• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگلے انتخابات کی آمد آمد ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے۔ ملاقاتیں جاری ہیں، کچھ خفیہ رہ جاتی ہیں اور کچھ افشا ہو جاتی ہیں۔ کوئی ملاقاتیں براہ راست ہوتی ہیں اور کچھ ملاقاتیں سہولت کاروں کے ذریعے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں پر ہائیکنگ کرنے نکل پڑیں تو چہار سو چڑیاں چہ میگوئیاں کرتی سنائی دیتی ہیں۔ پانامہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا؟ آصف زرداری اور اسٹیبلشمنٹ کی کوئی ڈیل ہو گئی ہے؟ عمران خان اور آرمی چیف کی ملاقات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس ملاقات کی ظاہری توجیہ برطرف، اصل مدعا کیا تھا؟ یہ ملاقات افشاکیوں کی گئی؟ چیف جسٹس کو کیوں کہنا پڑا کہ ججز کسی کے دبائو میں آنے والے نہیں اور یہ کہ سپریم کورٹ کے بارے میں وسوسوں کا کوئی جواز نہیں؟ وزیر اعظم سے ڈی جی آئی ایس آئی کی ملاقات میں کونسے اہم امور زیر غور آئے؟ عمران خان کی طرف سے جنرل راحیل کی اس اتحاد میں شمولیت کی کھلے بندوں مخالفت کے اصل محرکات کیا ہیں؟ مستقبل کے مواقع کھلنے کی امید ہے یا ماضی کی کوئی رنجش کہ عمران خان جو اس طرح کے معاملات میں ہونٹ سی لیتے ہیں، کھل کر سامنے آئے ہیں؟ جنرل راحیل کی سعودی اتحاد کی سربراہی حکومت کیلئے اتنی ضروری کیوں ہے کہ اچانک وزارتِ خارجہ کو پاکستان کی اس اتحاد میں شمولیت کا اعلان کرنا پڑا؟ حسین حقانی کے آرٹیکل پر اس وقت پیالی میں طوفان اٹھانے کی ضرورت کسے اور کیوں محسوس ہوئی، اور اس طوفان سے کس کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ کیا نواز شریف اور آصف زرداری میں ڈیل ہو گئی ہے یا صحافتی اور سیاسی پراکسیز کے ذریعے اس کا تاثردینے کی کوشش ہو رہی ہے؟ ایان علی، ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن پر اچانک قدرت مہربان ہو گئی ہے یا یہ کسی دنیاوی نظرِ کرم کی کارستانی ہے؟ اور اگر اس کے پیچھے کوئی دنیاوی قوت کارگر ہے تو وہ کونسی ہے اور وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے؟ کیا واقعی عدلیہ آزاد ہو چکی ہے یا اب بھی کچھ مخصوص قوتیں اسکے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟
اسلام آباد کے ایوان ہائے اقتدار پر سایہ کرنے والی مارگلہ کی پہاڑیاں ان گنت چڑیوں کا مسکن ہیں، جو سارا دن ٹکٹکی باندھے ان ایوانوں میں ہونے والی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کرتی ہیں۔ جب کبھی ان ایوانوں میں ہلچل مچتی ہے تو یہ چڑیاں بھی بے تاب ہو جاتی ہیں، چہ میگوئیاں شروع کر دیتی ہیں۔ شام کو خبروں کے متلاشی جب ان پہاڑیوں کا رخ کرتے ہیں تو کچھ نہ کچھ بھنک پڑ جاتی ہے کہ کیا ہو رہا ہے، کوئی صاحبِ کمال ایسا ہو جو چڑیوں کی بولی سمجھ سکے تو یہ چڑیاں اس کے کان میں سرگوشی بھی کر دیتی ہیں جو اگلے روز کسی پرائم ٹائم ٹاک شو میں آپکی سماعتوں کی نذر بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن کچھ دوست ایسے بھی ہوتے ہیں جو چڑیوں کی بولی سمجھنے کا سوانگ بھرتے ہیں اور اپنے اندازوں کو افواہوں کی شکل دے کر کام چلا لیتے ہیں۔
