• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افریقہ کے جنگل میں مفاسا نامی ببرشیر کی حکومت تھی جس کا پولیٹکل ایڈوائزرایک بندر رفیقی تھا۔مفاساکہنے کوتو ایک خونخوار ببرشیر تھا لیکن وہ اپنی رعایا کے ساتھ چونکہ نیک برتائو کرتاتھا اسلئے وہ دلوں پر راج کررہاتھا۔جنگل کے سبھی جانور حقیقی معنوں میں مفاسا کو اپنا قائدمانتے تھے لیکن اس کا اپنا چھوٹا بھائی جس کانام سکار تھا وہ اس کا دھڑن تختہ کرکے خود بادشاہ بننا چاہتا تھا اور اس کے لئے آئے دن سازشوں میں مصروف رہتاتھا۔ایک دن یہ ’’انکل سام‘‘ اپنے کم سن بھتیجے سمبااور اس کی منگیتر نالاکوبہلاپھسلا کرریاست کے اس علاقے میں لے جاتاہے جہاں جانے پر پابندی ہوتی ہے ۔یہ نحس اور خطرناک علاقہ ’’ہاتھیوں کے قبرستان ‘‘ کے نام سے مشہور ہوتاہے۔جہاں بہت سے لکڑبگڑ ننھے شیر سمبااور اس کی منگیتر نالاپر حملہ آور ہوتے ہیں لیکن مفاسا بروقت موقع واردات پر پہنچ کر اپنے ولی عہد اور شہزادی کی جان بچا لیتاہے۔ چند روز بعد سکار ایک فول پروف سازش تیار کرتا جس میں وہ کامیاب ہوجاتاہے۔منصوبہ بندی کے مطابق وہ ننھے سمبا کو پہاڑکی چوٹی کے اس حصے پر لے جاتاہے تاکہ سینکڑوں بھینسے اسے روند ڈالیں ،یہاں بھی بہادر مفاسا اپنے بیٹے کی جان تو بچا لیتا ہے لیکن خود جان کی بازی ہار جاتاہے۔مرنے سے قبل اس پر یہ راز کھلتاہے کہ اس کا قاتل اس کا سگاچھوٹا بھائی ہے۔ ببرشیر کی ہلاکت کے بعد چچا سکار اپنے بھتیجے سمباکو یہ باور کراتاہے کہ جنگل کا بادشاہ اور اس کا والد مفاسا اس کی غلطی کے باعث ہلاک ہواہے لہذا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ریاست چھوڑ دے ۔بادشاہ اور ولی عہد کو اپنے رستے سے ہٹانے کے بعد سکار جنگلی رعایا کو بتاتاہے کہ دونوں باپ بیٹا حادثے میں ہلاک ہوگئے ہیں لہذا اب اسے بادشاہ تسلیم کیاجائے۔ یہ کہانی ڈزنی کی مشہور اینی میٹیڈ فلم THE LION KING کی ہے ۔مذکورہ فلم1994میں نمائش ہوئی جسے بچوں کی دلچسپی کیلئے بنایاگیاتھالیکن بڑوں نے بھی اسے شاندار قراردیا ۔
کارٹون اوراینی میٹڈ فلموں کے کرداروں کی حرکات وسکنات عموماََ انسانوں کی طرح دکھائی جاتی ہیں لیکنTHE LION KINGکاسب سے بڑا کمال یہ ہے کہ شیر ،ببرشیر ،لکڑ بگڑ ،بندر ،لومڑ،طوطے اوردیگر جنگلی جانوروں کے جذبات واحساسات کی عکاسی کرتے ہوئے پرفارمنس عروج پر ہے۔ یہ کردار جب رومانس کرتے ہیں تو شومین راجکپور کی طرح نیچرل لگتے ہیں اور دکھ ،درد کی سچویشن میں یہ کنگ آف ٹریجڈی دلیپ کمار کے فالورز دکھائی دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سارے کردار محض Images(تصویریں ) ہیں اصل داد وتحسین تو ان پیشہ وروں کیلئے ہے جنہوں نے بے جان تصویروں سے یہ شاہکار تخلیق کیا۔بچے ہوں یابوڑھے سبھی کو بادشاہوں کی کہانیوں میں بڑی دلچسپی رہی ہے۔بادشاہ کی زندگی کمرشل مسالہ فلم جیسی ہوتی ہے جس میں گرینجراور گلیمرکے ساتھ سسپنس ،ایکشن اور تھرل جیسے لوازمات بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں۔یوں تو بادشاہ قدیم دنیا کا کردار ہے لیکن غورکیاجائے توآج بھی محکوم طبقات کو بادشاہوں اور بادشاہت سے نجات نہیں ملی ۔ جدید دنیا میں جب بادشاہت کی جگہ جمہوریت اور پارلیمانی نظام متعارف ہوئے تو بادشاہ کے کردار میں بھی تبدیلی واقع ہوئی۔ بادشاہ کی ہمیشہ سے یہ پرابلم ہوتی ہے کہ اسے رحم دل،نیک دل ،انصاف پسند اورسخی کہلاناہوتاہے ۔ پرانے وقتوں میں یہ امیج میکنگ بادشاہ کا میڈیاآسانی سے کرلیتاتھا۔سکندر اعظم کی وزارت اطلاعات ونشریات کہنہ مشق اسٹاف پر مشتمل تھی جس میں جسٹنJustin،پلوٹارک Plutarch، ڈیوڈوروس Diodoros، کرٹیسCurtius اور ایریان Arrian جیسے سرکاری ودرباری وقائع نگار ،مورخین اور دانشور موجود تھے۔ ظاہر ہے اس قدر مضبوط اور مربوط میڈیاکے ہوتے ہوئے پورس تو جیتی ہوئی جنگ بھی ہارجاتا۔ڈاکٹر بدھ پرکاش کی ریسرچ ہے کہ سکندر اور پورس دونوں نے ایک آبرومندانہ انداز میں صلح کی اور ایک دوسرے کے حلیف بن گئے تھے لیکن بعد ازاں یونانی مورخین نے سکندر کو فاتح اور پورس کو مفتوح قرار دیا۔ آج بھی بعض وقائع نگار اوردانشور آرڈر پرمال تیارکرنے کی مصداق یہ کارنامے سرانجام دے رہے ہیں۔
