• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی کا ایک بڑا حصہ اقوام متحدہ کے نیو یارک ہیڈ کوارٹرز کی عمارت کے دریچوں راہداریوں، سیکورٹی کونسل، جنرل اسمبلی ٹرسٹی شپ کونسل کے ہالوں اور گردونواح میں اچھی بری خبریں،ملائم ڈپلومیسی، تلخ حقائق اور حالات واقعات کے ‘‘ بیک گرائونڈ‘‘ سمیٹتے اور سمجھتے گزرا ہے۔ پاکستان سے آنیوالے حکمرانوں اور سرکاری وفود کی تقریر یں بھی خوب خوب سنیں اور رپورٹ کرنے کے مواقع بھی ملے۔ لیکن10اپریل2017کو ایک ایسے پاکستانی کی تقریر سننے کو ملی ہے جو کسی پاکستانی وفد کا حصہ بھی نہیں نہ ہی کوئی سرکاری عہدہ پاس ہے لیکن ممبر ممالک کی صرف حکومتوں سے ڈیل کرنے والی عالمی تنظیم اقوام متحدہ اس پاکستانی کو نہ صرف اپنا پلیٹ فارم بلکہ اسے اعزازی منصب بھی پیش کرتی ہے اور قبول کرنے پر اس کا شکریہ بھی ادا کرتی ہے۔ میں نے16سال کی عمر میں بھی اس پاکستانی کو اقوام متحدہ سے خطاب کرتے سنا ہے اور پھر نوبل پرائز وصول کرتے بھی اسکرین پر دیکھا۔ سوات کی ملالہ کو ایک ممتاز عالمی شخصیت کے مراحل تیزی سے طے کرتے ہوئےدیکھ کر خوشی ہوتی رہی لیکن10اپریل کو اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ کونسل کے ہال میں19سالہ ملالہ یوسف زئی کی تقریر اور طرز عمل نے اتنی دلی خوشی دی کہ ملالہ کے والد ضیاالدین سے آمنا سامنا ہوتے ہی فخر اور خوشی سے انہیں ملالہ جیسی بیٹی کا باپ ہونے کی دلی مبارکباد دی اور تفصیلی انٹرویو کی فرمائش بھی کرڈالی جوانہوں نے پوری کردی ۔
ملالہ کے بارے میں منفی تاثرات بھی مجھے پڑھنے کو ملتے رہے ہیں۔ نظریاتی مخالفین کے الزامات وشبہات بھی سنے اور پڑھے ہیں 8اپریل کو بھارتی اخبارات میں ملالہ یوسف کو اقوام متحدہ کا اضافی اعزاز دیئے جانے کی خبر پر بھارتی قارئین کی ایک بہت بڑی تعداد کے زہریلے منفی تبصرے پڑھ کر احسا س ہوا کہ آج کے بھارت میں پاکستان دشمنی اور مسلمانوں سے تعصب کی فضا کس قدر زہریلی ہے۔ مگر جب ملالہ نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کھل کریہ کہا کہ آج وہ پاکستان کی نمائندہ ہیں۔ کوئی دہشت گرد اور انتہا پسند نہیں میں پاکستان کی نمائندہ ہوں۔ ملالہ کے ان ’’ پاورفل ‘‘ الفاظ نے نہ صرف حاضرین کو متاثر کیا بلکہ ملالہ کی پاکستانیت پر فخر ہوا ۔ایسے مرحلے پر کہ جب پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر منفی پروپیگنڈے کا سیلاب آیا ہواہے۔ کئی پاکستانی محض امیگریشن کے حصول اور سیاسی پناہ کیلئے پاکستان کے خلاف بیانات داخل کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔19سالہ ملالہ یوسف زئی دنیا کے اعلیٰ ترین اعزازات حاصل ہونے کے بعد بھی برملا اور عالمی اداروں میں خود کو پاکستانی کہتے اور پاکستانیت پر فخر محسوس کرتی ہے۔ ایسے میں کہ جب دنیا میں پاکستانی پاسپورٹ کی ’’ ریٹنگ‘‘ بھی اتنی اچھی نہیں۔ یہ خاتون پاکستان کا ذکر کئے بغیر بھی عالمی شخصیت کی حیثیت رکھتی ہے۔ عالمی مناصب، پروٹوکول اور دنیا کی نعمتیں اس کو حاصل ہیں مجھے ملالہ کی پاکستان سے محبت کیلئے کسی اور ثبوت یا شہادت کی ضرورت نہیں۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی سنئے۔ نیو یارک کی ایشیا سوسائٹی میں پاکستان کی فارن پالیسی اور دگر پہلوئوں پر ایک مذاکرہ تھا کہ سامعین میں سے ایک پاکستانی بزرگ نے اٹھ کر پاکستان پر تنقید کے وہی کوڑے برسانے شروع کردیئے جو عموماً پاکستان مخالفین برساتے ہیں اور ساتھ ہی انہوںنےیہ بیان کردیا کہ وہ پاکستان کے سابق سفیر بھی رہے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ میں آباد ہوگئے ہیں۔ ان کا تنقیدی سوال نما خطاب ختم ہوتے ہی سامعین میں سے ایک آواز آئی کہ آپ کو ساری عمر اسی خراب پاکستان کے سرکاری خزانے نے پالا ہے۔ بہرحال بات ملالہ کی ہورہی ہے کہ ملالہ ایک عالمی شخصیت ہے لیکن اس کے باوجود اپنی پاکستانیت کا ذکر کرکے وہ پاکستان مخالفین کو لاجواب کررہی ہے کہ میں بھی پاکستان ہوں۔
اسی نشست میں ملالہ نے ایک نوجوان طالبہ کے سوال کے جواب میں اسلام کے بارے میںعالمی سطح پر غلط تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں مسلمان ہوں اور مجھے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔ اسلام امن کا مذہب ہے اور دہشت گرد کا اسلام سے اسی طرح قطعاً کوئی تعلق نہیں جس طرح کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے مجرم اور اس کے جرم کا ذمہ دار اس کا مذہب نہیں ہے یہ وہ زبان اور وہ انداز ڈائیلاگ ہے جو مغربی دنیا کا انداز ہے۔ آج کے دور کے غیر مسلم نوجوانوں سے انہی کے لہجوں اور انہی کی فریکونسی پر اسلام کا یہ دفاع کتنے لوگوں نے کیا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود نوجوان نسل ملالہ کودیکھنے ، ملنے اور سیلفی بنوانے کےلئے بے حد مشتاق نظر آتی ہے۔
ملالہ کامشن لڑکیوں میں تعلیم کوفروغ دینا قرار پایا ہے اور’’ میسنجر آف پیس‘‘ کے منصب کا سبب بھی یہی ہے۔ کیا اسلام مستقبل کی مائوں کیلئے تعلیم سے منع کرتا ہے۔ اس مذہب کے اولین احکامات میں ’’ اقرا‘‘ سرفہرست ہے۔ تعقل،تفکر اور تدبر کی تلقین وتعلیم تو اسلامی فریضہ ہے۔ ملالہ کا لباس، وضع قطع بھی ایک ’’دیسی‘‘ بیٹی جیسی ہے وہی دوپٹہ اور پاکستانی لباس پہن کر وہ تمام عالمی اداروں اور اجتماعات میں شریک ہوتی ہے۔ کیا وہ مہنگے فیشن ڈیزائنر کے لباس نہیں پہن سکتی ۔ وہ ایک مشن کے ساتھ رواں دواں ہے۔ ملالہ کے والد سے تفصیلی گفتگو ہوئی تو ملالہ کا کہنا تھا کہ وہ گھر میں بھائی کے ساتھ گھر کے فرد جیسی ہے۔ اور ہماری فیملی کا انداز اور اسٹرکچر بھی ملالہ کے عالمی شخصیت ہونے کے باوجود نہیں بدلا ۔ میں نے امریکہ میں ایک طویل عمر گزارنے اور اپنی پاکستانی کمیونٹی سے گہرے رابطوں کی بدولت بہت کچھ دیکھا اور سمجھا ہے۔ لوگوں کو معمولی مقاصد کیلئے اپنی شناخت، مذہب اور سیاسی وابستگیاں بدلتے اور جھوٹے حلف نامے داخل کرتے، خاندان کے رشتوں کو قانونی کاغذوں میں تبدیل کرکے امیگریشن اور غیر ملک میں قیام کرتے دیکھا ہے۔ ہمارے کتنے ہی پاکستانی بھائی تمام عمر پاکستان میں گزار کر پڑوسی افغانستان کا پاسپورٹ حاصل کرکے امریکہ وکینیڈا میں سیاسی پناہ حاصل کرچکے ہیں اور وہ پاکستان کا نام تک لینے کے روادار نہیں۔ اگر ملالہ آج ایک عالمی شخصیت بن کر بھی دنیا کے سامنے خود کو پاکستانی اور مسلمان بڑے فخر بڑی دلیل کے ساتھ کہہ رہی ہے تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ ملالہ آپ نے پاکستان کی دختر ہونے کا حق ادا کردیا ہے آپ نے مسلمان ہونے پر فخر کرکے بڑی خدمت کی ہے آپ قابل فخر پاکستانی مسلمان اور ہمارا اثاثہ ہیں آپ کے والدین بھی لائق مبارکباد ہیں۔



.
تازہ ترین