• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو پرویز مشرف دور میں جاری کئے گئے 80ارب روپے کے یورو بانڈ کی اپنے وسائل سے واپسی میں مشکلات کا سامنا ہے جو اس سال جون میں کی جانی ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس قرضے کی ادائیگی کیلئے چین سے مختصر مدت کا 3.3 فیصد کی شرح منافع پر 750ملین ڈالر کا کمرشل قرضہ لیا جا سکتا ہے یا ایک اور بانڈ بھی جاری کیا جا سکتا ہے اور کمرشل بینکوں سے قرض لینے کا امکان بھی موجود ہے۔ جس سے ایک قرضہ چکانے کیلئے مزید قرضے لینے کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا اس بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں۔ اقتصادی ماہرین موجودہ مشکلات کی بڑی وجہ برآمدات اور ترسیلات زر میں مسلسل کمی کو قرار دے رہے ہیں۔ غیر ملکی قرضے لینا اقتصادی ترقی اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیرکیلئے ضروری خیال کئے جاتے ہیں۔ عام تاثر ہے کہ قرضے زیادہ تر ایسی اسکیموں پر صرف کئے جاتے ہیں جن سے کمیشن خوری کے مواقع مل سکیں۔ یہ سلسلہ آج نہیں، ہر دور حکومت میں جاری رہا ہے جس کے نتیجہ میں آج قوم کا بچہ بچہ بیرونی قرضہ میں جکڑا ہوا ہے۔ قرض دینے والے ممالک اور ادارے اپنا مفاد پیش نظر رکھتے ہیںاور قرضے لینے والے ممالک سے اپنی ناروا شرائط منواتے ہیں اس لیے بیرونی قرضوں پر انحصار جتنا کم ہو، ملک و قوم کیلئے اتنا ہی اچھا ہے۔ اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نیٹ ذخائر 16ارب 46کروڑ ڈالر ہیں۔ جنوری 2017 میں پاکستان کے ذمہ غیر ملکی قرضوں کی مالیت 74126 ملین ڈالر تھی جو گزشتہ سال کے 74638 ملین ڈالر کے مقابلے میں کم ہے۔ کوشش کی جانی چاہئے کہ متوازن مالیاتی پالیسی کے ذریعے غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کیا جائے اور ملکی وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے۔ 2017-18کے بجٹ میں بے جا اصراف کی حوصلہ شکنی اور سنجیدگی کے ساتھ برآمدات و ترسیلات زر میں اضافے کو یقینی بنانے سے یہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔ حکومت کو معیشت کے اس پہلو پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔

.
تازہ ترین