• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوال تو یہ نفسیات کے ماہرین سے پوچھنا چاہیے، لیکن قارئین سے بات کرنے میں کیا حرج ہے؟ اگر آپ کے مشاہدے میں کوئی ایسا شخص آئے جس نے برس ہا برس تکلیف میں سفر کیا ہو، دھوپ کی شدت بھی برداشت کی ہو، طوفانوں کی سختی سے بھی گزرا ہو، راتوں کو بھیانک ویرانوں سے بھی گزرا ہو، جنگلی درندوں سے بھی جان بچائی ہو،جسے کئی سانپوں نے ڈسا ہو، دشمنوں نے جس کا ہر لمحے تعاقب کیا ہو اور دوستوں نے بھی بے وفائی کی ہو، جس کا زاد سفر بھی کھو گیا ہو، منزل کا نشان تو چھوڑیئے اگلے لمحے کی جسے خبر نہ ہو ۔ ایسے دشوار سفر کے بعد اگر اس مسافر کو اچانک کوئی خضر راہ مل جائے ، نرمی سے ہاتھ تھام لے، سائے میںبٹھا کر پانی پلائے، کمر پر حوصلہ افزائی کی تھپکی دے، ساتھ چلنے کا وعدہ کرے، محفوظ اور درست راستے کا نشان دے، منزل کی سمت متعین کرے تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ ادھ موا، خوفزدہ اور اپنوں ہی سے ڈسا ہوا مسافر اس خضرراہ پر یقین کر لے گا؟ اس کی ہمسفری قبول کر لے گا؟ پورے اعتماد کے ساتھ اس کے ساتھ ہم سفر ہو گا؟
ایک مدت کے بعد ملک میں جمہوریت کی بیل منڈھے چڑھ رہی ہے۔ ایک جمہوری دور ختم ہونے کے بعد دوسرا جمہوری دور اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ گزشتہ چار سالوں میںکچھ وہ کام ہوئے ہیں جنکا حوصلہ پہلے کسی کو نہیں ہوا۔ اب معیشت استحکام کی طرف جا رہی ہے۔ شاہراہیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ بین الاقومی سرمایہ کاری اس ملک میں آ رہی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کا عفریت دم توڑ رہا ہے۔ ادارے مستحکم ہو رہے ہیں۔ پارلیمان فیصلہ کن ہوتے جا رہے ہیں۔ صوبوں کے درمیان ترقی کی دوڑ لگی ہے، دہشت گردی بتدریج کم ہو رہی ہے۔ فرسودگی دم توڑ رہی ہے، جدت شعار بن رہی ہے۔جمہوری ادارے ، جمہوری روایات اور ایک نیا اور مثبت بیانیہ منظر عام پر آ رہاہے۔ شفاف ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، انتخابی اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ پارلیمانی کمیٹیوں کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ ترقی کے منصوبوں کا افتتاح ہو رہا ہے۔حکومتیں جن شعبوں میں ناقص کارکردگی دکھا رہی ہیں، عوام ان پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ کھلے عام تنقید ہو رہی ہے۔ ترقی کے بہت سے کام عوام کے ایما پرہو رہے ہیں۔ جمہوریت نوزائیدگی سے نکل کر لڑکپن میں داخل ہو رہی ہے۔ روشن مستقبل منظر ہو رہا ہے اور کربناک ماضی قصہ پارینہ بن رہا ہے۔
پہلی دفعہ محاورے کے علاوہ فوج اور سول حکومت ایک پیچ پر نظر آ رہی ہے۔جمہوریت اور جمہوری قدروں کو فوج کی جانب سے جلا بخشی جا رہی ہے۔ ماضی کے ڈکٹیٹروں کی رعونت کے سوا اس دفعہ کچھ انو کھی بات ہو رہی ہے۔ پاک فوج اور سول حکومت مل کر پارلیمان کی حرمت کے لئے کام کر رہی ہیں۔ شنید ہے کہ افواج پاکستان کو بھی اعلیٰ فوجی قیادت کی جانب سے جمہوریت کے احترام کا سبق دیا جا رہا ہے۔ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جا رہی۔ سیاستدانوں کی ہزیمت نہیں کی جا رہی۔ من مانی سے اجتناب برتا جا رہا ہے۔اسمبلیوںکی توہین کی کوئی کاوش نظرنہیں آ رہی۔ ووٹ کا احترام کیا جا رہا ہے۔ عوامی امنگوں کا لحاظ ہو رہا ہے۔ یہ اس ملک کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہی طرز عمل اس ملک کو خوشحال بنائے گا، یہی طو ر طریقے ترقی کی منزل کی جانب لے جائیں گے۔
