• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مردم شماری کرنے والوں نے عبداللہ غازی کے مزار کے گرد فٹ پاتھ پر سوئے لوگوں کو پہلے تو حیرانی سے دیکھا، پھر ان کا شمار کرنا شروع کیا۔مجھے یاد آیا، آج سے کوئی چالیس برس پہلے کی بات ہے، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور کو صبح سویرے اسٹیشن پر چھوڑ کر آئیں تو مجھے حیرانی سے فون کرتے ہوئے کہنے لگیں ’’آج میں بہت دکھی ہوں، میں نے لوگوں کو فٹ پاتھ پر سوتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’خدیجہ آپا! آپ گاڑی میں تھیں، ذرا شہر کے اردگرد چکر لگا کر دیکھتیں تو پتہ چلتا کہ کتنے غریب لوگ زمین پر سوتے ہیں، ریلوے اسٹیشن پر غریبوں کے سونے کا انہیں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کبھی کینٹین والے تو کبھی لوگ انہیں کچھ دے دیتے ہیں، اسٹیشن کے اردگرد جتنے ہوٹل تھے، وہاں اس زمانے میں دس روپے منجی کے لحاظ سے کمر سیدھی کرنے کو جگہ مل جاتی تھی…مزاروں کے احاطے میں تو سینکڑوں لوگ روزانہ سوتے ہیں…اس طرح ہر سڑک چاہے باغ ہوں کہ کوئی فٹ پاتھ، ان کی جاگیر ہے…پاکستان کے ریلوے اسٹیشن پر تو سونے والوں میں زیادہ تعداد بے چارے قلیوں کی ہوتی ہے، وہ ٹرین آتے ہی اٹھ جاتے ہیں اور سواریوں کا سامان اٹھانے کیلئے چاق و چوبند ہوجاتے ہیں۔
آپ پاکستان انڈیا واہگہ بارڈر کراس کریں تو ہمیشہ قلیوں کی شکل میں بڈھے بابے ملتے ہیں…میں ہر ایک سے پوچھتی ہوں ’’آپ کا بیٹا نہیں‘‘ کہتے ہیں ’’ہے اپنے بال بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔‘‘ جب پوچھو ’’آپ میاں بیوی اکیلے رہتے ہیں۔‘‘ کبھی جواب ملتا ہے ہاں جی ہم دونوں اور کبھی یہ کہ میں اکیلا ہوں…اپنے لئے روزی کماتا ہوں پاکستان کے جتنے ڈھابوں پر بچے بڑے کام کرتے ہیں…وہ سب کے سب آدھی رات کے بعد انہی میزوں پر سوئے ہوتے ہیں، جن پر ہم کھانا کھاتے ہیں…چھوٹے شہروں میںتمام بس اسٹینڈ پر زیادہ تر بچے کبھی ریڑھی لئے ہوئے اور کبھی اپنے چھوٹے سے سر پر بڑا سا سوٹ کیس لیکر، ٹانگوں یا رکشوں تک چھوڑ کر آتے ہیں…آپ سب جانتے ہی ہیں ہمارے ملک میں 21لاکھ بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ اب یہ جو ہمارے مردم شماری والے لوگ ہیں…جن گھروں، کوٹھیوں اور ڈیروں پر بچوں سے مشقت لی جاتی ہے…کیا رئیس لوگ، وڈیرے اور سردار ان کے نام اپنے خاندان کے ساتھ لکھواتے ہیں… یہ مردم شماری والے کس خانے میں ہمارے ڈھائی کروڑ بچوں کے نام لکھیں گے جو اسکول نہیں جاتے …کس خانے میں ان بچوں کے نام وہ خود لکھیں گے یا گھر والے لکھوائیں گے کہ جو مجذوب ہیں، جن کو سارے محلے اور خاندان والے پیر سمجھتے ہیں۔سب سے بڑھ کر پیروں کے صحنوں میں جو لوگ پڑے رہتے ہیں۔ڈیرے پر آنے والی دیگوں سے ملنے والے چاولوں سے اپنے پیٹ کا جہنم بھرتے ہیں…وہ لوگ جن کو جوان اولاد، گھر سے نکال دیتی ہے وہ کبھی ایدھی ہومز جاتے ہیں یا پھر ہر چوک پر کھڑے ہوکر مانگ کر گزر اوقات کرتے ہیں۔
لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں، جب میں اپنے شوہر کی قبر بنوا رہی تھی، میں نے درختوں کے نیچے کچھ عورتوں کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا… میں بھی کئی دن تک جاتی رہی تھی…ان عورتوں سے صاحب سلام بھی روز ہوتی تھی…میں نے ایک دن پوچھ ہی لیا ’’آپ لوگ سارا دن کیوں قبرستان میں رہتی ہیں۔‘‘ سب نے یک زبان ایک ہی بات کہی، بہوئوں کے طعنے اور گالیاںنہیںسنی جاتی ہیں… یہاں بیٹھ کر قرآن شریف بھی پڑھ لیتے ہیں…لوگ کھانا دے جاتے ہیں اور شام کو گھر جاکر منہ لپیٹ کر پڑ جاتے ہیں۔
یہاں مجھے یاد آیا، ایک دفعہ عید کے دن میں ایدھی صاحب کے پاس بیٹھی تھی، بہت سے نوجوان کچھ پیسے اور کچھ کھانے کی چیزیں لے کر آئے ہوئے تھے…ایک نوجوان نے کہا ’’ایدھی دادا، آپ تو جنت ہی میں جائیں گے۔‘‘ ایدھی صاحب نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’نا بابا مجھے دوزخ ہی جانے دو،وہاں میں لوگوں کی خدمت کروں گا، جلنے سے بچائوں گا بھلا جنت جاکے کہاں خدمت کرنے کا موقع ملے گا۔ ’’ارے میرے بچو! اس عمر میں پیٹ کم بھرا کرو اور دماغ زیادہ بھرا کرو۔‘‘ میں بہت دن تک سوچتی رہی ایدھی صاحب نے اتنی عقل کی بات کی ہے کہ کسی صاحب علم نے بھی نہیں کی ہے۔
مردم شماری کرنے والوں کے پاس دو کتابیں ہونی چاہئیں، ایک تو سرکاری کھاتہ، جس میں خانوں کے مطابق اعدادوشمار لکھیں اور دوسری کاپی ذہن کی جس میں وہ باتیں نوٹ کریں جو گھر، حویلی یا جھونپڑی میں دیکھیں…لوگوں کی نفسیاتی صورت حال، کہیں امارت چھپانے اور کہیں غربت چھپانے کے انداز کو ہکلاتے ہوئے بیان کرتے ہوئے، دکھائی دیں۔
آج کل بلکہ یوں کہئے کہ کئی سالوں سے سونا اتنا مہنگا ہے کہ متوسط درجے کے لوگوں نے تو نقلی زیور ہی دینے شروع کر دیئے ہیں…جب عام آدمی کی یہ صورت حال ہو تو بتائیں ان کے پاس اتنا سونا کہاں سے آیا جو سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کو سونے کے تاج پہنا رہے ہیں، ان رہنمائوں کو بھی سونے کے تاج پہنتے ہوئے یہ خیال نہیں آتا کہ میرے ملک کے 5؍کروڑ لوگ دو وقت کی روٹی نہ ملنے کے باعث بچوں کو قتل کردیتے ہیں یا نہر میں بہا دیتے ہیں، یہ عقل تو ہمارے لوگوں میں ہے ہی نہیں کہ اوقات کے مطابق بچے پیدا کریں…پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں لوگوں کی دلچسپی کی اور کوئی صورت ہی نہیں ہے… بھائی، بہن کو لڑکے کے ساتھ دیکھ لے تو غیرت جاگ اٹھتی ہے اور مردانگی ہر سال بچے پیدا کرکے آسودگی پاتی ہے، میرے نوجوان مردم شماری کرنے والو یہ سب باتیں لکھ ڈالو۔



.
تازہ ترین