• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف راحیل شریف کا اسلامک ملٹری الائنس کا بطور سربراہ تقرر ریاست کا فیصلہ ہے۔ جب سے جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بنے ہیں اور انہوں نے آصف غفور کو ملٹری کی پی آر ونگ کا انچارج بنایا ہے آئی ایس پی آر کے چیف نے اکثر وبیشتر اہم قومی فیصلوں پر یہی کہا ہے کہ یہ ریاست کے فیصلے ہیں۔اس سے سول اور ملٹری تعلقات کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے جو کہ ماضی سے کافی مختلف ہیں۔ آصف غفور نے کچھ عرصہ پہلے بھی کہا تھا کہ ضرب عضب کی کامیابی کا سہرا تمام ریاستی اداروں کے سر ہے، ردالفساد کا فیصلہ بھی ریاست کا ہے اور جہاں بھی ضرورت پڑی فوج حکومت کو مشورہ دے گی۔ جنرل (ر) راحیل شریف کی سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے الائنس کے ہیڈ کے طور پر تقرری کافی زیربحث رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ان کہ یہ عہدہ قبول نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس سے ان کی ساکھ جو انہوں نے بطور آرمی چیف کمائی تھی کو ٹھیس پہنچتی ہے جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ راحیل شریف کا اس اتحاد کا سربراہ بننے میں کوئی حرج نہیں ۔ جو لوگ اس فیصلے کے مخالف ہیں وہ دراصل اس الائنس کو فرقہ وارانہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے پیش نظر ایران اور سعودی عرب کے کشیدہ تعلقات ہیں۔ اس تقرری سے قبل پاکستان نے ایران کو اس بارے میں مکمل اعتماد میں لیا تاکہ پڑوسی ملک کے ساتھ کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو مگر پھر بھی اسلام آباد میں ایرانی سفیر نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار یہ کہہ کر کیا ہے کہ پاکستان کا ایران سے اس مسئلے پر بات کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تہران اس پر رضا مند ہوگیا ہے۔ جنرل آصف غفور نے یہ کہہ کر کہ سابق آرمی چیف کا یہ تقرر ریاستی فیصلہ ہے دراصل یہ پیغام دیا ہے کہ یہ پاک فوج کا فیصلہ نہیں ہے۔ تاہم عام طور پر یہ خیال کیا جارہا تھا کہ دراصل فوج ہی چاہتی ہے کہ راحیل شریف اس الائنس کے انچارج بن جائیں۔ یقیناً سابق آرمی چیف کی یہ خواہش تھی کہ وہ یہ عہدہ لے لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی حکومت نے بھی پاکستان سے اس بارے میں کئی بار بھرپور انداز میںدرخواست کی۔ جہاں تک نوازشریف حکومت کا تعلق ہے وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس مسئلے پر سعودی عرب کو ہلکا سا بھی ناراض کرے۔ ویسے بھی پاکستان نے سرکاری طور پر اب اعلان کر دیا ہے کہ وہ اس ملٹری الائنس کا ممبر ہے۔ آصف غفور کا یہ کہنا کہ اگر راحیل شریف کا تقرر فائدہ مند نہ ہوا تو انہیں واپس بلا لیں گے وضاحت طلب ہے ۔اس سے ان کا کیا مطلب ہے۔ یقیناً 41 ممالک کے اتحادکو دہشتگردی کے خلاف وہی اقدامات اٹھانے ہیں جن کا سعودی عرب کوفیصلہ کرنا ہے اور ریاض ایسا کرتے ہوئے اس الائنس کے ممبر ممالک سے مشورہ کرے گا۔ راحیل شریف اس اتحاد کے سربراہ ہوتے ہوئے کوئی انڈیپنڈنٹ فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ جہاں تک ان کا دہشتگردی کو ختم کرنے میں تجربے کا تعلق ہے تو وہ صرف پاکستان تک محدود ہے اور انہیں بین الاقوامی سطح پر اس کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔
