• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی دارالحکومت کے روز بروز گرم ہوتے سیاسی موسم سے دور جنوبی پنجاب جانے کا اتفاق ہوا جہاں گزشتہ دنوں درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے حقیقی موسم گرما شروع ہو چکا تھا تو دیگر محرومیوں اور پسماندگی کے ساتھ جو مسئلہ شدت اختیار کرتا نظر آیا وہ پانی کی عدم دستیابی یا کمی کا تھا۔ پانی کی منصفانہ تقسیم کیلئے جہاں آج کل صوبے وفاق سے ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں وہیں پاکستان ہمسایہ ملک بھارت سےتنازعات نمٹانے کی تگ و دو کر رہا ہے۔ اسی پانی کی عدم دستیابی کے خلاف اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف ایک چھوٹا دھرنا بھی دے چکی ہے تاہم وفاقی حکومت نے غازی بروتھا ڈیم سے وفاقی دارلحکومت کے باسیوں کو آئندہ پچاس سال تک پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے منصوبے پر کام شروع کرنے کی نوید سنا کر مطمئن کر دیا ہے۔ پانی کو زندگی قراردیا جاتا ہے اور زمین جیسے واحد سیارے پراگر حیات کے آثار موجود ہیں تو اس کی بنیادی وجہ بھی پانی ہی ہے لیکن انتہائی تشویشناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں زندگی کی یہ علامت روز بروز معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فی کس پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد 121کیوبک میٹر تک سکڑ چکی ہے جو صرف ایتھوپیا جیسے انتہائی پسماندہ ملک سے بہتر ہے۔ پاکستان میں اس وقت مجموعی طور پر صرف 30دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اسی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کی دستیابی کی صورتحال بتدریج خراب ہوتی جا رہی ہے۔ کل تک پاکستان پانی کی وافر مقدار رکھنے والے مملک کی صف میں شامل تھا لیکن آج یہی ملک پانی کی کمی والے ممالک میں شمار کیا جا رہا ہے۔ جس پاکستانی شہری کو 1990میں 2172کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا آج وہ 1306کیوبک میٹر پانی پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر صورتحال یہی رہی اور 2025ءتک پانی کی دستیابی میں 14.2فیصد تک اضافہ نہ کیا جا سکا تو روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کسی طور پوری نہیں کی جا سکیں گی۔ وطن عزیز میں اس وقت بھی 2کروڑ 72لاکھ افراد آ لودہ پانی پینے پر مجبوہیں جبکہ 5کروڑ 27لاکھ لوگ صفائی جیسے لفظ سے نا آشنا ہیں۔ آلودہ پانی اور صفائی کی ابتر صورتحال 70 فیصد بیماریوں کی بڑی وجہ گردانی جاتی ہے اور پانچ سال سے کم عمر کے سالانہ 39ہزار بچے رگوں میں اترنے والے آلودہ پانی کے باعث ہمیشہ کیلئے سانس لینے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے لے کر زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے جیسے عوامل کے باعث جہاں پانی کی دستیابی ملک کے ترقی یافتہ علاقوں میں بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے وہیں جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقوں میں تویہ نعمت نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی،کوئٹہ اورپشاور جیسے بڑے اور جدید شہروں میں لوگ اگر پانی خریدنے پر مجبور ہو چکے ہیں تو جنوبی پنجاب جیسے پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ بہاولپور، ڈیرہ غازیخان اور ملتان کے تین ڈویڑنوں پرمشتمل جنوبی پنجاب کی آبادی تقریبا تین کروڑ کے لگ بھگ ہے یہاں پینے کے ساتھ زرعی استعمال کیلئے بھی پانی کا بحران سنگین تر ہوتا جا رہا ہے جس کا خمیازہ اس علاقے کے عوام کو صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل اور زرعی پیداوار کی کمی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جنوبی پنجاب میں کوہ سلیمان کی پٹی میں واقع ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ سے لے کر روجھان مزاری تک اور بہالپور کے ساتھ واقع چولستان میں آج بھی انسان اور جانور ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں۔ یہ وہی پانی ہے جو بارش ہونے کی صورت میں حوض بنا کر جمع کیا جاتا ہے جو چند دنوں میں ہی ایک گندے جوہڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے اکثر علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بھی سینکڑوں فٹ گہرائی میں ہونے کے باعث خصوصی واٹر پمپ یا ٹربائن لگا کر ہی پانی نکالاجا سکتا ہے جبکہ اس پانی میں بھی مختلف دھاتیں شامل ہونے کی وجہ سے پینے کیلئے اس کا معیار تسلی بخش نہیں ہے۔ میٹھے پانی کے حصول کیلئے ان علاقوں میں آج بھی مشکیزے کی مدد سے گہرے کنوؤں سے پانی نکالنے اور سر پہ گھاگریں رکھے پگڈ نڈیوں پر چلتی خواتین کے مناظر عام ہیں۔ جنوبی پنجاب کے باسیوں کو صاف پانی کی فراہمی کیلئے پنجاب حکومت نے اربوں روپے کی لاگت سے صاف پانی منصوبہ بھی شروع کیا لیکن اس میں وسیع پیمانے پر بد عنوانی کی شکایات سامنے آنے پر تحقیقات جاری ہیں اور منصوبہ ٹھپ ہو چکا ہے۔ منصوبے کی ناکامی کی بڑی وجہ اس پر عمل درآمد کیلئے نجی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنا ہے۔ تونسہ شریف اور روجھان مزاری جیسی جنوبی پنجاب کی انتہائی پسماندہ تحصیلوں میں پانی کی دستیابی کیلئے بعض غیر سرکاری تنظیمیں بھی کردار ادا کر رہی ہیں لیکن مقامی باسیوں کی زندگی روز بروز مزید اجیرن ہوتی جا رہی ہے۔ جنوبی پنجاب کی آبادی کی اکثریت کا انحصار زراعت اور مویشی پالنے پرہے۔ باقی ماندہ پنجاب کی طرح اس علاقے میں بھی آبپاشی کا صدیوں پرانا نظام رائج ہے جس میں فراہم کئے جانے والے مجموعی پانی میں سے کھیتوں تک پہنچنے والے پانی کی مقدار نصف رہ جاتی ہے۔ انڈس بیسن اریگیشن سسٹم کے تحت دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کے پانی کے بہاؤ کو نہروں کے وسیع جال کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ 16لاکھ کلومیٹر پر مشتمل آبپاشی کے اس وسیع نظام میں 61ہزار سے زیادہ چھوٹی بڑی نہریں ہیں جہاں سے گیٹڈ اور نان گیٹڈ اسٹرکچرز کے ذریعے پانی واٹر کورسز یا مقامی زبان میں کھالوں کے ذریعے کھیتوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ جن علاقوں میں زمینی پانی کی سطح بہتر ہے وہاں ٹیوب ویل بھی لگائے گئے ہیں جو سرکاری شعبے میں ساڑھے بارہ ہزار جبکہ نجی شعبے میں چار لاکھ سے زیادہ ہیں لیکن دریاؤں سے دور ہونے کے باعث جنوبی پنجاب کی کوہ سلیمان اور چولستان کی پٹی میں آبپاشی کا بھی کوئی نظام کام نہیں کررہا جس کی وجہ سے متعلقہ آبادی کا مکمل انحصار باران رحمت پر ہی ہے۔ آبپاشی کے نظام کے تحت زرعی استعمال کیلئے دستیاب پانی پر بھی جاگیر دار،وڈیرے، سیاست دان، طاقتور یا اثر و رسوخ رکھنے والے اجارہ داری قائم رکھے ہوئے ہیں۔ سرکاری کاغذات میں اگرچہ ہر کسان کو اس کی ملکیتی یا زیر کاشت زرعی زمین کے تناسب سے پانی کی فراہمی کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر اسے اتنا پانی بھی نہیں ملتا جس سے اس کے زیر کاشت کھیت سیراب ہو سکیں۔ آباد کاروں اور قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرنے والوں کو زمینیں بھی آبپاشی نظام کے آخری سرے ( ٹیلوں) پر الاٹ کی گئی ہیں جہاں تک پانی شاذو نادر ہی پہنچتا ہے۔ ان علاقوں میں محکمہ آبپاشی کے حکام کی جاگیرداروں،وڈیروں اور با اثر افراد کے ساتھ گٹھ جوڑ معمول کی بات ہے جس سے پانی کی فراہمی کے ضمن میں چھوٹے کسانوں کا بدترین استحصال جاری ہے تاہم نظام کے انتہائی پیچیدہ ہونے کی وجہ سے متاثرین کی کہیں شنوائی بھی نہیں ہوتی۔ درکار ضروریات کے مطابق پانی کی عدم دستیابی کے باعث انفرادی نقصانات کے ساتھ مجموعی زرعی پیداواربھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے جس کا واضح ثبوت گزشتہ سال کپاس کی فصل میں 27.8اور چاول کی فصل میں 2.7فیصد رکارڈ کمی ہے۔ دوسری طرف پانی کے مناسب ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب سے بری طرح متاثر ہونیو الے علاقوں میں بھی جنوبی پنجاب سر فہرست ہے جہاں سیلاب کی صورت میں 80فیصد رقبہ زیر آب آ جاتا ہے اور صرف فصلوں کی تباہی سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 250سے 300ارب روپے تک جا پہنچتا ہے۔ اس تمام صورتحال میں پینے سے زرعی استعمال اورعدم دستیابی سے سیلاب تک،پانی ملک کے دیگر حصوں کی طرح جنوبی پنجاب کا بھی انتہائی سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ پانچ دریاؤں کی سرزمین کے اس جنوبی حصے کو بتدریج بنجر ہونے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ جامع پالیسی کے تحت بڑے آبی ذخائر کی تعمیر سمیت ٹھوس اقدامات کئے جائیں ورنہ ہندو بنیا توپہلے ہی پاکستانیوں کوپانی کی بوند بوند کیلئے ترسانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔



.
تازہ ترین