• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غور کیجئے تو محسوس ہو گا کہ افسانہ بھی زندگی کا حصہ ہے اور حقیقت بھی زندگی کا پہلو ہے۔ افسانے اور حقیقت کے درمیان محض ایک پردہ حائل ہوتا ہے۔ اگر وہ پردہ اٹھ جائے تو افسانہ حقیقت بن کر سامنے آ جاتا ہے۔ مجھے علامہ اقبال سے طالب علمی کے زمانے سے عقیدت رہی ہے۔ اس لئے کالج اور یونیورسٹی کے دور میں میں کلام اقبال اور سوانح اقبال شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ علامہ اقبال کی زندگی کے حوالے سے لکھی گئی کتابوں میں مجھے علامہ کی زندگی کا روحانی پہلو خاص طور پر متوجہ اور متاثر کرتا تھا لیکن ذہن میں اکثر یہ خیال ابھرتا اور غائب ہو جاتا تھا کہ خدا جانے یہ کہانیاں یا روحانی وارداتیں سچ بھی ہیں یا یار لوگوں نے جوش عقیدت میں گھڑ لی ہیں۔ مجھے اس دور میں بعض ایسے عاشقان اقبال سے بھی ملنے کا اتفاق ہوتا رہا جنہوں نے ان روحانی وارداتوں کا احوال خود اپنے کانے سے اقبال کے وفادار مخلص خادم علی بخش سے سنا تھا۔ ان عاشقان اقبال میں پروفیسر مرزا محمد منور مرحوم بھی شامل تھے جن سے کئی دہائیوں پر محیط میرا قلبی اور دوستانہ تعلق قائم رہا اور تعلق بھی ایسا کہ اکثر ہم دن کے 24گھنٹوں میں سے بارہ بارہ گھنٹے اکٹھے رہتے۔ اقبال شناسی میں مرزا منور صاحب کا نام سرفہرست حضرات میں شامل ہے۔ ان کا علامہ اقبال کے گہرے دوست اور بعد ازاں سمدھی (کُڑم) میاں امیر الدین سے قریبی تعلق تھا چنانچہ انہوں نے علامہ اقبال کے حوالے سے میاں صاحب سے اور علامہ اقبال کے عاشق سید نذیر نیازی سے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ سید نذیر نیازی سے میری بھی ان گنت ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ علامہ اقبال کے استاد خاص مولانا سید میر حسن کے قریبی رشتے دار تھے اور انہوں نے کئی برس علامہ اقبال کے ساتھ گزارے۔ طالب علمی کے دور میں مجھے علامہ اقبال کی جو چند سوانح حیات پڑھنے کا موقع ملا اُن میں بھی بعض واقعات علی بخش کے حوالے سے بیان کئے گئے تھے کیونکہ علی بخش نے زندگی علامہ کی خدمت کے لئے وقف کر دی تھی اور وہ ہمہ وقت اُن کی خدمت میں حاضر رہتا تھا۔ ہیرے کے ساتھ پتھر بھی پڑا رہے تو وہ ہیرا بن جاتا ہے جیسے محمود کے ساتھ ایاز اور علامہ اقبال کے ساتھ علی بخش۔ آقا سے محبت و وفا کی یہ کہانی ہمارا اسلامی ورثہ ہے اور اس کا راز مجھ پر اُس لمحے کھلا جب میں دمشق میں حضرت بلال حبشیؓ کے مزار پر حاضر ہوا۔
