• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم بچپن میں نابینا گداگروں کو کورس میں یہ صدائیں لگاتے دیکھا کرتے تھے ’’آنکھوں والو ،آنکھیں بہت نعمت ہیں‘‘ کل ایک دوست میری طرف آیا اور آتے ہی بہت پرسوز لَے میں یہ صدا لگائی ’’دانتوں والو، دانت بہت نعمت ہیں ‘‘ مجھے اس کی اس ’’گائیکی‘‘ پر ہنسی تو آئی مگر پھر میں نے سوچا کہ میرے اس دوست کو کوئی پرابلم تو ہو گا جو اتنے پرسوز لہجے میں دانتوں کی دہائی دے رہا ہے ، چنانچہ میں سنجیدہ ہو گیا اور پوچھا ’’ملک صاحب، خیریت تو ہے آج آپ کو دانت کیوں یاد آ رہے ہیں ؟‘‘ بولے ’’بھائی بہت دکھ بھری کہانی ہے سننے کا حوصلہ ہے تو سن لو‘‘ میں نے کہا ’’ارشاد‘‘ یہ لفظ بولتے ہوئے میں بھول گیا تھا کہ ملک صاحب شاعر بھی ہیں فرمایا ’’آپ نے فرمائش کی ہے تو عرض کیا ہے .....‘‘ پیشتر اس کے کہ وہ اپنی غزل بلکہ سہ غزلہ سناتے، میں نے انہیں وہیں ٹوک دیا اور کہا ’’جناب میں نے ’’ارشاد‘‘ آپ کی دانتوں کے حوالے سے دکھ بھری کہانی سنانے کے لئے کہا تھا ،آپ وہ سنائیےملک صاحب بولے ’’برادر آپ خود دانتوں والے ہیں چنانچہ آپ میرا دکھ سمجھ سکتے ہیں دو ہفتے پہلے میں ایک ڈینٹل سرجن کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ میری دائیں جانب کی ایک داڑھ درد کر رہی ہے انہوں نے فرمایا منہ کھولو، میں نے کھول دیا کہنے لگے اور کھولو، میں نے مزید کھول دیا حکم دیا کوشش کرکے مزید کھولو، مگر اس کے آگے میں جا نہیں سکتا تھا سو انہوں نے اپنے ایک اوزار سے داڑھ کو ٹھونک بجا کر دیکھا اور بولے ’’آپ کی داڑھ میں کیڑا ہے یہ نکالنی پڑے گی میں کیا کہہ سکتا تھا چنانچہ انہوں نے وہ داڑھ نکال دی مگر درد بدستور قائم رہا میں نے شکایت کی تو کہنے لگے ’’کیڑے والی داڑھ تو میں نے نکالی ہی نہیں پہلے وہ نکالنا ضروری تھی جو میں نے نکالی ہے کیونکہ برابر والی داڑھ کا کیڑا آپ کی اس داڑھ کو بلاوجہ تنگ کر رہا تھا چنانچہ انہوں نے دوسری داڑھ بھی نکال دی ۔
اس دوران مجھے ملک صاحب آبدیدہ نظر آئے میں نے انہیں اپنا رومال پیش کیا اور کہا ’’آنسو پونچھ کر داستان مکمل کریں ‘‘ان کی داستان خاصی طویل تھی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ڈاکٹر نے دس بارہ دنوں میں ایک ایک کرکے ان کی اوپر کی چھ داڑیں اور نیچے کے چار دانت نکال دیئے ،اور آخر میں کہا کہ آپ کو اب ڈینچرکی ضرورت ہے وہ بنوالیں اس کے علاوہ چارہ بھی کوئی نہیں تھا کیونکہ کچھ کھایا ہی نہیں جا رہا تھا ڈینچر بھی تیار ہو گیا مگر ڈینچر ٹھیک نہیں بنا پہلے تو کھایا نہیں جا رہا تھا اب اس کی وجہ سے پیا بھی نہیں جاتا ،پینے کی وضاحت انہوں نے خود کر دی ان کی مراد سگریٹ پینے سے تھی اور بقول ان کے جب وہ سگریٹ کا کش لیتے تھے تو دانتوں میں سے ایک ٹیس سی اٹھتی تھی اب وہ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ دانتوں کا کوئی اچھا ڈاکٹر تمہاری نظر وں میں ہو تو بتائو ....اس صورتحال میں ،میںکیا کہہ سکتا تھا سوائے اس کے کہ دوبارہ انہیں اسی ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیتا تاکہ جہاں ستیاناس ہوا ہے وہاں سوا ستیاناس ہو جائے!
اب اس سارے معاملے پر میرا تبصرہ بھی سن لیں ہم لوگ بار بار دھوکہ کھانے کے عادی ہو چکے ہیں بندہ پوچھے بھائی صاحب جب آپ کو اپنے ڈاکٹر صاحب کی اوقات پہلے ہی دن معلوم ہو گئی تھی اس کے بعد اس ’’عطار کے لونڈے‘‘ کے پاس کیا لینے جاتے رہے؟ معاملہ صرف ڈاکٹر ہی کا نہیں ہے سیاسی اور غیر سیاسی ’’ڈاکٹروں ‘‘ کا بھی ہے ہم نے پہلے ’’قومی یکجہتی ‘‘ کے لئے ’’ون یونٹ‘‘ بنایا جس کے نتیجے میں پہلے سے موجود یکجہتی بھی پارہ پارہ ہوتی چلی گئی اور بالآخر ایک وقت آیا کہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔آمریت نے بھی برسوں ہمارے ہاں ڈیرے ڈالے رکھے اور ہمارے سادہ لوح عوام میں سے کچھ ایوب خاں اور کچھ ضیاء الحق کے ابھی تک مداح موجود ہیں حالانکہ ہماری 75فیصد بربادی جمہوریت پر کبھی آدھے اور کبھی پورے شب خون کی وجہ سے ہوئی ۔ہمارے سادہ لوح عوام نے پی پی پی کو اپنے دکھوں کا مداوا ایک سے زیادہ بار سمجھا اور اس کا خمیازہ بھگتے چلے گئے ۔عمران خان بار بار اپنا موقف بدلتے ہیں مگر ان کے چاہنے والے ان کا ساتھ دیئے چلے جا رہے ہیں۔ خدا خدا کرکے ملک میں جمہوریت آئی ہے مگر میڈیا کا ایک طبقہ اس کے ثمرات سے عوام کو محروم رکھنا چاہتا ہے اور پوری قوم کو پاناما کے حوالے سے ایک ہیجان میں مبتلا کئے ہوئے ہے ۔
بات یہ ہے کہ پیٹ سب کے ساتھ لگا ہوا ہے کوئی اپنی آتش شکم رزق حلال سے اور کوئی رزق حرام سے بجھاتا ہے ۔اور اپنی ذاتی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہم پاکستان کو دائو پر لگا دیتے ہیں دانت اللہ کی نعمت ہیں، خدارا ان کا استعمال احتیاط سے کریں اور ملکی مفاد کو دانتوں تلے نہ آنے دیں ،ورنہ ایک وقت آئے گا کہ میرے دوست ملک صاحب کی طرح منہ میں ایک دانت بھی نہیں رہے گا !



.
تازہ ترین