دہائیوں سے دہشت گردی اس ملک کا سب سے بڑاالمیہ رہی ہے۔ روز لوگ مرتے رہے اور روز ہی ہم لاشے اٹھاتے رہے۔ ہمارے پاس ان درندوں کو جواب دینے کے لئے سوائے ماتم کے کچھ نہیں تھا۔ پھر پاک فوج کی جانب سے پہلے ضرب عضب کا آغاز ہوا۔ پہلی دفعہ دہشت گردوں کے خلاف ایک باقاعدہ منظم کارروائی کا آغاز ہوا۔ اس بے مثال آپریشن کی کامیابی اس ملک کی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ جنرل باجوہ کے قیادت سنبھالنے کے ساتھ ہی اس آپریشن میں مزید شدت آگئی۔ ضرب عضب اب آپریشن رد الفساد تک پہنچ گیا۔ اب تمام دہشت گردوں کو فساد کی جڑ قرار دے دیا گیا۔ بہادر افواج پاکستان نے چن چن کر ان ظالموں کو واصل جہنم کرنا شروع کرد یا۔ ملک کے طول وعرض میں ہر جگہ ان شرپسندوں کو تلاش کر کے مارا گیا۔ مردم شماری بھی فوج کی زیر نگرانی کروائی جا رہی ہے۔ ہمارے بہادر جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس اہم قومی ذمہ داری کو سر انجام دے رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دائرہ پہلی دفعہ سرحدوں کو بھی عبور کر گیا۔افغانستان میں بھی ان درندوں کے ٹھکانوں کونشانہ بنایا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں سول حکومت کی سربراہی میں افواج پاکستان نے وہ کارنامے کئے جو سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔
جب سب کچھ اچھا نظر آ رہا ہو تو ضروری نہیں سب کچھ ہی اچھا ہو گیا ہو۔آج کے دور کے بے مثال سول ملٹری تعلقات کچھ شر پسندوں کو پسند نہیں آ رہے۔ چھوٹی چھوٹی بات کو بڑا بنا کر پیش کر کے اس توازن میں عدم استحکام کی کوشش اب بھی ہو رہی ہے۔گزشتہ چند ہفتوں کے چند واقعات ہی اس بات کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ نو مارچ کو ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس میں اگر ڈان لیکس کا ذکر ہو بھی گیا تھا تو کونسی قیامت آگئی تھی ؟ انتیس مارچ کو حسین حقانی کے سراسر سیاسی مسئلے پر اگر ایک ٹوئٹ آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی آگئی تو اس سے کوئی خاص فرق تو نہیں پڑتا، اکتیس مارچ کو اگر عمران خان اپنی منشا سے چیف صاحب کو تقرری کے چار ماہ بعد، بالمشافہ مبارکباد دینے چلے ہی گئے تو اس ملاقات کے حوالے سے ایک ٹوئٹ کرنے سے کیا ہی نقصان ہو گیا؟ یہ درست ہے کہ کسی دوسری جماعت کے سربراہ کو ابھی تک اذن باریابی نصیب نہیں ہوا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اس چھوٹی سی بات کو فوج کی جانب سے سیاسی امور میں مداخلت سمجھا جائے۔اسی طرح تین اور چار اپریل کی درمیانی رات کو اگر ٹوئٹر پر ساری رات چیف صاحب کے لندن کے دورے کے حوالے سے ٹرینڈ ٹاپ پر رہا تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور اس کا اظہار بھی ہوتا ہے۔تازہ ترین قصہ تو یہ ہے کہ اگر لندن میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ کہہ دیا کہ پاناما کے سلسلے میں ہمیں عدالت کا ہر فیصلہ منظور ہو گاتو کیا ہم اسکو کار سرکار میں مداخلت تصور کر لیں؟ معزز عدلیہ کو ہلہ شیری دینا سمجھ لیں؟
ایسی باتوں کو ہوا مخصوص ناخوش طبقے کی جانب سے دی جا رہی ہے یا پھر میڈیا کے نام نہاد دانشور ریٹنگ کے چکر میں اسے سول ملٹری تعلقات میں عدم استحکام قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سول ملٹری تعلقات معمول پر آ رہے ہیں۔ پہلی دفعہ صورت حال تصادم نہیں بلکہ تعاون کی خبر دے رہی ہے۔ جو کہ اس ملک میں جمہوریت کے استحکام کی ضمانت ہے۔ رہا سوال حکومتی حلقوں کی جانب سے تشویش کا تو اس کے لئے اس کالم کا پہلا پیراگراف دوبارہ پڑھ لیں۔




.
تازہ ترین