اصل گیم ہو کیا رہاہے؟ آثار بتاتے ہیں کہ چہرے بدلے بدلے سے ہیں، کردار بدلے بدلے سے ہیں، انداز بدلے بدلے سے ہیں، لیکن پیار کا سلسلہ وہی پرانا ہے۔ اشرافیہ کے مختلف حلقے عوام کے مینڈیٹ پر ضرب لگانے کیلئے ایک دفعہ پھر متحرک ہو گئے ہیں۔ اگلا انتخاب کون جیتے گا، اس کا فیصلہ آپ کے ووٹ نہیں کریں گے بلکہ اس وقت اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی جوڑ توڑ اس کا فیصلہ کرے گی۔ اور جوڑ توڑ کا بنیادی فریم ورک یہ ہوتا ہے کہ کسی کھلاڑی کو اقتدار، اختیار اور قومی دولت کے کیک کا کتنا حصہ ملے گا؟ اس وقت جو سرگرمی نظر آ رہی ہے اسی طرح کی سرگرمی 2012 میں جاری تھی۔ اپریل 2012 میں، انتخابات سے ایک سال قبل کچھ اسی طرح کے حالات تھے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں پر چڑیوں نے آسمان سرپر اٹھایا ہوا تھا۔ ہر کسی کی نظریں سپریم کورٹ میں چلنے والے کیس پر تھیں۔ سپریم کورٹ میں ایک بہت اہم پٹیشن داخل کی گئی تھی، جس کے فیصلے نے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کو بدل ڈالا۔ برادرم حفیظ نیازی ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف سے پہلے وہ پٹیشن عمران خان کے ذریعے دائر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور دائر کرنے سے قبل وہ پٹیشن اعتزاز احسن نے کسی "چیف" کے کہنے پر انہیں بھیجی جس پر عمران خان کے دستخط مقصود تھے۔ وہ پٹیشن جو بظاہر اعتزاز احسن نے ڈرافٹ کی، اور حفیظ اللہ نیازی نے خود دیکھی، جب کسی وجہ سے عمران خان کی طرف سے دائر نہ ہو سکی تو وہی پٹیشن پھر نواز شریف نے وکیلوں کا یونیفارم پہن کر بنفسِ نفیس دائر کی۔ اسکا فیصلہ پی پی کی حکومت کے خلاف آیا۔ اگلے انتخابات میں پیپلز پارٹی راندہ اقتدار ہوئی، نواز شریف کو ناقابلِ یقین سیٹیں ملیں، عمران خان کا ابھار غبارِ راہ ثابت ہوا۔ اس وقت بھی سارے سیاسی پنڈتوں کی نظریں سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر گڑی ہوئی تھیں، اس وقت بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا، کچھ خفیہ کچھ افشا۔ اس وقت بھی چیف جسٹس کے بیانات اخباروں کی شہہ سرخیاں بن رہے تھے۔ اس وقت بھی حسین حقانی کی ایک تحریر نے پیالی میں طوفان برپا کیا ہوا تھا۔ پھرجو کچھ ہوا اس کے اگلے انتخابات پر کیا اثرات مرتب ہوئے، تحریک انصاف کی سوچ کا اندازہ چند روز قبل اس کے ترجمان نعیم الحق کے ٹوئٹر پر ایک پیغام سے لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ایک معاصر اخبار کے کالم کا حوالہ دے کر کہا کہ کس طرح نواز شریف اور جنرل کیانی نے مل کر تحریک انصاف کے خلاف سازش کی جبکہ حساس اداروں نے تحریک انصاف کو 60 فیصد سیٹیں ملنے کا عندیہ دیا تھا۔ وہ تو بعد میں کھلا کہ جس کالم کا انہوں نے حوالہ دیا تھا وہ کالم ایک بلاگ کی شکل میں چند روز پہلے جعفر حسین کے نام سے ایک ویب سائٹ پر چھپا تھا جس میں لکھاری کا تعارف کچھ یوں کرایا گیا تھا "جعفر حسین ایک معروف طنز نگارہیں، وہ کالم نگاروں کی پیروڑی کرنے کا خاص ملکہ رکھتے ہیں"۔ طنز کے طور پر لکھا گیا ایک بلاگ کم از کم یہ حقیقت باور کرا گیا کہ تحریک انصاف اپنے آپ کو 2012 میں ہونے والے گیموں کا شکار تصور کرتی ہے (علیحدہ بات ہے کہ تحریک انصاف بھول جاتی ہے کہ اس کا ابھار بھی دراصل اسی طرح کے گیموں کا نتیجہ تھا)۔ موجودہ گیموں کا شکار کون بنے گا، یہ جاننے کیلئے اگلے انتخابات کا انتظار کرنا پڑے گا۔




.
تازہ ترین