تھا، آج وہ اربوں کا مالک ہے۔ دوسروں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ نہیں بدلی تو ان شہروں اور دیہات کے باسیوں کی زندگی۔
لیکن کیونکہ آپ نے ابھی حیدرآباد کا دورہ کیا ہے، تو فی الحال اسی پر کچھ بات ہو جائے۔ آپ کو یاد ہوگا، وزیرِاعظم بننے سے پہلے میں نے آپ کی ایک پریس کانفرنس میں آپ سے عرض کیا تھا کہ آپ سندھ پر توجہ نہیں دے رہے۔ آپ نے وعدہ بھی کیا تھا۔ عمل اس پر اب ہو رہا ہے۔ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، حیدرآباد، سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس نے کبھی بہت اچھے دن دیکھے ہیں۔ جن لوگوں نے اپنا بچپن اور نوجوانی یا جوانی بھی وہاںگزاری وہ اس شہر کی رونقوں کو یاد کرتے ہیں اور دکھی ہوتے ہیں۔
میں کہاں سے شروع کروں، ہر طرف ایک افراتفری مچی ہوئی ہے، طویل عرصے سے۔ ایک سول اسپتال ہے۔ آپ کے حالیہ پروگرام میں اسپتال کا تو کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ مگر میرا تجربہ شاید آپ کو اس کی ضرورت کا احساس دلادے۔ چند برس پہلے میں نے اس اسپتال میں دماغی بیماریوں کے وارڈ کے دروازے تک انسانی فضلہ بہہ کر آتے ہوئے دیکھا ہے۔ اندر مریض کے پاس بستر پر چادر بھی نہیں تھی۔ ایک جاننے والے نے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے درخواست کی تو اس نے چند چادریں بھیج دیں۔ ان میں سے دو آتے آتے غائب ہوگئیں۔ آج پتہ نہیں کیا حال ہے۔
آپ نے اس شہرِناپرساں کے لئے ، اخبارات کے مطابق، ڈیڑھ سو کروڑ روپے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ بڑی نوازش۔ مگر کیا آپ نے سوچا کہ اس پر تو اونٹ کے منہ میں زیرہ والا محاورہ بھی صادق نہیں آتا۔ یہ ڈیڑھ سو کروڑ روپے، دراصل صرف ڈیڑھ ارب روپے ہیں۔ اس میں آپ میٹرو بھی بنائیں گے، ایک بہت اعلیٰ درجے کی یونی ورسٹی بھی اور ایک ہوائی اڈہ بھی۔ کیااس رقم میں یہ سب کام ہوجائیںگے؟ کئے جاسکتے ہیں؟ کسی نے آپ کو حساب لگا کر نہیں بتایا کہ یہ بہت معمولی رقم ہے، جس میں اتنے بڑے کام نہیں ہو سکتے۔ یہ سب کام اپنی اپنی جگہ اربوں روپے کے ہیں۔
جو یونیورسٹی آپ نے تجویز کی ہے، اس کی ضرورت حیدرآباد کو گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے ہے۔ یہاں کبھی سندھ یونیورسٹی ہوتی تھی، جو کراچی سے حیدرآباد منتقل ہوئی تھی۔ وہاں سے اسے جامشورو منتقل کردیا گیا، اور سندھ کا یہ دوسرا بڑا شہر ایک یونیورسٹی کو ترستا ہی رہا۔ اس شہر کے بچے جامشورو جاتے تھے، لڑکیاں ایک عرصے تک نہیں گئیں، وہاں حالات ہی ایسے تھے، لڑکیاں نہیں جاسکتی تھیں۔ وجوہات آپ جانتے ہوں گے، یا کبھی گوش گزار کردونگا۔ شہر کے لوگ چیختے چلّاتے رہے، کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ یوں بھی ہے کہ شہر کے لوگ کچھ زیادہ چلاّئے بھی نہیں۔ ایک بڑے بلڈر نے، آپ جانتے ہی ہیں، ایک یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا، وہ کہاں تک پہنچی کچھ پتہ نہیں، بس اس کا نام تبدیل کرنے کی خبر دیکھی۔ اس تعلیمی ادارے پر ہی اربوں خرچ کرنے ہونگے۔
آپ کی میٹرو بس نے بہت سی یادیں دلادیں۔ اپنے بچپن میں ہم ، بہت سارے بچے، لطیف آباد سے بسوں میں ہی اسکول جایا کرتے تھے۔ سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے نام سے ایک ادارہ تھا، اس کی بسیں چلتی تھیں۔ ڈبل ڈیکر بھی۔ پھر وہ آہستہ آہستہ ختم ہوگئیں۔ جس میدان میں وہ کھڑی ہوتی تھیں، وہاں اب پانی بھرا ہوا ہے، بسیں تو پتہ نہیں کہاں گئیں۔ اب اس شہر میں، ٹرانسپورٹ کے نام پر صرف رکشے چلتے ہیں۔ اگر آپ نے میٹرو بنائی تو اس کو بھی اربوں کی ضرورت ہوگی۔ وہ ڈیڑھ ارب میں سے تو نہیں مل سکتے۔
