• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل جاری و ساری ہے ۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ دوسری جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے جارہی ہے ۔ اگر بالفرض پاناما کیس کے فیصلے کی وجہ سے موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکی تو بھی فوجی مداخلت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ وقت سے پہلے یا وقت پر عام انتخابات کا انعقاد ہوگا اور اقتدار جمہوری عمل کے نتیجے میں تیسری جمہوری حکومت کو منتقل ہو جائے گا جس سے جمہوری عمل مزید مستحکم ہوگا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستانی سماج میں وہ تضادات حل نہیں ہو رہے ، جو جمہوری عمل میں ازخود حل ہو جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس یہ تضادات مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں ۔ پاکستان میں طبقاتی تفریق بڑھتی جا رہی ہے ۔ چھوٹے صوبوں اور پسماندہ علاقوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ پاکستانی سماج کی عمودی تقسیم یعنی طبقاتی تقسیم کے ساتھ ساتھ افقی تقسیم اپنی مذہبی ، فرقہ ورانہ ، لسانی ، قومیتی ، نسلی اور گروہی بنیادوں پر تقسیم بھی گہری ہوتی جا رہی ہے ۔ گہرے ہوتے اور بڑھتے ہوئے یہ تضادات نہ صرف ملک کے داخلی استحکام بلکہ خود جمہوریت کے لئے بھی خطرہ ہیں ۔
اس صورت حال کی ذمہ دار سیاسی قوتیں ہیں ، جو جمہوریت کی دعوے دار ہیں ۔ وہ اگرچہ یہ ذمہ داری قبول نہیں کریں گی لیکن بعض حقائق ایسے ہیں ، جن سے وہ انکار نہیں کر سکتیں ۔ سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ قومی سیاسی جماعتوں کی قیادت میں کوئی بھی ایسا سیاسی رہنما نہیں ہے جو پاکستان کی سیاست اور سماج کو ان کی تاریخ اور بدلتی ہوئی نئی دنیا کے تناظر میں سمجھتا ہو ، آج کے بڑھتے ہوئے تضادات کا ادراک رکھتا ہو اور ان تضادات کو حل کرنے کے لئے اس کے پاس وژن ہو ۔ اگر کوئی سیاسی رہنما حالات کا ادراک رکھتا بھی ہے تو اس کی حمایت کا دائرہ محدود ہے یا وہ سمجھوتوں کا شکار ہے ۔ مخصوص مفادات کی حامل ملکی اور بین الاقوامی طاقتوں سے ٹکرانے کی جرات کا فقدان ہے ۔ ویسے تو پوری دنیا میں قیادت کا قحط الرجال ہے ۔ تاریخ میں ایسے عہد بھی آتے ہیں ، جب لوگ بڑے وژن سے محروم ہوتے ہیں اور ان میں چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔ خاص طور پر تیسری دنیا میں وہ قیادت مفقود ہے ، جو 1960 اور 1970 کے عشرے میں موجود تھی ۔ تیسری دنیا کے ملکوں خصوصاً اسلامی ممالک بشمول خطہ عرب میں جو خونریزی اور بدامنی ہے ، اس کا بنیادی سبب بڑے وژن والی اور جرات مند قیادت کا نہ ہونا ہے ۔ دوسری تشویش ناک حقیقت یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں خصوصاً زیادہ ووٹ لینے والی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے عوام کے ساتھ ساتھ اپنے کارکنوں کے ساتھ بھی رشتہ توڑ دیا ہے جبکہ کم ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے وہ پوزیشن حاصل نہیں کی ہے جو انہیں پورے ملک کے عوام کی نمائندہ بنادے ۔ ان کا سیاسی ایجنڈا کچھ فرقہ ورانہ ، لسانی اور علاقائی گروہوں کے مفادات تک محدود ہے ۔ اس وقت ملک میں تین بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے شاہانہ کلچر رائج کردیا ہے ۔ سیکورٹی اور زبردست پروٹوکول کی وجہ سے عام آدمی تو کیا ، کارکنوں اور صف اول کے پارٹی رہنماؤں کو بھی ان تک رسائی نہیں ہوتی ۔ ان سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا اور انہوں نے اپنی پارٹیوں میں آمریت نافذ کر رکھی ہے ۔ وہ پارٹی کو ایک جاگیر یا صنعت سمجھتے ہیں ۔ پارٹی میں شامل باقی لوگ ہاری یا محنت کش ہیں ۔ ہر پارٹی سربراہ کے ساتھ مخصوص قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، جو ان کے ساتھ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ۔ یہی لوگ سب اچھا ہے ، بتا رہے ہوتے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں میں بحث کا کلچر ختم ہوگیا ہے ۔ سیاسی جلسوں کا انعقاد صرف ’’ ایونٹ مینجمنٹ ‘‘ کا کام بن کر رہ گیا ہے یہ بڑی سیاسی جماعتیں بھی بڑھتے ہوئے تضادات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امکانی حالات کا مقابلہ کرنے کی اہل نہیں رہی ہیں ۔
تیسری تشویش ناک بات یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے عوام کے مسائل پر بات کرنا بھی چھوڑ دی ہے ۔ غربت اور بیروزگاری میں اضافہ پر کسی کو پروا نہیں ہے ۔ مہنگائی بڑھنے پر کسی کو فکرنہیں۔عوام دشمن اقتصادی پالیسیوں اور سامراجی منصوبوں کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کر رہا ۔ لوگوں کو بجلی میسر نہیں ہے اور بجلی تقسیم کرنے والے ادارے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں ۔ اس پر سب خاموش ہیں ۔ پولیس اور ریاسی اداروں کے ساتھ ساتھ طاقتور طبقات کے مظالم پر کوئی بات نہیں کررہا ۔۔ کوئی سیاسی جماعت بولنے کے لئے تیار نہیں اور جو سیاسی ،مذہبی اور قوم پرست جماعتیں بات کر رہی ہیں ۔ ان کا بیانیہ عوام کے وسیع تر حلقوں میں قابل قبول نہیں ۔ اقتدار میں آنے کے بعد حکمراں جماعتیں لوگوں کے چھوٹے چھوٹے کاموں کو معمول کے مطابق نہیں ہونے دیتیں اور ان کاموں کے لئے لوگوں کو منتخب نمائندوں کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے ۔ لوگ محتاج بنا دیئے گئے ہیں ۔ انہیں اپنا انفرادی وقار اور عزت نفس بچانا مشکل ہو گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ سیاسی رہنماؤں کے ڈیروں پر جانے کی بجائے انتہا پسند تنظیموں سے رجوع کر رہے ہیں ۔
سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ تمام مقبول اور کچھ کم مقبول سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں صرف اس لئے ہوتی ہیں کہ ان کی قیمت کا تعین کیا جائے۔ کوئی بھی ملکی اور بین الاقوامی ہیئت مقتدرہ اور ان کے ایجنڈوں کو چیلنج کرنے کے لئے تیار نہیں۔ قابل نفرت بات یہ ہے کہ ان کا سیاسی بیانیہ بھی اپنا نہیں ہے۔ ان اسباب کی بناء پر جمہوری عمل میں بھی پاکستانی سماج کے تضادات گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور پاکستانی سماج کی عمودی اور افقی تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ ہماری سیاسی قیادت کو اندازہ نہیں کہ یہ کس قدر خطرناک صورت حال ہے۔




.
تازہ ترین