• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب بھر میں وزیراعلیٰ کے حکم پر ہفتۂ غذائیت منایا جا رہا ہے اور پہلی بار محکمہ صحت نے صوبائی حکومت کی ہدایت پر گھر گھر جا کر غذائی قلت کے شکار بچوں کی رجسٹریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ اس مہم کے تحت بچوں کو او آر ایس، صحت افزا سیرپ اور مختلف فوڈ سپلیمنٹ بھی مہیا کئے جا رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب پاکستان کا شمار غذائی قلت سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ہوتا ہو اور تھر جیسے علاقوں میں خوراک کی کمی کے باعث بچوں کی ہلاکت معمول بن چکا ہو، پنجاب حکومت کا یہ منصوبہ قابلِ تقلید ہے جس کی پیروی دوسرے صوبوں کو بھی کرنی چاہئے۔ خصوصاًسندھ میں اس طرز کے منصوبوں کا آغاز کرنا چاہئے۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک اور زراعت کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 87کروڑ افراد مستقلاً شدید غذائی قلت کا شکار ہیں لیکن پاکستان جیسے ملک میں جو گندم اور دودھ جیسی غذائیں پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، ایک کثیر طبقے کا غذائی عدم تحفظ کا شکار ہونا نہایت تشویشناک ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں گندم، چاول اور مکئی سمیت بہت سی سبزیاں اور پھل وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں لیکن تقریباً چالیس فیصد سبزیاں اور پھل ذخیرہ کرنے کا مناسب بندوبست نہ ہونے کے باعث گل سڑ کر ضائع ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ قیمتوں کے عدم استحکام اور غذائی قلت کی صورت میں نکلتا ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ نومبر میں جاری کردہ یورپی یونین کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو غذائی قلت سے سب سے زیادہ متاثر ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔یہاں پر غربت، ناکافی صحت کی سہولتوں، بیماریوں اور نامناسب دودھ پلانے کی وجہ سے 44فیصد بچے دائمی غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف پنجاب بلکہ ملک بھر میں انسدادِ غذائی قلت کے اقدام کئے جائیں اور پاکستان کی نسلِ نو کو صحتمند اور توانا بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔

.
تازہ ترین