• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر حملے کا حکم دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ’’ ناقابل پیش گوئی ‘‘ ہیں اور غیر متوقع فیصلے کر سکتے ہیں لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ کی کیمسٹری کو دنیا اچھی طرح جان چکی ہے اور اس کے فیصلو ں کے بارے میں پیش گوئی کرنا کوئی مشکل نہیں رہا ہے کیونکہ امریکی ’’ نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ کے نفاذ کے بعد گزشتہ تین عشروں میں اتنی خونریزی ہوئی ہے، جس کی تاریخ کے کسی عہد میں مثال نہیں ملتی۔ دنیا پہلے ہی یہ بھانپ چکی تھی کہ اپنی بات سے کسی جھجک کے بغیر انحراف کرنیوالےسیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ارادے کیا ہیں۔ پہلے ہی اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے تھا کہ امریکہ دنیا میں ایک نئی جنگ کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔
شام کے شیرت ایئرفیلڈ پر امریکہ نے 59ٹوما ہاک کروز میزائلوں کے ذریعہ حملہ کیا۔ اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ وہی ایئر فیلڈ ہے، جہاں سے شامی افواج نے صوبہ ادلیب میں باغیوں کے علاقے خان شیخون پر زہریلی سرین گیس سے حملہ کیا تھا۔ اس کیمیائی حملے میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک اور تین سو سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ شام پر امریکی حملہ ایسے حالات میں ہوا ہے، جب پوری دنیا کو اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ عراق، لیبیا، مصر، یمن، افغانستان اور دیگر ملکوں پر امریکہ نے جو حملے کئےتھے، وہ غلط تھے۔ حملوں کیلئے امریکی جواز چالاکی کے سوا کچھ نہیں تھا اور اب پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ امریکہ نے عالمی بالادستی قائم کرنے کیلئے دنیا کے مختلف ملکوں میں فوج کشی اور حملوں سے قبل ڈرامے کئے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی۔ عراق پر حملے کا یہ جواز بنایا گیا تھا کہ عراقی حکومت کے پاس ایسے کیمیائی ہتھیار ہیں، جو پوری دنیا میں تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ بعد ازاں امریکی تحقیقاتی کمیشن نے یہ رپورٹ دی کہ امریکہ کا یہ دعویٰ غلط تھا اور عراق میں کہیں بھی کیمیائی ہتھیار نہیں ملے۔ افغانستان پر حملے سے پہلے ’’ القاعدہ ‘‘ کا ہوا کھڑا کیا گیا اور عالمی ذرائع کو استعمال کرکے یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ ایک انتہا پسند تنظیم دنیا کو اندھیروں کے عہد میں لے جانا چاہتی ہے۔ وہ ایسا ضابطہ نافذ کرے گی، جس کے تحت جدید علوم پر پابندی ہو گی۔ انسانی آزادیاں سلب کی جائیں گی اور خاص طور پر خواتین کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔اسی طرح لیبیا، مصر اور یمن سمیت مشرق وسطیٰ اور خلیج کے ممالک میں امریکہ نے جو فوجی اور خفیہ کارروائیاں کیں، ان کا نہ صرف کوئی جواز نہیں تھا بلکہ امریکی کارروائیوں سے متاثرہ ممالک اور خطے اس طرح برباد ہوئے ہیں کہ وہاں اب تک حالات بہتر ہونے کے دور دور تک امکانات نہیں ہیں۔ شام پر حالیہ امریکی حملے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا ہے۔ اس اجلاس میں بھی اسی اجتماعی عالمی شعور کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور امریکہ کے حامی بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ان حملوں سے تباہی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ آج کے حالات میں عالمی رائے عامہ امریکہ کے حق میں نہیں ہے۔
تاریخ میں امریکہ کی پہچان ابراہام لنکن اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر سے ہوتی ہے۔ یہ دونوں رہنما نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے آئیڈیل ہیں۔ انہوںنے انسانی اور شہری حقوق، انفرادی اور قومی آزادی اور جمہوریت کے واضح تصورات دیئے۔ جنگ عظیم میں دنیا نے امریکہ کی وجہ سے نازی ازم کے خلاف اتحاد بنایا لیکن ناگا ساکی اور ہیروشیما پر امریکہ کے ایٹمی حملوں کے بعد دنیا کو احساس ہوا کہ امریکی سب سے بڑے فاشسٹ ہیں۔ پھر سرد جنگ کے زمانے میں دنیا نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے سانحات کے باوجود امریکہ کا اس لئے ساتھ دیا کہ وہ ابراہام لنکن اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے فلسفوں کے مطابق جمہوریت، انفرادی آزادیوں اور قومی خود مختاری کی بات کرتا ہے حالانکہ امریکہ سرمایہ دار اور سامراجی ممالک کا سرخیل تھا۔ سرد جنگ کا خاتمہ ہوا تو اس کے بعد امریکہ نے دنیا کے ساتھ جو کچھ کیا، اس نے یہ بات باور کرا دی کہ یہ ابراہام لنکن اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے افکار کا وارث ملک نہیں رہا۔ وہ نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر دنیا کا بلا شرکت غیرے حاکم بن گیا ہے۔ اسی یونی پولر ورلڈ میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اور ابراہام لنکن اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے افکار کی بجائے فاشسٹ اور شاؤنسٹ امریکی پروفیسر سیموئل ہینٹنگ ٹن کا ’’ تہذیبوں کے تصادم ‘‘ والا نظریہ امریکہ کی پہچان بن گیا۔ اسی نظریے کی بنیاد پر اس نے دنیا کو بدامنی اور خونریزی کے ذریعہ کنٹرول کیا اور القاعدہ، طالبان، داعش، بوکو حرام اور دیگر انتہا پسند تنظیموں نے امریکی ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے ضروری حالات پیدا کئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ یہ نعرہ لگا کر آئے تھے کہ وہ دنیا میں جنگ جوئی نہیں کریں گے کیونکہ اس سے امریکہ کو نقصانات ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگا کر انہوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ صرف امریکیوں کے داخلی مفادات کا تحفظ کریں گے۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنی پالیسیوں کا بنیادی نکتہ یہ رکھا تھا کہ امریکہ داعش کے خاتمے کو ترجیح دے گا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ ساری پالیسیاں ایک دم تبدیل ہو گئی ہیں لیکن اب عالمی حالات بھی وہ نہیں رہے، جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا مخالف اشتراکی اور غیر جانبدارانہ بلاکس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے تھے۔ اب یہ ٹوٹ پھوٹ کا عمل نہ صرف ختم ہو چکا ہے بلکہ دنیا میں ازسر نو صف بندیا ہو رہی ہیں۔ امریکی نیو ورلڈ آرڈر، جو تاریخ انسانی کا بدترین عہد گردانا جائے گا، اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔ امریکہ یہ بات سمجھتا ہے اور وہ اس نئی صف بندی کو روکنے کیلئے دنیا کو ایک عالمی جنگ میں جھونکنا چاہتا ہے لیکن پھر وہی بات کہ حالات اس کے حق میں نہیں ہیں۔ دنیا آج بھی اس بات پر سوچ رہی ہے کہ شام کے باغیوں کے علاقے میں کیمیائی حملے امریکی خفیہ ایجنسیوں کی کارستانی ہو سکتے ہیں۔ دنیا کو یہ بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ داعش کے خلاف امریکہ کا فوجی اتحاد ایک ڈرامہ تھا اور اب وہ براہ راست داعش کیلئے کام کر رہا ہے۔ روس اور ایران نے کھل کر امریکی حملے کی مخالفت کر دی ہے۔ چین نے اگرچہ محتاط رویے کا مظاہرہ کیا ہے لیکن سلامتی کونسل کے اجلاس میں چین نے روس کا ساتھ دیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ شام پر امریکی حملے کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک بھی حملے کی حمایت کے باوجود امریکی کارروائیوں کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں۔ مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک اس لئے امریکی حملے کی حمایت کر رہے ہیں کہ ان ملکوں میں مطلق العنان حکومتوں کی بقاکا انحصار داعش اور دیگر انتہا پسندوں پر بڑھ گیا ہے لیکن امریکہ اور ان کے تمام اتحادیوں کیلئے داعش کی حمایت میں کھل کر آنا بھی آسان نہیں ہے۔ شامی حکومت کئی عالمی سازشوں سے بچ کر نکل آئی ہے۔ شام میں امریکی لڑائی سے امریکہ مخالف صف بندی تیز ہو جائیگی۔ چین نے محتاط رویہ اسلئے اختیار کیا ہے کہ شام پر امریکی حملے کے بعد چین کے صدر زی جن پنگ فلوریڈا سربراہ اجلاس میں شریک تھے۔
اور ان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں چین کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کیا تھا اور امریکہ کو چین کے معاشی قبضے سے بچانے کے اعلانات کئےتھے۔ چین کے صدر نے پام بیچ میں ہونے والی ملاقات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو چین کے ساتھ تجارت میں اپنے سخت گیر موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ امریکی حملے پر چین کے محتاط رویئے نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مات دے دی۔
ان حالات میں امریکہ شام پر مزید حملے کرتا ہے تو حالات شاید وہ نہیں رہیں گے، جن کی امریکی اسٹیبلشمنٹ کوتوقع ہے۔ اب وہ دور نہیں، جب عراق اور افغانستان پر حملہ کیا گیا تھا۔ امریکہ کی مزید مہم جوئی سے اب جو جنگ شروع ہو گی، وہ پہلے کی طرح امریکہ غیر ریاستی عناصر کے ذریعہ نہیں لڑ سکے گا بلکہ اب جنگ کی نوعیت ریاستی ہو گی اور اس کے اثرات بھی عالمی سطح پر بہت مختلف ہوں گے۔



.
تازہ ترین