پرانے وقتوں میں لکھی گئی کہانیوں میں بادشاہوں اور شیر وں سے متعلق مخصوص تصورات پائے جاتے تھے۔رام چندر سے لے کر گوتم سدھارتھ اور فرعون سے لے کر راون تک سبھی بادشاہ تھے ۔ ایک کامیاب کہانی یا داستان میں رام اور راون کے کرداروں کا ہونا لازمی امر ہے۔ شیر کا اپنا علاقہ ہوتاہے اور بادشاہ کی اپنی Constituency ہوتی ہے جسے حلقہ انتخاب بھی کہتے ہیں،حلقہ انتخاب چکری ہوتو سیاسی مخالف کی ضمانت ضبط کرانے کی بڑھک بھی لگائی جاسکتی ہے ۔جنگل میں قبل ازالیکشن سروے رپورٹوں سے شیروں کی مقبولیت جانچنے کا رواج نہیں ہوتالیکن ہماری سیاست میںیہ سب کچھ چلتا ہے ۔ایک حالیہ سروے میں تخت لاہورمیں شامل این اے حلقہ 124,122اور121کے ووٹروں نے میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف کو پاکستان کی ترقی کا ضامن قرار دیا ہے ۔سروے کے مطابق عمران خان اگرچہ ایماندار سیاستدان ہیں مگر مذکورہ حلقوں کے عوام سمجھتے ہیں کہ دھرنوں اور احتجاج کی سیاست سے ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں کیاجاسکتا۔یہ وقائع نگاروں اور دانشوروں کا کمال ہے کہ وہ کسی لیڈر کے ’’ شخصی پیکج ‘‘ میں ایمانداری جیسی بنیادی صفت کو غیر اہم اور اضافی قراردیں۔ زمانہ قدیم سے بادشاہ اورشیر انسانوں کے لئے عجوبہ رہے ہیں۔نیشنل جیوگرافک پر دکھائی جانے والی مختلف ڈاکومینٹریز سے ثابت ہوگیاکہ شیر اور ببر شیر کے بارے میں پائے جانے والے بہت سے تصورات من گھڑت ہیں۔کہانیوں میں بیان کیاگیاہے کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پانچ چھ لکڑ بگڑ اگر ’’کولیشن ‘‘ بنا لیں تو لینچ اورڈنر پارٹی کے لئے شیر کے گوشت کی چانپوں اور پٹھ کے باربی کیوسے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔شیر اور ببرشیر کا ذاتی کردار یہ ہے کہ وہ ہاتھی ،گینڈے ،زرافے جیسے بڑے جانور تو ایک طرف جنگلی بھینس کے شکار کے لئے بھی باقاعدہ ’’نیٹوفورس‘‘ قائم کرتے ہیں۔بہت سے شیر اور ببرشیر باقاعدہ دستوں کی شکل میں شکار کرتے ہیں۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جنگلی بھینسے اور لکڑبگڑ اگر اکٹھے ہوجائیں تو وہ جنگل کے خود ساختہ بادشاہ کو بھگاکر بڑھکیں بھی لگاتے ہیں۔
مادہ شیرنی تین سے چار بچوں کو جنم دیتی ہے۔ شیراورشیرنی اس وقت تک اپنے بچوں کی نگرانی کرتے ہیں جب تک وہ چھوٹاموٹا شکار کرنے اور گوشت کھانے کے قابل نہیںہوجاتے۔اس کے برعکس بادشاہ تمام عمر اپنے بچوں کے لئے دولت کے انبار اکٹھے کرتے رہتے ہیں۔مثل ہے کہ ’’کھلائے سونے کا نوالہ ٗ دیکھے شیر کی نظر‘‘ لیکن دیکھاگیاہے کہ اپنے بچوں کو سونے کے نوالے تو کھلائے گئے مگر شیر کی آنکھ سے دیکھنے کی بجائے انہیں کھل کھیلنے کے سنہری مواقع مہیاکئے جاتے ہیں۔ THE LION KINGکی کہانی میں سمبا اپنے ملک کا دوبارہ بادشاہ بن جاتاہے سیاسی اسٹوری میں کیاہوگااس کا سبھی کوانتظار ہے ۔ڈمپل کپاڈیہ نے فلم ’’بوبی ‘‘ میں اپنے محبوب رشی کپور کوبچاتے اوراپنے آپ کو شیر کے رحم وکرم پرچھوڑتے ہوئے کہاتھاکہ …شیر سے میںکہوں تم کو چھوڑ دے…مجھے کھاجا…



.
تازہ ترین