• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2016پاکستان کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل تھا۔ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کا قلع قمع ہورہا تھا۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے ہماری افواج کے نوجوان جگہ جگہ ختم کررہے تھے اور دہشت گرد پناہ کی تلاش میں افغانستان کے پہاڑی علاقوں کی طرف بھاگ کر اپنی جانیں بچانے کی آخری کوشش میں لگے ہوئے تھے ۔ اندرونی طور پر رینجرز کےآپریشن سےکراچی جو گزشتہ ایک دہائی تک دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے ہاتھوں یرغمال بناہوا تھا،آہستہ آہستہ امن کی طرف لوٹ رہا تھا۔ کراچی والے اب اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے تھے ۔اغوابرائے تاوان ،موبائل اور گاڑیوں کی چھینا چھپٹی اب بہت کم ہوچکی تھی۔محلے اور گلیوں سے رینجرزنے تمام رکاوٹیں ختم کرکے عوام کو نیا حوصلہ دیااور کراچی کا سب سے خطرناک ترین علاقہ لیاری جو منشیات ،اسلحہ، دہشت گردی کی علامت سمجھا جاتا تھاتمام دہشت گردوں سے پاک ہوچکا تھا ۔اب بڑے بڑے کرپٹ بیوروکریٹس اور سیاست دان اور اُن کے سہولت کاروں پر نیب ،ایف آئی اے اور رینجر ز نے بلا تخصیص گرفتاریاں شروع کردی تھیں ۔اب ایسا لگنے لگا تھا کہ فوج اور رینجرز دونوں مل کر کرپشن کو بھی اُسی طرح ختم کرکے دم لیں گے ،جس طرح دہشت گردوں کو ختم کیا تھا ۔اُس دوران بہت ہی اہم شخصیات سابق پیٹرولیم کے وزیر ڈاکٹر عاصم ،مشہورماڈل ایان علی ،حج و اوقاف کے سابق وزیر مفتی احمد سعید کاظمی اورعزیر بلوچ گرفتار ہوچکے تھے ۔رینجرز نے اُن کو تحویل میں لے کر کھربوں روپے کی کرپشن کے انکشافات معہ ثبوت حاصل کئے۔میڈیا اس موقع پر بہت سرگرم تھا روز ایک نئی کرپشن کے اسکینڈل بے نقاب ہوتے رہے ۔اس میں ہمارے وزیر اعظم کے صاحبزادے کا ٹی وی چینل پر انکشافات بھی سامنے آئے لندن کی جائیدادیں بھی عوام کو معلوم ہوئیں ۔انہی گرفتاریوں سے بچنے کے لئے بہت سے بیوروکریٹس حضرات بیرون ملک فرار بھی ہوئے۔ سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کی بھی کہانی کرپشن کی بتائی گئی وہ بھی اربوں روپے لوٹ کر دیارِغیر میں جاچھپے ،کوئٹہ کے بھی وزرااور بیوروکریٹس کا مشترکہ ا سیکنڈل اور پھر نیب سے بارگیننگ جو بمشکل محض 10 فیصد واپسی پر ہوئی کی رہائی سے بھی ایک نئی بھونڈی مثال سامنے آئی۔پھر راحیل شریف صاحب کا ریٹائر منٹ کا معاملہ اور نئے چیف کی تعیناتی کا وقت آیا۔ وزیراعظم نوازشریف لند ن علاج کا کہہ کے برطانیہ چلے گئے کیونکہ پانامہ لیکس اور ڈان لیکس کے بعد اُن کےعہدے کوخطرہ تھا وہ بادل بھی بغیر برسے چھٹ گئے۔ پھر سیاست دان اور کرپٹ بیوروکریٹس آہستہ آہستہ پرانا ماحول یعنی کرپشن سے بھر پور کردار اپنانے لگے۔2017ء میں خوش بختی کا دور شروع ہوا جو ماڈل ایان علی 5لاکھ ڈالر کے ساتھ ایئرپورٹ پر گرفتار ہوئی تھی اس کے چاہنے والوں نے اس کی ضمانت کرواکر بیرون ملک روانہ کردیا ۔ادھر ملتان سے تعلق رکھنے والے احمد سعید کاظمی صاحب جن پر حاجیوں کی رہائشوں میں 4ارب روپے کرپشن کا الزام تھا معہ اُن کے سہولت کا رجن کو 15سال قید کی سزا ہوئی تھی باعزت بری ہوکر جلوس کی شکل میں اپنے آبائی شہر پہنچ گئے ۔ڈاکٹر عاصم کو بھی پہلے رینجرز کی تحویل سے نکال کر سول اسپتال منتقل کیا گیا ان کی خوش بختی دیکھئے ۔اُن کی ایک درجن سے زائد ضمانتیں ایک ایک کرکے ہوتی گئیں اور آخر کار وہ بھی رہا ہوکر اپنے گھر کی راہ لے چکے ہیں ۔اس وقت عزیز بلوچ بھی رینجرز کی تحویل سے نکل کر جیل منتقل ہوچکے ہیں اور چند دنوں میں ان کی ضمانت کی امید کی جاسکتی ہے ۔شرجیل میمن بھی واپس اسلام آباد آئے ،پہلے گرفتاری ڈلوائی پھر ضمانت کرواکر سرخرو ہوکر کراچی میں دوبارہ اپنے دھندے پر دھیان دے رہے ہیں ۔دو ڈھائی سال کے ایپی سوڈ جو فوج اور رینجرز نے مل کر شروع کی تھیں وہ اپنی موت آپ مرگئی۔ اب تو کرپشن کی کوئی لمٹ ہی نہیں تھی ۔کروڑوں یا اربوں کا نہیں کھربوں کا معاملہ تھا کوئی ایک وزیر ،مشیر ،بیوروکریٹس غرض جس کا بھی نام لیں اس میں ملوث ہے کوئی قطر کا خط سامنے لارہا ہے تو کوئی کسی اور طریقے سےمال سمیٹ رہا ہے ۔روز صبح اُٹھ کر عوام پوچھتے ہیں کیا پاناما لیکس کا فیصلہ آگیا ،کیا وزیراعظم نواز شریف کو سزا ہوگی؟ ۔جب اتنے بڑے بڑے مگر مچھ پکڑ کر چھوٹ گئے تو بیچارے وزیر اعظم کو اکیلے کیوں تنگ کیاجارہا ہے۔جس کا بھائی پنجاب کے لئے دن رات محنت کرکے ہلکان ہوچکا ہے ۔اسکاٹ لینڈ یارڈ والوں نے بھی لاکھوںپونڈز جو انہوں نے الطاف حسین کے گھر سے برآمد کئے تھے منی لانڈرنگ کیس معہ ثبوت وہ واپس کردیئے تاکہ پاکستان سے خیر سگالی کا جذبہ ماند نہ پڑے۔ لگتا ہے عمران خان کا کرپشن سے پاک خواب اب آہستہ آہستہ چکنا چور ہونے کو ہے۔ عوام تو خود ہی سمجھ چکے ہیں تمام سیاست دان اندر سے ایک ہیں۔کوڈالگ الگ ہے مگر نیٹ ورک ایک ہے۔ سیاست دانوں کی خوش بختی کا دور دورہ ہے ۔عوام یک ٹک اُسے دیکھے جارہے ہیں ۔بقول شاعر
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کا رُخ پلٹتے ہی تیراک ہوگئے
ویسے بھی آج پاناما لیکس کے فیصلے کو محفوظ ہوئے 40واں دن ہے گویا آج 40واں بھی ہوگیا ۔



.
تازہ ترین