• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پھر آ گیا ہوں، آپ کو اپنا وزیراعظم بنا کر دوں گا، جیسے چئیرمین سینیٹ بنا کر دیا، یہ حیران کن دعویٰ سابق صدر آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر فخریہ انداز میں کیا، پوری قوم نے ان دعوئوں کو سچ کرنے کے وعدوں کو بھی سنا؟ اور عجز انکساری و کسمپرسی میں سراپا سوال ہے کہ جناب زرداری صاحب آپ کا یہ دعویٰ کیسے اور کیونکر پورا ہوسکتا ہے جب آپ اپنا کوڑا کچرا بھی خود نہ اٹھا سکتے ہوں، ایک تاریخی و عوامی پارک کو سدھارنے کی سکت نہ رکھتے ہوں، عوام کو صحت وتعلیم جیسی بنیادی سہولتیں اور صاف پانی تو درکنار ہاتھ منہ دھونے کے لئے بھی پانی فراہم نہ کر سکتے ہوں، جب آپ امن وامان اور عوامی مسائل کے حل کو ترجیح بنانے کی بجائے محض ایک آئی جی پولیس کو ہٹانے کے لیے صوبائی کابینہ کا ’’اہم‘‘ اجلاس بلاتے ہوں، خود اینٹ سے اینٹ بجانے کی ’’دھمکی‘‘ دے کر خود ساختہ جلاوطنی اور پھر نامعلوم ’’ڈیل‘‘ کر کے کسی ارب پتی دوست کے نجی طیارے میں واپس آتے ہوں، جب آپ عوامی لیڈر کے طور پر یہ کہتے ہوں کہ میرے ڈاکٹرز دبئی، لندن اور امریکہ میں ہیں میرے بیرون وطن جانے یا واپس آنے کا شیڈول وہی بناتے ہیں، کرپشن کےخلاف آپ کے فیصلہ کن اقدامات اس حد تک اپنی مثال آپ ہوں کہ جب آپ کے حاضر سروس ’’قریبی وزیر‘‘ کرپشن کے الزام میں پکڑے جانے کےخوف سے ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں اور ’’کسی طور‘‘ واپس آئیں تو انہیں سونے کے تاج پہنائےجائیں، جب صرف 500ارب کی کرپشن پر گرفتار ملزم کو آپ ملنے جائیں اور وہ ’’طے شدہ معاملات کےتحت بظاہر کمزور نظام تفتیش وعدل کے نتیجہ میں رہائی پا جائے، آپ کےاقتدار کی ناک تلے سندھ کے دیہی علاقوں میں سینکڑوں معصوم بچے بھوک سے نڈھال ہو کر جان سے چلے جائیں، آپ 5 سال وفاق اور 9سال صوبائی حکمرانی کے باوجود اپنی قائد کے قاتلوں کو سزا دینا تو دور کی بات تلاش تک نہ کرسکیں، عوام کی تو خواہش ہوگی کہ اس شاندار ’’پرفارمنس‘‘ اور ’’گڈ گورننس‘‘ پر آپ کو ’’ہیروں‘‘ کا تاج پہنائیں اور پھر بقول آپ کے اسی سال انتخابات کے لیے آپ پہلے ہی تیار لہٰذا آپ کو نہ صرف ووٹ دیں بلکہ آپ کو اپنا وزیراعظم بھی بنا کر دکھا دیں تاکہ آپ کے خواب کو تعبیر مل جائے اور عوام ایک مرتبہ پھر اسی آئینہ میں اپنا منہ دیکھتے رہ جائیں۔ اس سے بھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ عوام آپ کے روٹی کپڑا اور مکان کے نعروں کی حقیقت بھی دیکھ چکے ہیں اور جان چکے ہیں کہ سب دعویٰ محض آپ کی اپنی سیاسی ضرورت تک محدود ہوچکے ہیں، کیونکہ آپ نے تو اپنا کوڑا اٹھانے کا ٹھیکہ بھی ملک ریاض کو دے دیاہے، صوبے میں پل اور سڑکیں اور ترقیاتی منصوبے بھی وہی بنا رہا ہے، روٹی کے لئے دسترخوان بھی وہی بچھا رہاہے، عوام کو مکان بناکر بھی وہی دے رہا ہے، سندھ کے ریگستان بھوک اور پیاس سے نڈھال لوگوں کی مدد بھی وہی کر رہا ہے، زلزلہ یا ہو یا سیلاب وہی اپنے وسائل سے آگے آرہا ہے، عوام کا مشورہ ہے کہ اگر یہ سب آپ کی ذمہ داری نہیں تو اپنی گورننس اور پارٹی کو بھی ٹھیک کرانے کے لئے کسی کےحوالے کردیں۔ عوام کی پکار ہے کہ وہ بے انصافی، بھوک، بے روزگاری اور دہشت گردی سے زندہ لاشیں بن چکے ہیں آپ ان زندہ لاشوں سے کہتے ہیں کہ وہ پھر شہید لاشوں کے نام پر ووٹ دیں، کیا آپ کی یہی گڈگورننس ہے؟
