• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قارئین کرام اور ووٹران پاکستان!آپ سب جانتے ہیں کہ سال رواں بحالی جمہوریت کے عمل (2008-17)کا دسواں سال ہے جبکہ 2018کا پہلا کوارٹر ملک میں پھر عام انتخابات کا سال ہے۔ ایک جمہوری مملکت میں الیکشن کا بنیادی مقصد بالغ شہریوں کو آئین میں مقررہ مدت کے بعد اپنی رائے (ووٹ) سے یہ موقع فراہم کرنا ہوتا ہے کہ وہ قبل انتخاب کی حکومت کو چاہیں تو دوبارہ برسراقتدار لائیں اور اگر اس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو کسی دوسری جماعت کی حکومت تشکیل دے لیں۔ ووٹوں کی اکثریت کی بنیاد پر ہی یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ نئی حکومت تشکیل دینی ہے یا جو سابقہ حکومت انتخابات کے انعقاد کے لئے خود کو اقتدار میں لانے کے لئے بذریعہ الیکشن دوبارہ یہ موقع حاصل کرنے کی متمنی ہے، اسے ہی اس کی آزمودہ اطمینان بخش کارکردگی کی بنیاد پر کثرت سے ووٹ دے کر پھر حکومت کا موقع فراہم کرنا ہے۔ ترقی یافتہ مضبوط جمہوری معاشروں کی ایک بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ اس میں چھوٹی بڑی، قومی، علاقائی کئی سیاسی جماعتوں کی زیادہ تعداد ہونے کی بجائے فقط دو بڑی سیاسی قوتیں انتخاب میں حصہ لینے والی اولین سیاسی جماعتوں کے طور مملکت کی حتمی سیاسی قوتیں بن جاتی ہیں، جن میں اتنی صلاحیت ضرور ہوتی ہے کہ یہ ایک دوسرے سے مخالف نظریے کی حامل ہونے کے باوجود ملک کی آئین اور قانون کی مکمل پیروی کرنے کی قومی ضرورت یکساں پوری کرتے ہوئے عوام کی خدمت کا اور خود اپنا امتیاز اپنی حکومتی پالیسیوں اور ان پر عملدرآمد کی کامیابی سے کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں یہ عوام کو پہلے سے بڑھ کر اور نئے فلاحی پیکجز (جنہیں وہ انتخابی ابلاغی مہم میں عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں) سے نوازتی ہیں، جس کے نتیجے میں سماجی انصاف کی بنیاد پر عام شہریوں کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ بہتری آئے۔ اگر بہتری نہیں آتی یا شہریوں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو جائے تو یہ اصل سیاسی حکومت کی بڑی ناکامی ہوتی ہے اور وہ انتخابات میں حکومت سے اپوزیشن کے خطرے سے دوچار ہوتی ہے۔ ’’خطرہ‘‘ اس لئے کہ انتخابات میں حصہ لینے کا مقصد حکومت کا حصول ہوتا ہے تاکہ اپوزیشن۔ البتہ حکومت کے مقابل اپوزیشن اپنا کردار بطور حزب اختلاف کامیابی سے ادا کرے تو وہ اپنی سابقہ حکومتی کمزوریوں کے کفارے کے مترادف ہوتا ہے ایسے میں اس کے پھر حکومت میں آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں دو واضح اولین سیاسی قوتیں بننے میں مسلسل ناکامی ہو رہی ہے یہ ناکامی بحیثیت جمہوریت پر کاربند قوم کی ناکامی ہے اور خود جس کے دو بڑے محرک ووٹ دیتے ہوئے ووٹرز کی زیادہ اہل امیدوار کی پرکھ کی کم اہلیت اور خود انتخاب جیتنے والے منتخب نمائندگان کی اہلیت یا بددیانتی ہوتی ہے، وائے بدنصیبی پاکستان کے پُر انتخابی عمل میں یہ دونوں بڑی خامیاں عود کر آتی ہیں۔ ووٹروں کی بھی جو علاقے، برادری، زبان اور دوسرے مخصوص حوالوں کی بنیاد پر مطلوب صلاحیت کے موجود امیدوار کو نظر انداز کر کے اپنے اپنے ثانوی دائروں کے اسیر ہو کر ووٹ دیتے ہیں کہ ان کا شعور اور فراست اس کے منفی نتائج سے یا بے خبر ہوتی ہے یا اسے محدود ثانوی فوائد کو مستحق امیدوار پر ترجیح دیتی ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ایک گمبھیر بحران سے نکل آیا ہے تاہم نئے خطرات سے بھی دوچار ہوا ہے۔ ایک طرف تابناک پاکستان کی تشکیل پذیری کے عندیے واضح ہیں، دوسری طرف دس سال کے جاری جمہوری عمل نے مکمل واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کی آزمودہ ہر دو روایتی سیاسی قوتیں جن کا حتمی ہدف عوام کی خدمت کی بجائے اپنی منفی سیاسی قوت کو برقرار رکھنا اور مسلسل بڑھانا ہے، اقتدار کی پوری پوری باری ملنے پر بھی بدستور بدترین طرز حکمرانی میں جکڑی ہوئی ہیں۔ پاکستان کی یہ پیچیدگی کہ وہ نئے خدشات اور روشن امکانات دونوں میں پھنسا ہوا ہے، تقاضا کرتی ہے کہ آئندہ انتخاب میں ووٹرز کو ووٹ کس بنیاد پر دینا ہے؟ کی تعلیم عامہ کے لئے، رائے عامہ کی تشکیل کے تمام وہ ذرائع پر پورا زور لگا دیں جو فقط سیاسی اور تجارتی نہیں، بلکہ ذمہ دار اور قومی و عوامی سب سے بڑھ کر حقیقی جمہوری سوچ کے حامل ہیں۔