ہوائی اڈہ کبھی تھا، پھر آہستہ آہستہ قومی ایر لائن نے پروازیں بند کردیں۔ گھاٹے کا سودا تھا، کون کرتا۔ آپ خود جانتے ہیں، ہوائی اڈہ کتنے میں بنتا ہے۔ ڈیڑھ ارب میں سے اس کا حصہ کتنا ہوگا؟ کتنا بن پائے گا، ابھی کیا کہہ سکتے ہیں۔ بہت سی باتیں تو آپ کے علم میں آئی ہی نہیں ہوں گی۔ اس شہر میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ جو لوگ منرل واٹر پیتے ہیں انہیں پتہ بھی نہیں چل سکتا۔ ایک ذرا سا گریز کرکے میں تھوڑی دیر کے لئے آپ کو کوٹری لئے چلتا ہوں۔ یہ حیدرآباد سے مغرب کی طرف دریائے سندھ کی دوسری جانب ہے۔ وہاں دریا کاوہ پانی لوگ پیتے ہیں جس کا رنگ گنّے کے شربت جیسا ہوتا ہے، اور اگر گلاس میں اسے تھوڑی دیر رکھیں تو کیڑے تیرتے ہوئے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ا سی دریا میں، آس پاس کا سارا فضلہ ڈالا جاتا ہے، اور غربت کی وجہ سے ہمارے جو ہندو بھائی اپنے مردے جلا نہیں سکتے اسے اسی دریا میں ڈالدیتے ہیں۔ یہ سندھ کے اس شہر کا حال ہے جس کے بارے میں ابن بطوطہ نے لکھا کہ حیدرآباد کے بیچ سے ایک دریا گزرتا ہے۔
سب جانتے ہیں وزیرِاعظم کا ایک پروٹوکول ہوتا ہے اور سیکورٹی کا مسئلہ بھی۔ آپ سے یہ توقع رکھنا کہ آپ حیدرآباد کے کچھ علاقہ خود دیکھ پاتے، شاید بہت زیادہ مطالبہ ہوتا۔ میں آپ کو اِدھر اُدھر لئے چلتا ہوں۔ میری آنکھ سے اس شہر کو دیکھیں۔ معذرت کہ سارا کچھ میں آپ کو نہیں دکھا سکوں گا، چند ایک علاقے ہیں، جن کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے۔ رسالہ روڈ پر یہ گورنمنٹ ہائی اسکول ہے۔ اس کا میدان اتنا وسیع تھا کہ یہاں کبھی عالمی مشاعرہ ہوا کرتا تھا، ہر سال۔ بڑے بڑے شعرا شریک ہوتے تھے، جوش ملیح آبادی، جگر مرادآبادی، احسان دانش، مولانا ماہرالقادری، دلاور فگار، مجروح سلطان پوری بھارت سے آتے تھے، اور بھی بہت سے۔ پورا شہر امڈ آتا تھا۔ پھر وہ روایت ختم ہو گئی۔ اس کالج میں دکانیں بنا دی گئیں۔ اب وہاں مشاعرہ نہیں ہو سکتا۔ ایک بار ہوا تو ایک دوسرے کالج میں، کہ وہاں کونونٹ کی وجہ سے زمیں پر قبضہ نہیں کیا جا سکا۔
دوسری طرف چلتے ہیں۔ پکے قلعہ سے نیچے اتریں تو بائیں ہاتھ پر تھوڑا چل کر دو کالج اور ایک اسکول ہوا کرتا تھا، اب بھی ہیں، مگر برے حالوں میں۔ سٹی کالج، سندھ کامرس کالج اور ایس کے رحیم ہائی اسکول۔ بنانے والوں نے یہ ان غریب بچّوں کے لئے بنایا تھا جو دن میں نوکری کرتے اور شام کو ان کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے۔ یہاں سے بہت سے ایسے لوگوں نے تعلیم حاصل کی جنہوں نے بعد میں اپنے شعبوں میں بڑا نام پیدا کیا۔ اگر آپ میرے ساتھ ہیں تو ان کالجوں کو تلاش کرنے میں ہمیں کافی دقت ہو گی۔ اس کی دیوار کے ساتھ دکانیں بنادی گئی ہیں، اور ان کے سامنے تھڑے لگے ہوئے ہیں۔ راستہ بھی بڑی مشکل سے ملتا ہے۔ یہ کس نے کیا؟ جس نے بھی کیا، اُس سے جواب طلب کرنا چاہئے۔
اور شہر کے گردو نواح میں دیکھتے ہیں۔ یہ ٹنڈو طیب ہے۔ یہاں ایک سڑک سیمنٹ کی اینٹوں سے بنی ہوئی ہے۔ مگر اس سڑک تک پہنچنے کے لئے آپ کو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے گزرنا پڑے گا، ایک آدھ گٹر میں گاڑی کا پہیہ پھنس بھی سکتا ہے۔ ٹندو طیب میں ایک گھر میں لوگ پانی ضائع کر رہے ہیں۔ ’’پانی بہت گندہ آرہا ہے اسے نکال رہے ہیں۔‘‘ خاتونِ خانہ کا یہ جواب آپ مجھ سے سن لیں۔ میں نے سنا تھا۔
یہ پورے شہر کا حال ہے۔ ٹندو یوسف کے قبرستان کو جانے والی سڑک شاید ایک بار بننے کے بعد کبھی نہیں بنی۔ اسکی حالت سے تو یہی لگتا ہے۔ اس پر، آپ دیکھ رہے ہیں، چلنا بھی مشکل ہے، اور میّت کے ساتھ تو اور بھی مشکل۔ یہ حیدرآباد کے کچھ علاقوں اور کچھ مسائل کی جھلکیاں ہیں، جو آپ نے میری آنکھوں سے دیکھیں۔ بہت سی تفصیلات آپ اپنے ذرائع سے حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ کو اب سوچنا یہ ہے کہ کیا کرنا چاہئے کہ شہر کی رونقیں لوٹ آئیں۔اور سندھ کے دوسرے محروم علاقوں کی بھی۔



.
تازہ ترین