آئی ایس پی آر کے چیف نے یہ بھی کہا ہے کہ پاناما کیس میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ قبول ہوگا۔ اس کے علاوہ نہ ہی ان کے ادارے اور نہ ہی کسی سیاسی فریق یا فرد کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہے۔ یہ فیصلہ حتمی ہوگا جس سے انکار ناممکن ہے۔ آئین اور قانون کے تحت اس کے خلاف اپیل کیلئے بھی کوئی فورم میسر نہیں ہے ہاں البتہ نظرثانی کی درخواست دائر کی جاسکتی ہے اور ایسی پٹیشنز میں عدالت کے اصل فیصلے کو تبدیل نہیں کیا جاتا۔ سپریم کورٹ میں یہ کیس جانے سے پہلے کئی بار وزیراعظم نوازشریف اعلان کر چکے ہیں کہ اس مسئلے پر کسی عدالت یا کمیشن کا فیصلہ ان کیلئے قابل قبول ہوگا۔ جب عدالت عظمیٰ نے اس کیس کی سماعت مکمل کر لی تو اس کے بعد بھی کئی حکومتی وزراء بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلہ چاہے کچھ بھی ہو قبول کریں گے۔ اس مقدمے کے بڑے فریق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ بھی فیصلے کو قبول کریں گے۔ تاہم انہوں نے ایسا ہی اعلان اس وقت بھی کیا تھا جب عدالتی کمیشن نے ان کے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر کارروائی شروع کی تھی مگر جب اس کا فیصلہ آ یا تو انہوں نے اس کے خلاف شور مچانا شروع کر دیا تھا۔ وہ اب بھی اس بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی باوجود اس کے کہ ان کے تمام الزامات بار بار مختلف فورمز پر مسترد ہو چکے ہیں۔ اب پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق نے بھی ایک پرانا شوشا جو عمران خان پہلے کئی بار چھوڑ چکے ہیں دہرایا ہے جس میں انہوں نے سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کو موردالزام ٹھہرایا ہے کہ انہوں نے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کرائی تھی۔ جب بہت شورہوا تو انہوں نے یہ کہہ کر اس بیان سے جان چھڑانے کی کوشش کی کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے نہ کہ جماعت کی۔ قوی امکان یہی ہے کہ پاناما کیس میں فیصلہ آنے کے بعد بھی پی ٹی آئی دوبارہ احتجاج کرے گی جس کا مقصد یقیناً 2018ء کے انتخابات میں فائدہ اٹھانا ہوگا۔ عمران خان نے اب تازہ اعلان یہ کیا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف نئی مہم شروع کر رہے ہیں معلوم نہیں کہ یہ کس حکومتی فیصلے کے خلاف ہے جبکہ سپریم کورٹ کو ابھی پاناما کیس میں اپنا فیصلہ دینا ہے جس کا سب کو بڑی شدت سے انتظار ہے۔
لاہور میں مردم شماری کی ٹیم پر دہشتگردوں کے حملے کا مذموم مقصد پاک فوج کے جوانوں کو نشانہ بنانا اور ملک میں خوف وہراس پھیلانا ہے کیونکہ یہ پاک فوج ہی ہے جوآپریشن ردالفساد کے ذریعے باقی ماندہ دہشتگردوں کا بھرپور انداز میں خاتمہ کر رہی ہے۔ ان مجرموں کو یہ معلوم ہے کہ ایسے اقدامات سے مردم شماری تو رکنے والی نہیں کیونکہ ہر حکومتی ادارے کا یہ مصمم ارادہ ہے کہ اسے ہر صورت مکمل کرنا ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ تو صحیح پلاننگ ہوسکتی ہے اور نہ ہی صحیح اعدادوشمار معلوم ہوسکتے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ خفیہ اداروں کی اطلاعات تھیں کہ مردم شماری کی ٹیموں پر حملے ہوسکتے ہیں مگر بدھ کے روز لاہور میں ہونے والے خودکش حملے کو نہیں روکا جاسکا۔ اس بارے میں متعلقہ اداروں سے پوچھ گچھ ہونا ضروری ہے۔ اس حملے کے بعد آرمی چیف نے صاف طور پر کہا ہے کہ مردم شماری کا عمل ہر صورت مکمل کیا جائے گا کیونکہ یہ ایک قومی فریضہ ہے ۔ اگر 15 مارچ کو 63 اضلاع میں شروع ہونے والی مردم شماری کے بہت جامع عمل کو دیکھا جائے تو یہ عام طور پر پرسکون طریقے سے جاری ہے اور دہشتگرد اور پاکستان مخالف عناصر اس کو سبوتاژ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دہشتگرد اکا دکا واردات تو کر لیتے ہیں مگر ان کو جتنا نقصان اب تک ہو چکا ہے وہ اس قابل نہیں ہیں کہ ملک میں بہت زیادہ افراتفری پیدا کرسکیں۔ لاہور میں ہونے والی دہشتگردی کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار نے بھی قبول کی ہے جس کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں ہیں۔ پاکستان نے افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی روکنے کیلئے کئی اقدامات کئے ہیں مگر جب تک افغان حکومت مکمل طور پر تعاون نہیں کرے گی یہ مسئلہ ہمارے لئے درد سر بنا رہے گا۔



.
تازہ ترین