• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہی ہوا جو ہم نے کہا تھا۔ ایک ہفتے میں ہی ہم اس شخص کو بھول گئے جس نے نہایت ہی وحشیانہ انداز میں ڈنڈے اور لاٹھیاں مار مار کر بیس انسان ہلاک اور کئی زخمی کر دیے تھے۔ ایک تو مردم شماری کرنے والی ٹیم پر حملہ ہو گیا اس لئے ایک دو دن کے لئے ہماری توجہ ادھر بھی مبذول ہو گئی۔ ویسے تو یہ بھی ہمارے لئے معمول ہی بن گیا ہے۔ لیکن ہمارے روزمرہ کے مسائل بھی ایسے ہیں کہ ہم بڑے سے بڑے حادثے بھی جلد ہی بھول جاتے ہیں۔ اس لئے ہم سرگودھا والے واقعہ کو بھی بھول بھال گئے۔ بیس جیتے جاگتے انسانوں کے قاتل کو ہم نے عام مجرموں کی طرح پولیس اور قانون کے حوالے کر دیا ہے۔ اب اس پر مقدمہ چلے گا اور عام قاتلوں کی طرح اسے بھی سزا ہو جائے گی۔ مگر اصل مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ آ خر کسی بھی معاشرے میں ایسے لوگ کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ اور ہمارے معاشرے میں کیا خاص بات ہے کہ ایسے لوگ عام طور پر پیدا ہوتے رہتے ہیں؟ ان سوالوں پر کوئی توجہ نہیں دے گا حالانکہ مسئلے کی اصل جڑ یہی ہے۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ انسانیت کے اس قاتل کو پہلے نفسیات کے ماہروں کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے۔ بچپن سے اب تک اس کی زندگی کے ہر پہلو کا نفسیاتی طور پر جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اگر وہ الیکشن کمیشن میں ملازم تھا تو وہاں اس کی ذہنی کیفیت کیا تھی؟ اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے۔ بجا کہ قتل کی اس واردات میں مزار کی گدی نشینی کا جھگڑا بھی تھا۔ لیکن اس جھگڑے میں ایک دو کے بجائے پورے بیس آدمیوں کا قتل کوئی نفسیاتی مریض ہی کر سکتا ہے۔ ایک اخبار کی خبر میں تو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس شخص نے دعویٰ کیا کہ اگر مجھے پکڑ نہ لیا جاتا تو میں نے جن لوگوں کو قتل کیا ہے انہیں زندہ بھی کر دیتا۔ اب اس کے بعد اس کی ذہنی کیفیت کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ بلکہ یہاں تو ان مریدوں کا بھی نفسیاتی تجزیہ ہونا چاہئے جو خود ہی ڈنڈے کھانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے تھے۔ عقیدے کی یہ کمزوری اور خوش عقیدگی ہمارے معاشرے میں ایک بیماری کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ ہمارے پاس اس کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ ایسے آدمی کو عام مجرموں کی طرح سزا دو اور اسے پھانسی پر چڑھا دو۔ ہم تو کہتے ہیں کہ چلو، اسی کو ایک ٹیسٹ کیس بنا لو اور علمی، فکری اور نفسیاتی طور پر اس کا جائزہ لو۔ اتفاق سے اس ہفتے کے آخر میں لاہور میں ہی ماہرین نفسیات کی سالانہ کانفرنس ہو رہی ہے۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے نفسیات کے ماہرین شرکت کر رہے ہیں۔ اس شخص کو ان ماہرین کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ وہ اس کو ٹیسٹ کیس بنا کر اس کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ عام آدمی کو علم تو ہو کہ ایسے عناصر کیسے اور کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ اور وہ کسی بھی معاشرے کی ذہنی اور فکری صحت کے ساتھ انسانی جانوں کے لئے بھی کتنا بڑاخطرہ ہوتے ہیں۔
اب یہاں تک لکھنے کے بعد خیال آیا کہ ہماری کسی بھی حکومت کو اتنی فرصت ہی کہاں ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے علمی اور نفسیاتی مسائل کی طرف توجہ کرے۔ وہ تو اپنی بقا کے لئے ایسے کاموں میں جتی رہتی ہے جو جسمانی طور پر نظر آئیں۔ اور یہ کسی ایک حکومت کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے۔ جو بھی حکومت آتی ہے وہ اسی قسم کے کاموں میں مصروف رہتی ہے۔ اگر کسی حکومت کو یہ شعور ہوتا تو وہ تعلیمی نظام کی طرف توجہ کیوںنہ کرتی۔ ایسا تعلیمی نظام اور ایسی تعلیم رائج نہ کرتی جو طلبہ میں سائنسی، تنقیدی اور تجزیاتی فکر پیدا کرے۔ وہ تعلیم جو طالب علموں میں سوال کرنے کی صلاحیت پیدا کرے۔ مسلمات پر بھی سوال کر نے کی اہلیت اور جرات پیدا کرے۔ جستجو اور تجسس کا مادہ پیدا کرے۔ ہماری تعلیم یہی صلاحیت پیدا نہیں کر رہی ہے۔ اسی لئے ہمارے ہاں شدت پسندی اور دہشت گردی پیدا ہو رہی ہے۔ اور اسی لئے بیس انسانوں کی جان لینے والے پیدا ہو رہے ہیں۔ صرف انسانوں کی جان لینے والے ہی نہیں بلکہ خوشی خوشی اپنی جان پیش کرنے والے بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ نفسیاتی ماہرین کی عالمی کانفرنس میں اسی طرح کے مسائل پر غور کیا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں جہاں نفسیات کے ماہر مو جود ہوتے ہیں وہیں کسی تعویز گنڈے اور جھاڑ پھونک کرنے والے عامل کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ انہیں بھی موقع دیا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنا موقف بیان کریں۔ اس کانفرنس کے مہتمم ہمارے معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد ریاض بھٹی ہیں۔ اس بار آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے جشن ادب اسلام آباد کی وجہ سے ہم نے اس کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی ہے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس کانفرنس میں بیس انسانوں کی جان لینے والے شخص کو ٹیسٹ کیس بنا کر اس کا بھرپور تجزیہ کرائیں گے۔ اور یہ تجزیہ صرف کانفرنس کے اجلاسوں تک ہی محدود نہیں رکھا جائے گا بلکہ اخباروں اور ٹی وی چینلز کے ذریعے اسے عام آدمی تک بھی پہنچایا جائے گا۔ ہم ان کانفرنسوں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ بڑی عالمانہ اور فکر انگیز باتیں ہوتی ہیں مگر اس وقت حیرت ہوتی ہے جب نفسیات کے کچھ ماہر بھی کٹھ ملائوں کی طرح باتیں کر نے لگتے ہیں۔ خیر، اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے۔
اب آخر میں ہم مردم شماری کی اس کمزوری کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں جس کا ذکر کشور ناہید نے بھی اپنے کالم میں کیا ہے۔ مردم شماری کا کام کرنے والے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنا کام کر رہے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ مردم شماری عدالت کے حکم پر ہو رہی ہے اس لئے اس کے لئے جو بنیادی کام تھے حکومت نے وہ نہیں کئے۔ سب سے پہلا کام تو یہ تھا کہ ملک کی آبادی کے ہر بالغ مرد اور عورت کا شناختی کارڈ بنوایا جاتا۔ اس کے لئے شہر شہر اور گائوں گائوں مہم چلائی جاتی۔ دیہات ہی نہیں، شہروں میں بھی ایسے ان پڑھ اور غریب لوگ موجود ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ ہی نہیں ہیں۔ ان میں خاص طور پر وہ عورتیں شامل ہیں جو گائوں سے آکر شہروں کے گھروں میں کام کر رہی ہیں۔ ان میں ایسی عورتیں بھی ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ تو ہیں، لیکن چو نکہ وہ مردم شماری کے وقت گائوں میں اپنے گھر پر نہیں ہیں، شہروں میں ہیں، اس لئے مردم شماری میں ان کا نام شامل نہیں کیا جا سکا ہے۔ اور ایسی عورتوں اور مردوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔ دیہات میں تو اس سے بھی برا حال ہے۔ وہاں آبادی ادھر ادھر منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اب اگر اس طرح مردم شماری ہو رہی ہے تو آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ ملک کی آبادی کا صحیح اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ دنیا بھر میں مردم شماری صرف اس لئے ہی نہیں کرائی جاتی کہ اس سے انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیاں کرا لی جا ئیں بلکہ اس لئے کرائی جاتی ہے کہ اس آبادی کو سامنے رکھ کر ہی معاشی اور معاشرتی منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ مالیاتی تقسیم بھی اسی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اب جس طرح مردم شماری ہو رہی ہے اس سے تو ہماری آبادی کا اگر بڑا نہیں تو خاصا حصہ شمار ہونے سے رہ جائے گا۔



.
تازہ ترین