ووٹرز کی تعلیم عامہ دعوئوں، اپنے مخصوص نظریات کو ترویج اور روایتی انداز میں نہیں کہہ سکتی اس کے لئے میڈیا کو اپنا مکمل پیشہ وارانہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہونا ضروری ہے یہ میڈیا کی اپنی غرض کا بھی سوال ہے کہ ووٹرز کی تعلیم عامہ کی جو دو بنیادیں بنتی ہیں، اسی کی ترویج سے خود پاکستانی میڈیا کو جلا ملے گی۔ اس ضمن میں سب سے اہم ہے کہ حکومت (وفاقی یا صوبائی) میں شامل تمام موجودہ جماعتوں کا یہ جائزہ تفصیلی اور غیر جانبداری سے لیا جائے کہ یہ حکومت میں آ کر آئین و قانون کی کتنی پیروی کرتی ہیں اور کتنی اس سے گریزاں ہیں، اور کھلم کھلا خلاف آئین اور لاقانونیت کی راہ پر کتنی رہیں، جو کہ رہیں دوسرا یہ کہ انہوں نے قومی اور عوامی کی ضرورت اور اپنے انتخابی منشور اور وعدوں و دعوئوں کے مطابق کس حد تک ڈلیور کیا اور اس کا انداز کیسا رہا؟ یعنی شفاف اور کھوکھلا یا مشکوک ۔ یہ پالیسی اور مطلوب فیصلہ سازی کے آئینی و قانونی دائرے میں ہوا یا من مانی سے؟ وہ پوٹینشل شہری جن کا سیاست میں آنا مطلوب ہے لیکن اسٹیٹس کو سے ٹکرانے کی ہمت نہیں یا مجبوری ہے، وہ میڈیا کے بعد اس تعلیم عامہ کا دوسرا بڑا ذریعہ ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے گردونواح میں خصوصاً سوشل میڈیا کا قومی، دیانت دارانہ اور فلاحی استعمال کرتے ہوئے ووٹرز کو ووٹ کیسے دینا چاہئے؟ کے صحیح جوابات پر جھنجھوڑیں۔ یہ ان کی نئی نسل کے حال اور مستقبل کا مفاد ہے، جو خاندانی سیاست کے حلیے میں جکڑا اور بدستور خدشات کا شکار ہے۔
ان شاء اللہ!’’آئین نو ‘‘ میں ’’ڈلیوری آڈٹ‘‘ کا یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہے گا کہ جن جن کی جہاں جہاں حکومتیں ہیں انہوں نے عوام کو کیا ڈلیور کیا اور کس نیت سے اور کس انداز میں؟ نیز یہ کہ آئندہ انتخابات میں ووٹرز کو کیسے ووٹ دینا چاہئے؟ اور وہ کس طرح مستحق اور اہل امیدواروں کو کیونکر اپنا منتخب نمائندہ بنا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں قارئین خصوصاً مختلف شعبوں سے متعلق ٹیکنو کریٹس کی معاونت، رہنمائی اور مشاورت سے ’’آئین نو‘‘ کا متعین مقصد پورا ہونے میں بہت مدد ملے۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنی تجاویز اور قیمتی آراء سے نوازیں تاکہ انہیں عام ووٹرز تک بذریعہ آئین نو پہنچایا جائے۔
ایک مختصر اور عمومی جائزہ تو یہ ہے کہ پی پی اور ن لیگ کی اقتدار کی پوری ہوئی اور ہوتی باری میں پی پی کی گورننس وفاقی بھی اور سندھ کی مکمل ہوئی اور ہوتی بدترین ثابت ہوئی۔ بطور اپوزیشن بھی پی پی کا مفاہمت زدہ اور اہم مواقع کا مصالحانہ کردار انتہا کا مایوس کن رہا۔ جناب زرداری نے ایوان صدر سے رخصت ہوتے ہوئے جیسے کہا تھا کہ ’’اب آپ حکومت کریں ہم کے آخری سال میں سیاست کریں گے‘‘ ایسے ہی ہوا۔ پی پی اور ن لیگ دونوں نے 18ویں ترمیم تو منظور کرا کر آئین کا حلیہ درست کر لیا، لیکن اپنی گورننس میں آئین کی یہ قرین خلاف ورزیاں ہوئیں اور جاری ہیں تبھی تو عدالتیں، اداروں کی تباہی اور خلاف آئین چلنے کا انتباہ کرتی رہیں اتنا ضرور ماننا پڑے گا کہ ن لیگ نے اپنی روایتی گھسی پٹی یہ پوزیشن برقرار رکھی کہ وہ پی پی سے زیادہ بہتر ڈلیور کرتی ہے لیکن بڑی فنکاری سے زمانہ بہت تیزی سے بدل گیا تھا ضرورت اب اس سے کہیں آگے کی تھی جسے ن لیگ اختیار کرنے میں مکمل ناکام رہی، وہ عوام کی ضرورتوں کو تو کیا سمجھتی اور ان سے تو کیا رابطے میں رہتی، خود اس کے اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز نجی محفلوں میں یہ رونا روتے عام پائے جاتے ہیں کہ سب کچھ ’’شریف فیملی‘‘ ہی ہے۔ اُدھر سب کچھ زرداری فیملی ہی ہے۔ ایک طرف دختر دوسری جانب ہمشیرہ، غیر جمہوری اور غیر عوامی کردار کے ساتھ سیاست میں آئیں اور آ رہی ہیں۔ مزا نہیں آیا۔ آنا تھا تو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا حوصلہ و ہمت بھی ہونی چاہئے تھی۔ بھائی باپ کی انگلیاں پکڑ کر سیاست میں آئیں تو کیا آئیں؟



.
تازہ ترین