• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج جب میں کالم لکھنے بیٹھا تو میرے سامنے ایسے کئی اہم ایشوز کی لمبی فہرست تھی جن کے نتیجے میں سندھ انتہائی خطرناک حد تک متاثر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے‘ مثال کے طور پر سب سے اوپر میرے سامنے مردم شماری کا ایشو تھا جس کے دوران جس طرح سندھ کے عوام کے ساتھ ناانصافیاں ہورہی ہیں‘ اس پر میں لکھنا چاہتا تھا‘ اسی دوران پہلے سندھ کے دریا اور کینال گندے پانی سے بھرے ہوئے نظر آئے‘ یہ پانی نہ صرف سندھ کے لوگ پیتے ہیں مگر اس پانی پر فصل اگتی ہے اور اس کا اناج وغیرہ کھاتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ سندھ بھر میں چاروں طرف کئی خطرناک بیماریاں پھیل رہی ہیں‘ میں اس ایشو پر بھی لکھنا چاہتا تھا‘ اسی دوران پنجاب کے ڈیموں اور لنکس سے سندھ کے لئے پانی انتہائی کم مقدار میں چھوڑا گیا بلکہ اطلاع ہے کہ سندھ کے لئے پنجاب سے جو پانی چھوڑا جارہا ہے‘ اس کا کافی حصہ پنجاب میں ہی چوری ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ ایک بار پہلے بھی غالباً 1994 ء میں بھی سندھ کے حصے کا پانی چوری ہوا تھا مگر اب تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بشمول سندھ باقی دو چھوٹے صوبوں کو کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ میں اس ایشو پر بھی لکھنا چاہتا تھا‘ اسی دوران 4 اپریل کو شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی تھی‘ اس حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کا ایک مضمون میرے ہاتھ لگا ہے جس کے ذریعے بھٹو نے تیسری دنیا کی سربراہی کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز دی تھی‘ ابھی یہ مضمون برسر عام نہیں ہوا تھا کہ پی این اے کی تحریک شروع ہوگئی‘ بہرحال امریکہ کو بھٹو کے اس Move کا علم ہوگیا تھا لہذا بھٹو کی پھانسی کے پیچھے جہاں امریکی دبائو کے تحت کچھ دیگر اسباب تھے ان میں سے ایک سبب یہ بھی تھا۔ اسی دوران کچھ دنوں سے ہمارے ٹی وی چینلوں پر بھٹو کی برسی کے حوالے سے جو ٹاک شوز ہورہے تھے اس میں ہر کوئی حصہ لے رہا تھا اور کارآمد باتیں کہنے کے علاوہ کچھ ’’مہربان‘‘ بے بنیاد باتیں بھی اڑا رہے تھے۔ میں نے ایک رپورٹر کی حیثیت سے شہید بے نظیر بھٹو کو نزدیک سے دیکھا تھا اور اس وجہ سے میں شہید بے نظیر بھٹو کے حوالے سے کئی اہم واقعات کا عینی گواہ ہوں لہذا میں شہید بے نظیر بھٹو پر بھی کالم لکھنا چاہتا تھا، اتنی بڑی فہرست پر غور کر ہی رہا تھا تو بدھ 5 اپریل کو( جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا) تب ایک سندھی اخبار کی دو تین سطروں پر مشتمل خبر پر نظر پڑی اور جب اسے پڑھا تو دل اتنا دکھی ہوا کہ دل سے کئی سوال اٹھنے لگے کہ سندھ کے بارے میں ایسی آرا کیوں آگے لائی جارہی ہیں۔ سب سے پہلے میں یہ خبر من و عن یہاں پیش کررہا ہوں ’’دفاعی تجزیہ کار زید حامد نے سندھیوں کو نابینا‘ گونگے اور بہرے قرار دیدیا‘ ‘ خبر میں کہا گیا ہے کہ ’’شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر ٹوئٹ کے ذریعے تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو شہید ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آج انتخابات ہوں تو یقیناً سندھ میں صورتحال آج کے حالات سے مختلف نہیں ہوگی‘ ایک نابینا‘ گونگی اور بہری قوم کو چور اور ڈاکو ہی پسند آسکتے ہیں۔ یہاں میں یہ بات بھی ریکارڈ پر لاتا چلوں کہ سندھ کے عوام پہلے ہی ایک لسانی تنظیم کے کچھ رہنمائوں کی طرف سے سندھ کی تقسیم کرنے یا کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی باتیں ہونے پر کسی حد تک مشتعل ہیں‘ وہ سندھ کے دانشوروں کے اس موقف کی وجہ سے ضبط کا مظاہرہ کررہے ہیں کہ کراچی سمیت سندھ کے طول و عرض میں بسے اردو بولنے والے بھائی سندھ کو اپنی دھرتی تصور کرتے ہیں اور خود کو سندھی تصور کرتے ہیں‘ ان سندھی دانشوروں کیمطابق خاص طور پر کراچی کی سول سوسائٹی کے متحرک اردو بولنے والے بائیں بازو کے سیاسی رہنما‘ مزدور رہنما اور دانشوروں نے ہر لحاظ سے سندھ کی یک جہتی کی تحریک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے۔ان سندھی دانشوروں کے مطابق ان کو اور اردو بولنے والے ان دانشوروں کو سندھ کو بہت آگے لے جانا ہے‘ راستہ میں جو بھی سازشیں ہوتی ہیں ان کا اجتماعی طور پر مقابلہ کریں گے اور سندھ نہ صرف پاکستان بلکہ سارے ریجن کی قیادت کرے گا‘ بھٹو تیسری دنیا کی جو سربراہی کانفرنس بلانا چاہتے تھے ان کا یہ خواب پورا کرنا ہوگا‘ اسی طرح وہ وقت بھی آئے گا جب سندھ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی پہلی صف میں ہوگا۔ جہاں تک نام نہاد دفاعی تجزیہ کار کی رائے کا تعلق ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر سندھ کے عوام اسٹیبلشمنٹ سے یہ ضرور سوال کریں گے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ واقعی ایسے کم عقل اور بے وقوف قسم کے لوگوں کو بھی Portronise کرتی ہے؟ وقت آگیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ واضح طور پر ایسے عناصر کو Disown کرے اور ان کی زبانوں کو تالے لگائے‘ کیا ذوالفقار علی بھٹو شہید نہیں تھے‘ تو پھر حمود الرحمان کمیشن رپورٹ ظاہر کیوں نہیں کی جاتی ؟تاکہ ہر بات صاف ہوجائے‘ کیا سندھ اسمبلی میں پاکستان بنانے کی قرارداد پیش کرنے والے اندھے،بہرے اور گونگے تھے؟ آج یہ نام نہاد دفاعی تجزیہ کار ذوالفقار علی بھٹو کو شہید ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں جبکہ یہ بات اب ظاہر ہوچکی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے ججوں میں سے ایک جسٹس نسیم حسن شاہ نے یہ کہا کہ انہوں نے دبائو کے تحت بھٹو کی پھانسی کی سزا پر دستخط کیے۔ علاوہ ازیں دنیا بھر میں بھٹو کے کیس کو مرڈر آف کیس کہا جاتا ہے‘ جناب یہ قتل کا مقدمہ نہیں‘ مقدمہ کا قتل تھا‘ مگر کیا سندھ میں فقط ذوالفقار علی بھٹو شہید ہوا جسے ہمارے یہ نام نہاد دفاعی تجزیہ کار تسلیم نہیں کررہے ہیں۔ سندھ کے عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ سب سے پہلے اس بات کی تحقیقات کرائی جائے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا ایک ایمبولینس میں انتقال ہوا وہ قدرتی موت تھی یا قتل تھا،کتنے افسوس کی بات ہے کہ کافی عرصے سے ہمارے اعلیٰ حکام اس بات کو چھپاتے آئے ہیں کہ قائد اعظم ٹھٹھہ ضلع کے مقام جھرک میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے ابتدائی تعلیم بھی جھرک میں حاصل کی مگر ان ساری حقیقتوں پر اب تک پردہ پڑا ہوا ہے۔ امید ہے کہ میں اس سلسلے میں بھی حقائق پر مبنی کالم لکھوں گا۔ سندھ اسمبلی قرارداد ۔



.
تازہ ترین