جناب عمران خان صاحب نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں ویسے تو وہ سیاست میں آئے ہی وزیراعظم بننے کے لئے تھے لیکن شومئی قسمت دیکھئے کہ 20 سال بعد بھی بوجوہ وزیراعظم بننے میں کامیاب نہیں ہوسکے، ہاں اس مرتبہ وہ وزیراعظم اس لئے بننا چاہتے ہیں تاکہ ملکی اداروں کو ’’ٹھیک‘‘ کرسکیں، یہی وہ ادارے ہیں جنہیں ایک ایک کر کے خود عمران خان بدترین تضحیک کا نشانہ بناچکے ہیں غلط ثابت ہونے پر کبھی معذرت تک نہیں کی۔ کمال یہ ہے کہ وہ پھر عوام سے پرانے وعدوں( تبدیلی کےنام ) پر ووٹ لینے کے خواہشمند ہیں، کیونکہ یہ وہی ہیں جو گزشتہ چار برسوں سے ملک کے اہم ترین صوبے کے بادشاہ ہیں۔ صوبے میں عوام کو اچھی زندگی اور پرامن ماحول دینے کی بجائے ان کے دعوے کی بنیاد محض پولیس اصلاحات ہیں اور دعویٰ ہے کہ اس کو غیرسیاسی پولیس بنا دیا ہے، انہوں نے خود اس کی خوب عکاسی کی ہے کہ حال ہی تعینات ہونے والا آئی جی بنی گالا کے محل میں حاضری دے رہا ہے۔ عوام پوچھ رہے ہیں کہ صوبے میں عام آدمی کےتحفظ کے لئے کیا گیا، شدت پسندی، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے خاتمے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے، محض واٹس اپ گروپ بناکر دہشت گردی سے نمٹنا بھی ایک نیا آئیڈیا ہے؟ صوبائی احتساب کمیشن کو ’’بڑوں‘‘ کی چوری پکڑنے پر بے سہارا کرنے کے بعد اب تک سربراہ کی تقرری نہیں کی گئی، ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر محکموں کو بے اختیار کرنے کے اقدامات کو کیوں نہیں روکا گیا، جن اتحادی جماعتوں کےوزرا پر خود کرپشن کا الزام لگایا ان کےخلاف کارروائی کی بجائے دوبارہ اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا گیا، سیاسی مجبوری و صوبائی مقابلے کے تحت میٹرو بس جیسے مہنگے منصوبے سے عوام کو ترقیاتی اقدامات کے طور پر اطمینان دلایا جارہا ہے، تاہم عوام جاننا چاہتے ہیں کہ پورے صوبے میں ہائڈرو پاور سمیت دیگر ترقیاتی منصوبے کیوں نہیں لگائے گئے، ،صحت و تعلیم میں بہتری کے کاغذی اقدامات اچھے ہیں لیکن آپ کے دعوئوں کے مطابق چار سال بعد بھی صوبے کے تمام عوام کو مفت نہیں تو کم ازکم صحت و تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی کیوں ممکن نہیں ہوسکی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود آپ کے دھاندلی کے شور میں نہ کمی آئی اور نہ الزامات کی زد میں آنے والوں کی فہرست ختم ہوسکی ہے۔ کیا حکومت میں ہونے کےباوجود مسلسل دھاندلی کا رونا دھونا آپ کو ووٹ کا حقدار بناسکتا ہے۔ کیا یہی گڈ گورننس ہے؟
وزیراعظم کی جماعت ن لیگ بھی دعویدار ہے کہ اگلی مرتبہ نوازشریف ہی وزیراعظم بنیں گے، چلیں ملکی ترقی کےحوالے سے ان کے دعوئوں کو مان بھی لیا جائے تو زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک میں دہشت گردی، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے دعوے حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے، سڑکیں اور پل بنانا یقیناً ترقی کا ایک رخ ہے لیکن عوام پوچھتے ہیں کہ عام آدمی کو محفوظ بنانا، روزگار دینا، معاشی حالت سنوارنا بھی آپ ہی کی ذمہ داری تھی، سرکاری اداروں کو آزادی ومختاری دینا اور قابل افسران کا تقرر بھی آپ ہی نے کرنا تھا، ان کےساتھ ساتھ بطور وزیراعظم و سربراہ مملکت اندرون و بیرون ملک محاذ پر آپ کی پالیسیوں کےخدوخال ابھی تک واضح نہیں ہوسکے، عدالتی نظام میں بہتری اور انصاف کی راہ میں رکاوٹیں دور نہیں کی جاسکیں۔ صوبے میں چھوٹے بھائی کے 9 سالہ طویل اقتدار میں پنجاب کی ریڑھ کی ہڈی جنوبی پنجاب کے باسیوں کی محرومیاں کم نہیں کی گئیں، صوبے میں پولیس وردی تبدیل کرکے ’’امن‘‘ کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کا انوکھا تجربہ اپنی مثال آپ ہے، آپ کے دعوئوں کےمطابق سب کچھ ٹھیک بھی مان لیا جائے تو عوام سے ووٹ لینے اور مسند اقتدار کو پانے کے لیے سب سے بڑا چیلنج عوام کی نظروں میں خود کو ایماندار ثابت کرنا بھی ہے۔۔۔ گڈ گورننس کا یہ مظہر ابھی باقی ہے؟



.
تازہ ترین