ہمارے روشن خیال دانشور روحانی وارداتوں کو قصے کہانیاں اور من گھڑت داستانیں سمجھتے ہیں اور ان پر طنز کے تیر چلاتے رہتے ہیں۔ اُن کا بھی قصور نہیں کہ کیونکہ ظاہر بیں قدرت کے بھید سمجھ سکتا ہے نہ قدرت افسانے اور حقیقت کے درمیان حائل پردہ اس کی نگاہوں سے اٹھاتی ہے۔ میں بذات خود ظاہر بیں اور لاعلم ہوں لیکن میرا ان روحانی وارداتوں پر یقین ہے اور مجھے ان واقعات میں سراسر سچائی نظر آتی ہے۔ چند روز قبل مجھے اوریا مقبول جان کے ایک ٹی وی پروگرام کا کلپ ملا۔ انہوں نے یہ پروگرام یوم اقبال کے حوالے سے 21؍ نومبر کو کیا تھا اور اس پروگرام میں علامہ اقبال کی بیٹی منیرہ اور ان کے دو صاحبزادگان موجود تھے۔ شرکاء نے تصدیق کی کہ انہوں نے یہ واقعات علی بخش سے سنے تھے۔ پہلا واقعہ یوں ہے کہ ایک روز علامہ اقبال نے رات تین بجے علی بخش کو اٹھایا۔ علی بخش اُن کے کمرے میں گیا تو وہاں ایک نہایت نورانی ، خوبصورت، مقناطیسی باریش شخصیت تشریف فرما تھیں اور علامہ سے باتیں کر رہی تھیں۔ علامہ نے علی بخش سے دو گلاس لسی لانے کو کہا تو علی بخش نے جواب دیا کہ اس وقت تو بازار اور دکانیں بند ہوں گی۔ علامہ نے کہا تم بازار جائو کوئی نہ کوئی دکان مل جائے گی۔ علی بخش تعمیل حکم کے لئے بازار گیا تو دور ایک دکان میں روشنی نظر آئی۔ وہ دودھ دہی کی دکان تھی اور دکاندار کا پُر نور اور باریش چہرہ متاثر کن تھا۔ علی بخش نے دو گلاس لسی لی اور ادائیگی کرنی چاہی تو جواب ملا ’’پھر لے لیں گے۔ ہمارا ڈاکٹر صاحب سے حساب چلتا رہتا ہے‘‘۔ علی بخش نے لسی کے دونوں گلاس علامہ اقبال کے کمرے میں رکھے اور خود جا کر سو گیا۔ علی بخش کے بقول اس واقعہ نے اس کے ذہن میں جستجو کی آگ لگا دی اور وہ کئی برس تک علامہ سے پوچھتا رہا کہ وہ صاحب جو نصف شب آپ سے ملنے آئے تھے کون تھے۔ علامہ کئی برس تک ٹالتے رہے ایک دن بالآخر انہوں نے علی بخش کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور کہا کہ وعدہ کرو تم یہ راز میری زندگی میں فاش نہیں کرو گے۔ پھر فرمایا ’’جو ہستی میرے کمرے میں تشریف رکھتی تھی وہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی تھے اور جس ہستی سے تم لسی لائے تھے وہ حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش تھے۔ علی بخش نے وعدہ نبھایا اور اس راز سے علامہ کی وفات کے بہت بعد پردہ اٹھایا۔ مذکورہ پروگرام کے شرکاء نے یہ واقعہ خود علی بخش کی زبانی سنا۔ اسی طرح انہوں نے اس کشمیری نوجوان کا ذکر بھی کیا جس نے خواب یا حالت رویا میں دیکھا کہ نماز کے لئے صف بندی ہو چکی ہے اور حضور نبی کریم ﷺ امامت کروانے والے ہیں۔ آپ ﷺ پوچھتے ہیں ’’میرا اقبال نہیں آیا؟‘‘۔ اتنے میں ایک بے ریش جوان آتا ہے اور صف میں شامل ہو جاتا ہے۔ کشمیر کا وہ زاہد و عابد نوجوان ’’اقبال‘‘ کی تلاش میں لاہور پہنچا اور انہیں دیکھتے ہی زار و قطار رونے لگا اور کہا یہی وہ شخص ہے جسے میں نے خواب میں حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ دیکھا۔ حضرت خضر علیہ السلام کے حوالے سے بھی ذکر ہوا اور یہ ذکر ڈاکٹر جاوید اقبال کی مستند کتاب ’’زندہ رُود‘‘ میں بھی صفحہ نمبر 317 پر موجود ہے۔ ’’نظم خضر راہ‘‘ کے ضمن میں ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ جن دنوں علامہ نے یہ نظم لکھنا شروع کی وہ نقرس کے مرض میں مبتلا تھے۔ کئی راتیں انہوں نے بیداری کے عالم میں گزاریں۔ رات کو علی بخش اُن کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ درد کی شدت کے سبب نیم بے ہوشی کی کیفیت میں علامہ اپنے پاس بیٹھے ایک بزرگ سے سوال پوچھتے جاتے تھے اور وہ جواب دیتے جاتے تھے۔ اس بزرگ کے رخصت ہونے کے بعد علامہ نے علی بخش کو آواز دے کر بلایا جو بیٹھک کے فرش پر لیٹا اقبال کو تنہائی میں کسی کے ساتھ باتیں کرتے سن رہا تھا۔ علامہ نے علی بخش کو اس بزرگ مرد کے پیچھے دوڑایا کہ وہ انہیں واپس لے آئے ابھی انہوں نے اس سے مزید کچھ پوچھنا ہے۔ رات کے تین بجے تھے۔ علی بخش پھرتی سے نیچے اترا تو دروازے کو اندر سے مقفل پایا، دروازہ کھول کر باہر نکلا تو ہُو کا عالم طاری تھا اور دور دور تک کسی انسان کا نام و نشان موجودنہیں تھا۔
ظاہر ہے کہ ہمارے روشن خیال دانشور حضرات ان باتوں کا مذاق اڑائیں گے۔ انہیں اس کا حق ہے کیونکہ افسانے اور حقیقت کے درمیان ایک پردہ حائل ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میری ایک نہایت زاہد و عابد اسی سالہ بزرگ سے ملاقاتیں رہیں جو معروف ماہر امراض قلب ہیں اور اُن کا اپنا قلب نور معرفت سے منور ہے۔ امریکہ سے ڈگری یافتہ اور ولایتی سوٹ نکٹائی میں ملبوس اس بزرگ نے زندگی کا طویل حصہ قرآن مجید پڑھنے، سمجھنے، اس کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر لکھنے میں صرف کیا ہے اور قرآنی تعلیمات و فلسفے کے راز سائنسی ترقی کی روشنی میں بیان کئے ہیں۔ ماشاء اللہ اب تک اُن کی اٹھارہ کتابیں چھپ چکی ہیں جن کی اکثریت امریکہ سے شائع ہوئی ہے۔ روحانیت کا ذکر ہو رہا تھا تو اُنہوں نے مجھے راز دارانہ انداز میں بتایا کہ ایک روز میں اپنے اسپتال کے دفتر میں بیٹھا تھا تو اچانک ایک باریش نورانی چہرے والی شخصیت آئی اور سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔ وہ مجھے کچھ دیر سمجھاتے رہے اور قرآنی تعلیمات کی گتھیاں سلجھاتے رہے۔ پھر اچانک چلے گئے۔ کئی روز بعد مجھے بتایا گیا کہ نورانی ہستی حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ اس واقعہ کو سننے کے بعد میں تو اقبال کی روحانی واردات پر بہرحال یقین کروں گا کیونکہ مجھے اپنے تجربے سے آگاہ کرنے والے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں غلط بیانی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ایسے زاہدوعابد شب بیدار شخص کو غلط بیانی کی ضرورت تھی۔ افسانے اور حقیقت کے درمیان حائل پردہ اٹھ جائے تو بظاہر افسانہ حقیقت بن کر سامنے آ جاتا ہے۔ دوستو یقین رکھو کہ روحانی دنیا بلکہ روحانی کائنات اپنا وجود رکھتی ہے لیکن قدرت اپنے راز صرف اپنے پسندیدہ مخصوص حضرات پر بے نقاب کرتی ہے جنہیں قُرب الٰہی حاصل ہوتا ہے۔



.
تازہ ترین