• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت ہوگیا۔ انسان ایک حد تک برداشت کر سکتا ہے۔ سیاست کے نام پر وہ دھماچوکڑی مچی ہے کہ خدا کی پناہ۔ مطلب یہ کہ سیاست اور الیکشن دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی ہوتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ سیاسی چالبازیوں او ر عیاریوں کی پٹاری کھول کر رکھ دی جائے۔ بلا کا شور شرابہ ، قیامت کی ہلّڑ بازی، آستینیں چڑھی ہوئی، منہ سے جھاگ نکلتا ہوا۔ آنکھیں سرخ اور چہرہ بھبوکا۔یہ مہذب قوموں کا شیوہ نہیں ہوا کرتا۔ اوپر سے غضب یہ کہ یہی غضب ناک اور آگ بگولہ لوگ انتخابات کے بعد یوں بدل جاتے ہیں کہ پہچانے نہیں جاتے۔ کبھی کبھی تو یہا ں تک ہوا کہ جن کے خلاف ایک طوفان اٹھایا تھا ان سے معافی بھی مانگ لیتے ہیں۔یہ سب دیکھ کر دل میں ایک عجب خواہش جاگی۔ ذہن میں ایک خیال آیا۔ یوں ہی بس ایک لہر سی اٹھی۔ بتاتا ہوں۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ سکھ چین سے رہنے کی شدید خواہش رکھنے والوں کو اپنی زندگی اپنے ڈھب سے گزارنے کیلئے ایک الگ تھلگ علاقہ دیدیا جائے۔ وہاں یہ لوگ اپنی دنیا اپنے طور پر تراشیں، جیسے چاہیں جئیں، جس طرح چاہیں اپنے بچوں کو اٹھائیں، اپنے چھوٹے چھوٹے اسپتال بنائیں، اپنی گھریلو صنعتیں لگائیں ، اپنے روزگار خود پیدا کریں ، نہایت پڑھے لکھے لوگ نوجوانوں کی تربیت کریں، عورتیں گھروں کو مثالی ٹھکانہ بنائیں۔سبزیاں اگائیں، مویشی پالیں۔ انڈے اور مرغی کے گوشت کا بھاؤ پردیس سے نہیں، اپنے ہی بڑوں کے مشورے سے طے ہو، بازار یوں لگے جیسے غریبوں کے لئے کھولے گئے ہوں، ناداروں کی مسلسل دیکھ بھال ہو، بیواؤں کی نگہداشت ہو، ان کی بیٹیوں کے شادی بیاہ کا نظام قائم ہو، عدل ہو تو ایسا کہ دنیا دیکھا کرے کیونکہ اس خطہ سکو ن میں رہائش کیلئے ملک کے اعلیٰ ترین جج او رقانون داں اپنے نام پیش کریں گے۔ بزرگوں کی اسمبلی ہو، جہان دیدہ لوگوں کی کمیٹیاں ہوں، آزمودہ ماہرین اپنے اپنے میدانوں میں بڑے بڑے کام کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پورے علاقے کی فضا میں چین ، آرام، سکون اور راحت کا احساس کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔
ہے نا دیوانے کا خواب، مگر ایسابھی نہیں۔امریکہ میں Mormon مسلک کے لوگ یہی کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ سب سے جدا ہے اور زندگی گزارنے کے طور طریقے الگ ہیں۔ اگر فرق اتنا زیادہ او رمختلف ہو تو تاریخ میں لوگوں نے بارہا اپنے لئے الگ علاقے تراشے ہیں۔اور انہیں ہر بار نہیں لیکن بیشتر مرتبہ وہ سکون نصیب ہوا ہے جس کی انہوں نے تمنا کی ہے۔ مجھے علامہ اقبال کا وہ خط یاد آتا ہے جو انہوں نے کسی عالم دین کو لکھا تھا اور کہا تھا کہ کاش عالم اسلا م ایک چھوٹے سے علاقے میں الگ تھلگ ہوتا جہاں مسلمان اپنے عقیدے اور رسم و رواج کے ساتھ مثالی زندگی گزار کر خو د کو ایسا نمونہ بناتے کہ دنیا ان کی تقلید کیا کرتی۔میں نے ایسے ناول پڑھے ہیں جن میں کچھ لوگوں نے کسی ویران جزیرے میں جاکر اپنی دنیا اپنے ہاتھوں تراشی اور اسے بہشت جیسا بنا دیا۔ ابھی میں نے امریکہ کے مورمن مسیحی مسلک کی بات کی تھی۔ ان کے زندگی گزارنے کے اصول بہت سخت ہیں جن میں اول یہ کہ ان کے ہاں سود خوری کا ذرہ برابر وجود نہیں، شراب کو ہاتھ نہیں لگاتے، یہی نہیں، چائے کافی اور تمباکو نوشی سے سخت پرہیز ہے،کنبے ایک اکائی کی طرح مل کر رہتے ہیں اور شادی سے پہلے کسی تعلق کی اجازت نہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ تمام انسان خدا کی روحانی اولاد ہیں۔ یہ سب ان کے چرچ کے وضع کئے ہوئے اصول ہیں جن میں اتنی سختی ہے کہ عام لوگ آسانی سے مورمن نہیں ہو جاتے۔ مگر جو بات دلچسپ ہے وہ یہ کہ اپنے علاقوں میں اپنے طور طریقوں سے جیتے ہیں ، نہ کسی کی زندگی میںدخل دیتے ہیں اور نہ کوئی دوسرا ان کے معاملوں میں ٹانگ اڑاتا ہے۔ جیتے ہیں اور و ہ بھی آرام سے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ کوئی بڑامثالی معاشرہ ہے ۔ نہ غالب کی خواہش کے مطابق یوں رہا جائے کہ کوئی ہمسایہ نہ ہو اور نہ اس طرح جیا جائے کہ رازداں کوئی نہ ہو۔ان سیاست دانوں کو اپنی ادھیڑ بن سے فرصت ہو اور اپنے ’جیب خرچ‘ سے فراغت ہو تو اسی سماج اور اسی معاشرے کی بنیادوں پر سکھ چین کی ایسی عمارت کھڑی کر سکتے ہیں جس پر امن و آشتی کے ایک پرچم سے زیادہ کچھ او ر نہ لہرانے پائے۔آخر دنیا والوں نے مثالیں قائم کی ہیں۔ شہر نیو یارک جرائم کا گڑھ تھا، اسے دنیا کی پر امن بستیوں کی صف میں کھڑا کردیا۔ملائیشیا ہے جہاں کسی زمانے میں کالے پانی کے خطرناک مجرم بھیجے جاتے تھے جو وہیں مر کر گل سڑ جاتے تھے۔ اب وہی ملک امن کا گہوارہ ہے۔ اپنی ربڑ اور پام کے تیل کے بل بوتے پر ایسی معیشت کھڑی کی ہے کہ دنیا حیران ہے۔ علم پر اتنا زور ہے کہ اساتذہ اعلیٰ افسروں کی شان سے رہتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر سنگا پور ہے، ایک قدیم بندرگاہ اور سمندری قزاقوں کا ٹھکانہ جس کو یو ں کردیا کہ اب دودھ میں دھلا نظر آتا ہے۔ قانون کی ایسی پابندی اور وہ بھی کسی جبر کے بغیر جیسی سنگا پور میں ہوتی ہے کہیں اور اس کی مثال ملنی دوبھر ہے۔ سارا کمال ارادے اور امنگ کا ہے۔ جس نے ٹھان لی اور ارادہ باندھ لیا اس کے خواب بھی سچ ہوئے او ردعائیں بھی قبول ہوئیں۔ لیکن جہاں نیتوں میں فتور ہو اور دیانت کی جگہ خیانت کا راج ہو جائے وہاں سب کچھ تاراج ہو جایا کرتا ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا، تاریخ کہہ رہی ہے ۔ یہ نہیں کہ ان لوگوں کو خبر نہیںیا سننے کے لئے کان او رپڑھنے کے لئے آنکھیں نہیں۔ تاریخ نے جو کچھ لکھا وہ کتابوں میں بند نہیں، دیوار پر لکھا ہے لیکن جن سے توقع ہے کہ نوشتہ دیوار پڑھیں، وہ دیوار ڈھادینے کے درپے ہیں۔اس پر یاد آیا کہ افغانستان میں جن دنوں طالبان کا راج تھا، کہا جاتا ہے کہ بعض مجرموں کو سزا اس طرح دی جاتی تھی کہ انہیں کسی دیوار کے نیچے بٹھا کر دیوار ان کے اوپر گرادی جاتی تھی۔ بچ جائیں تو انہیں بے قصور مان لیا جاتا تھا،مرجائیں تو وہی ان کی سزا ہوتی تھی۔ جس دیوار کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے اس میں ایک خوبی ہے۔ اس پر لکھی تحریر پڑھ لی جائے تو نجات ہے، نہ پڑھی جائے تو وہ اَن پڑھ کے اوپر گر پڑتی ہے اور ٹھیک ٹھاک گرتی ہے۔



.
تازہ ترین